* جنوری 2025 کا عنوان— جدید دنیا میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ اور اس کے چیلنجز
*فروری 2025 کا عنوان— رمضان المبارک اور اسلامی مدارس
النبی الامی
مولانا سید سعادت علی قادری، ہالینڈ
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْڪُمْ جَمِیْعَا نِالَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ -لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ ڪَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّڪُمْ تَهْتَدُوْنَ 001۵8(اعراف:158)
آپ فرمادیجیے بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف وہ اللہ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، نہیں، کوئی معبود ، سواے اس کے ، وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے ، پس ایمان لاؤ، اللہ پر اور اس کے رسول پر جو نبی امی ہے، جو خود ایمان لایا ہے ، اللہ پر اور اس کے کلام پر اور تم پیروی کرو اس کی تاکہ تم ہدایت یافتہ ہو جاؤ ۔
قرآن کریم نے نبی کریم علی الصلاۃ والتسلیم کو حکم دیا کہ ، آپ تمام انسانوں کے لیے اپنی بعثت، رسالت عامہ کا اعلان فرما دیجیے اور پھر دعوت عام دی ، خدا پر اور اس کے بھیجے ہوئے” نبی امّی “پر ایمان لانے کی، ان کی اتباع و پیروی کی، کہ ہدایت وکامرانی کا یہی واحد ذریعہ ہے ۔
یعنی، جو نبی پچھلوں کی طرح کسی خاص دور، اور مخصوص قوم کا ہادی و رہبر نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات اور فلاح بہبود اسی کے دامن سے وابستہ ہے، اس اعتبار سے اس کی ذمہ داریاں بہت زیادہ اور دائرہ کار بہت وسیع ہے ، لیکن اس کی بڑی خوبی (مجبوری نہیں) یہ ہے کہ وہ ،”امّی“ ہے ، نبی بھی ہے ، اُمّی بھی ہے، بات بڑی عجیب سی ہے کیوں کہ ، بنی کے معنی خبر دینے والا ، ” نباء“ سے بناہے ، جس کے معنی ”خبر“ ہیں ، قرآن کریم میں ہے :
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ001 عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ002 الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ مُخْتَلِفُوْنَ003(النباء:1 – 3)
وہ کس چیز کے بارے میں، ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں، کیا وہ ، اس بڑی اور اہم خبر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، جس میں، وہ اختلاف کرتے رہتے ہیں۔
پس معنیٰ کا مقتضا یہ ہے کہ نبی” علم والا“ ہو نبی” امّی“ کیسےہو سکتا ہے، یہ تو ، تضاد ہے۔
نیز نبی کی ذمہ داری ، بہت بڑی ہوتی ہے، وہ قوم کار ہبر و رہنما ہوتا ہے، قوم کو احکام الٰہی بتاتا، پیغام الٰہی سناتا، حکمت و دانش کی باتیں سکھاتا ہے، انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی تعلیم دیتا ہے، نبی کی بتائی ہوئی ہر بات پر عمل کرنا قوم کے لیے لازمی ہوتا ہے۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ(النساء:64)
اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اسی لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن سے۔
پس منصب نبوت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نبی ، علم والا ہو جب کہ وہ نبی جس کی ذمہ داریاں دیگر انبیا سے بہت زیادہ ہیں، