21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Dec 2024 Download:Click Here Views: 10471 Downloads: 572

(17)-صداے بازگشت

 

جلسوں میں بگاڑ

محترم قارئین کرام:” کرنی کرے تو کیوں کرے اور کرکے کیوں پچھتائے ۔ بوئے پیڑ ببول کا تو آم کہا سے کھائے “  اندازہ لگ گیا ہوگا کہ کس موضوع پر بات ہونے والی ہے ۔ آجکل سوشل میڈیا پر خوب ویڈیو وائرل ہورہی ہے اشتہار پر لکھ دیا جاتاہے کہ جلسہ یا جشن عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسٹیج پر جو نظارہ ہوتاہے اس سے میلادالنبی و سیرۃ النبی کا دور دور سے واسطہ نہیں ہوتا کسی کسی جلسے میں نقیب صاحب اتنا وقت ضائع کردیتے ہیں کہ ان کی پوری نقابت پر اور علماے کرام کی تقاریر کے اوقات پر غور کیا جائے تو نقیب صاحب ایک مقرر کی تقریر کا وقت خود استعمال کرجاتے ہیں نعرہ لگواکر، سبحان اللہ کہوا کر ، لطیفہ سناکر، پیروں بزرگوں کا واسطہ دے کر اور سامنے بیٹھی عوام کو کیا کہا جائے سامعین یا شائقین اس بات کا خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہیں تو تعریف کی جاتی ہے کہ ناظم اجلاس بڑے ہی حاضر جواب ہیں بڑی شاندار نظامت کرتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے شادی کارڈ پر نکاح مسنون چھاپ کر بے شمار کام سنت کے خلاف کیا جاتا ہے دو دو چار چار سو آدمیوں کی بارات لے کر لڑکی  کےباپ کے دروازے پر پہنچا جاتاہے ، کھانا کھایا جاتاہے ، ناچ گانے بھی ہوتے ہیں،  آتش بازیاں بھی ہوتی ہیں ، جہیز کا مطالبہ بھی ہوتاہے ، لڑکی کے باپ کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا جاتاہے ۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا واقعی ہم اسی کو نکاحِ مسنون سمجھتے اور مانتے ہیں  نکاح میں سواے خطبہ کے دوسرا کوئی کام تو سنت کے مطابق نظر نہیں آتا اور اب تو حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ جس اسٹیج سے شادی بیاہ کو آسان بنانے کا مشورہ و پیغام دیا جاتا تھا وہ اسٹیج بھی کافی مہنگے ہوچکے ہیں ، وہ جلسے بھی انتہائی خرچیلے ہوچکے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل کر سامنے آیا کہ بہت سے علاقوں میں ائمہ مساجد نے خود کشی تک کرڈالی۔ دوسری جانب کئی کئی بہنوں اور بیٹیوں نے ایک ساتھ خود کشی کرلی پھانسی کے پھندے سے جھول گئیں اتنا ہی نہیں ارتداد کی لائن لگی ہوئی ہے شادی بیاہ نکاح کو آسان بنانے کا مشورہ و پیغام دینے والوں نے خود جب بارات میں شامل ہونا شروع کردیا تو آتش بازیوں کو روکنے کی جرأت گنوا بیٹھے ، ان کے سامنے جہیز کے سامانوں کی نمائش لگائی جانے لگی وہ دیکھ کر بھی منع کرنے کی طاقت گنوا بیٹھے ،نتیجہ یہ ہوا کہ نصف ایمان کے درجے والی تقریب پر لچے لفنگوں اور لذت اندوزی و لہو ولعب میں مست رہنے والوں نے اس بابرکت تقریب کو ہیک کرلیا اور شادی بیاہ اور نکاح کا پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ۔

 مشاعروں کی طرز پر جلسوں کی نظامت شروع کردی گئی چٹکلا سنایا جانے لگا ، ہنسنے ہنسانے کا راستہ اختیار کیا گیا کئی کئی سینٹی میٹر کے القابات سے علماء و مقررین کی شان میں استقبالیہ نعرہ لگایا جانے لگا تو بہت سے علما نے اولیاے کرام و بزرگانِ دین کے نام سے منسوب فرضی کہانیاں سنانا شروع کردیا ،کرامتوں کے نام پر فرضی اور من گھڑت روایات بیان کرنا شروع کردیا ، اسٹیج پر بیٹھے علماےکرام کی خاموشی اور عوام کی لطف اندوزی نے منبر رسول کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا اور جلسے کو نمائش فیشن اور سیر وتفریح کا سامان بناڈالا ابتدائی دور میں جلسے کی نظامت کے نئے انداز پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ ایک ناظم اجلاس ایک مفتی کو بھرے اسٹیج پر کہہ رہا ہے کہ جب فلاں صاحب اس جلسے میں مدعو تھے اور آپ واقف تھے تو آپ کو جلسے میں یا اسٹیج پر آنا ہی نہیں چاہیے تھا یعنی ہٹ دھرمی اور بے حیائی کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور جلسے کو ، جلسے کے نظام کو اصول وضوابط کو نقیبوں اور گویوں نے ہیک کرلیا اب کچھ علماء کرام کو احساس ہوا کہ ارے پانی تو سر سے اونچا ہوگیا نعت خواں تو نوٹ خواں ہوگئے اور دوران تقریر مجمع منتشر اور دوران نعت خوانی پورا مجمع پنڈال میں اچھل اچھل کر داد دی جارہی ہے اسٹیج پر کسی کو حال آرہی ہے اور پیسہ اس انداز سے دیا جاتا ہے کہ جیسے جلسہ نہیں مجرا ہورہاہے۔

 معاف کرنا تلخ ضرور ہے لیکن یہی سچائی ہے کہ جلسے کی شبیہ بگاڑنے کا کام سب سے پہلے نقیبوں نے کیا ہے، جلسے کے اناؤنسروں نے کیا ہے، کسی خطیب کو مائک پر بلانے سے پہلے کسی شاعر کو یہ کہہ کر مائک پر بلانا کہ ذرا ماحول بن جائے تو پھر سوال تو پیدا ہوتاہے کہ کیسا ماحول بنانا چاہتے ہیں اور جب شاعر مائک پر آتا ہے تو کبھی ٹرین کی آواز کی طرح چھک چھک آواز نکالتا ہے ، کبھی ہارمونیم و بانسری کی آواز نکالتا ہے اور کہتا ہے کہ کہو سبحان اللہ آگے کہتاہے کہ اس بزم میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں ۔ شرم وحیاء گھول کر پینے والو! جب یہ مانتے ہو کہ اس محفل میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں تو پھر گانے باجے کی دھن پر نعت پاک پڑھنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ کیا یہ نبی پاک کی شان میں گستاخی نہیں ہے، توہین رسالت نہیں ہے ؟؟ جب کہ کسی سنگر نے نعت نبی کی دھن پر گانا نہیں گایا ہے لیکن خود کو حضرت حسان کی سنت کی ادائیگی کا دعویٰ کرنے والوں نے ساری حدیں پار کردیں بلکہ واضح طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نقلی پیروں اور روٹی توڑ فقیروں نے خانقاہوں کو ہیک کرلیا ، نقیبوں، پیشے ور مقرروں اور پیشے ور نعت خوانوں نے جلسہ ہیک کرلیا ، پیشے ور نقیبوں نے غزل ہزل کے مزاحیہ مشاعروں کی نظامت کے طرز پر جلسوں کی نظامت شروع کردی ، پیشے ور مقررین نے جلسے میں فرضی کہانیاں اور من گھڑت روایات بیان کرکے اور بزرگان دین کو آلہ کار بناکر منبر رسول کے تقدس کو پامال کرنا شروع کردیا اور وعظ ونصیحت کو ایک تجارتی فن سمجھ لیا اور شاعروں کی بڑی تعداد نے جلسہ سیرۃ النبی و جشن عیدمیلادالنبی کے مبارک اسٹیج کو دنیاوی رنگین محفلوں کی طرح مظاہرہ شروع کردیا اور ایک ایک رات کی نعت خوانی کا ریٹ مقرر کرنا شروع کردیا کیا یہی حضرت حسان کی سنت ہے ؟

بہر حال اب بھی وقت ہے جاگنے کا ،جلسے کے اصول وضوابط مرتب کرنے کا ،سب سے پہلے تو ریڈیمیڈ نظامت کا سسٹم ختم کیا جائے اسٹیج پر موجود علماے کرام میں سے صدر جلسہ کے ذریعے کسی کو نظامت کے لیے مامور کیا جائے ، انتہائی عقیدت و احترام و محبت اور ادب کے ساتھ نعت خوانی کے لیے پابند کیا جائے اور ایک دو سے زیادہ نعت خواں ہوں تو تلاوت قرآن کے بعد ایک نعت پڑھاکر تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جائے اور رات کے 12 بجے تک تقاریر مکمل کیا جائے اور اس کے بعد بھلے ہی نعت خوانی کرایا جائے ۔

 آج جلسہ اور شادی بیاہ دونوں بہت مہنگے ہوچکے ہیں اور دونوں کو سستا کرنے کی مہم چلائی جائے ورنہ مدارس اسلامیہ خستہ حالی کا شکار ہوسکتے ہیں ، لوگ اپنے بچوں کو عالم دین نہ بناکر نعت خواں بنانا شروع کرسکتے ہیں اور جاہل مریدوں و جاہل مجاوروں پر بھی شکنجہ کسنا ضروری ہے ورنہ جہالت بڑھتی ہی جائے گی اور اندھی تقلید کا بول بالا ہو جائے گا پھر اصلاح معاشرہ بہت مشکل ہو جائے گا ، جو بھی علماے کرام اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، غلط کو غلط کہہ رہے ہیں حق بولنے حق سننے اور حق پر عمل کرنے کی دعوت دے رہے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ان علماء کرام کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ان کے بازوؤں میں طاقت عطا فرمائے ان کی عمروں میں برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین -              تحریر:جاوید اختر بھارتیjavedbharti508@gmail.com

غیر ملکی تارکین وطن اور ٹرمپ

مکرمی!امریکہ کے صدارتی الیکشن سے قبل کی چند دلچسپ خبروں  میں  سے ایک یہ تھی: ایک درجن کے قریب ملکوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں  تارکین وطن کا ایک قافلہ امریکہ کی سرحد عبور کرنے کی کوشش میں  میکسیکو کی جنوبی سرحد سے چل پڑا۔ یہ لوگ نومبر کے صدارتی الیکشن سے پہلے امریکی سرحد تک پہنچ جانا چاہتے تھے کیوں کہ انھیں  خدشہ تھا کہ اگر ٹرمپ جیت گئے تو وہ امریکی سرحد بند کرنے کی اپنی پالیسی پر عمل کریں گے اور پھر ان لوگوں  کو امریکہ میں  داخلہ نہیں  ملے گا۔ حد تو یہ تھی کہ یہ قافلہ میکسیکو کی جنوبی سرحد سے پیدل ہی چلا تھا۔ پھر اس نے طویل مسافت طے کی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ میکسیکو کے حکام نے تارکین وطن کا بسوں  اور ریل کے ذریعہ سفر مشکل بنا دیا تھا تاکہ ہر قیمت پر امریکہ جانے کےرجحان کو روکا جاسکے۔

 محولہ بالا خبر سے روزی روٹی کے لیے اپنے گھروں ، بال بچوں  اور وطن کو خیرباد کہنے کے بعد بے شمار مسائل اور مصائب سے گزر کر امریکہ کے قریب پہنچ جانے والوں  کی بےقراری کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پتہ نہیں  یہ اور اس طرح کے بہت سے لوگ جو ٹرمپ سے ڈرے ہوئے تھے، ’’بروقت‘‘ امریکہ میں  داخل ہوئے یا نہیں ۔ اگر ہوئے ہوں  تب بھی ’’ڈیپورٹیشن‘‘ کے خطرے سے محفوظ نہیں رہ  سکتے۔ یہ الگ بات کہ اب ان کے ساتھ ایک بڑی جمعیت ہے جو امریکہ سے نکال دیے جانے کے خوف میں  مبتلا ہے۔ جو پہلے یا بہت پہلے امریکہ پہنچ گئے تھے وہ بھی اور جو حال حال میں  پہنچے وہ بھی خوفزدہ ہیں ۔ ٹرمپ کسی کو بخشنے والے نہیں  ہیں ۔ اور بخشیں  بھی کیوں؟  انھیں غیرمعمولی کامیابی سے ہمکنار کرکے پیغام بھی تو یہی دیا گیا ہے کہ کسی کو مت بخشیے۔ حد تو یہ ہے کہ جو بہت پہلے آگئے وہ نئے آنے والوں  کو روکنا یا ڈیپورٹ کروانا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے ٹرمپ کی کامیابی میں  حصہ دار بننے والوں  میں  وہ لوگ بھی ہیں  جو خود بھی ڈیپورٹیشن کی پالیسی کے ستائے ہوئے ہیں ۔ 

 قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ امریکہ میں  غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں  کی مجموعی تعداد 2022 کے مطابق 11 ملین یعنی ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔کوئی بھی ملک اتنی بڑی تعداد میں  غیر ملکیوں  کو، جنھیں  باقاعد ہ پناہ یا ویزا نہیں  دیا گیا، برداشت نہیں  کرتا مگر تالی دونوں  ہاتھ سے بجتی ہے۔ اگر یہ لوگ آگئے اور ان پر کوئی ایکشن نہیں  لیا گیا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ یہ لوگ امریکی معاشی سرگرمیوں  کا حصہ بنتے ہیں اور اگر خود کچھ کماتے ہیں  تو امریکی صنعت و تجارت کو بھی فیض پہنچاتے ہیں  اس لیے، ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ ان کے خلاف ٹرمپ اسٹائل کی کارروائی کے بجاے یا تو انھیں  قانونی دستاویزات عنایت کردیے جائیں  یا تین تا چھ ماہ کا وقت دے کر انہیں  تنبیہ کی جائے کہ ر ضاکارانہ طور پر وطن واپس جائیں ۔ صدر بن جانے کے بعد ٹرمپ کو اپنے رویہ میں  اتنی لچک تو لانی ہی چاہیے۔          از: روزنامہ انقلاب 16 نومبر 2024

خیال خاطر

سوشل میڈیا، جس طرح اوپن پلیٹ فارم ہے، ویسے ہی آپ کی شخصیت کا مظہر بھی ہے۔ اوپن پلیٹ فارم سے مراد، یہاں کی ہر چیز جیسے آپ کے حق میں جا سکتی ہے، ویسے ہی کسی وقت آپ کے خلاف مضبوط حجت بھی بن سکتی ہے اور اس بابت یہ غلط فہمی بھی نکال دینی چاہیے کہ ہم نے ایک مرتبہ جو چیز پوسٹ کی ہے، وہ اسکرین شاٹ یا دوسرے تکنیکی وسائل کے ذریعے آف لائن محفوظ نہیں کر لی گئی ہے اورشخصیت کا مظہر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معاصر دنیا کے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے لیے آپ کی ہستی صرف اسی قدر ہنستی کھیلتی، یا علمی و فکری، یا سطحی اور تہہ دار ہے، جتنی وہ سوشل میڈیا کی معرفت جانتے ہیں، کیوں کہ اس تکنیکی اسکرپٹ یا اسکرین سے زیادہ انھیں آپ کی شخصیت کے ابجد نہیں معلوم اور جب تک آپ خود نہ چاہیں، عموماً وہ اس سے زیادہ آپ کو زمینی سطح سے جاننے سمجھنے کے روادار بھی نہیں،گویایہ دنیا ایک مستقل دنیا ہے، جسے آپ اپنی مرضی سے بناتے یا بگاڑتے ہیں اور جہاں اپنے عیب و ہنر کے آپ خود آئینہ بھی ہیں اور آئینہ ساز بھی۔

یعنی اس نئے بازار میں سب کچھ آپ پر منحصر ہے، چاہیں تو آپ کی پیش کش ایک گلیمر پسند اور ہوا ہوائی شخصیت کے طور پر ہو سکتی ہے، جسے صرف اپنے چہرے بشرے کے خد و خال پیش کرنے اور اپنی مصنوعی نمائش میں مزہ آتا ہےاورچاہیں تو یہاں سے ایک نئے انقلاب کی آہٹ بھی سن سکتے ہیں، وہ انقلاب جس کے محرک آپ ہوں، ایسے محرک جسے اپنی اس تحریک میں زمین سے کہیں کم جفا کشیوں کا سامنا کرنا پڑے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ ان پلیٹ فارمز کی بنیادی تھیم ہی گویا اس بات پر مبنی ہے کہ یہاں ہر خیال کو اس کے ہم نوا مل ہی جاتے ہیں اگرآپ کو اپنے منجمد کمنٹ باکس میں صرف اپنے ستائشی کلمات پسند ہیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ تا عمر "سبحان اللہ، ماشاء اللہ اور واہ کیا کہنے" والے روایتی "داد ویروں" کی کمی نہیں کھلے گی، بے چارے اپنی زندگی کی جمع پونجی ہتھیلی پر لیے یہ کام کرنے کے لیے ہر وقت پرعزم اور تازہ دم ملیں گےاوراگر آپ وہ پاگل ہیں، جسے صرف اپنے ذوق جنوں سے کام ہے تو یاد رکھیے مصر کا انقلاب فیس بک سے آیا تھااوراگر آپ مفکر ہیں تو شکر ادا کیجیے کہ ان سہولتوں نے آپ کے افکار کی ترسیل اور ہم خیال احباب سے جڑاؤ کے راستے پہلے سے کہیں سہل کر دیے ہیں ،اس لیے ہر آڑے ترچھے خیال/ فکر/ نظریے کو اس سمندر میں پھینکنے سے پہلے خوب تولیے اور بہت بلکہ بہت زیادہ سوچ سمجھ کے بولیے کیوں کہ  حاشیہ خیال سے گزرنے والی ہر فکر محفوظ کرنے اور ہر محفوظ کی ہوئی بات دوسروں تک پہنچانے کے لائق نہیں ہوتی، قطعاً نہیں ہوتی۔

مدت ہوئی یہ خیال خاطر ستاتا رہتا ہے اور اس وقت تو گویا کچوکے لگاتا ہے جب کتنی ہی گراں مایہ شخصیات ہیں، جن کے فکر و فن کا لوہا مانا جا سکتا ہے اور وہ خود کو امر بنا سکتے ہیں لیکن وہ جانے کس مصلحت کی دھن میں خود کو فضولیات کی نذر کیے ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے انھوں نے ان مباحث کو حل کیے بغیر آں جہانی نہ بننے کی قسم اٹھا رکھی ہو، جنھیں امت کی ہزار اٹھا پٹک گزشتہ چودہ صدیوں میں حل نہ کر سکی یا پھر اتنے بڑے ملک کے کسی خانچے میں منعقد کسی چھوٹی سی بے شوق مجلس کے بے ذوق سے بیانیے پر میثاق مدینہ سی گرم گفتاری کرتے ہیں۔-خدا بخشے- اقبال ٹھیک ہی کہتا تھا:

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ

جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی

خالد ایوب مصباحی شیرانی /24/ نومبر 2024- اتوار

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved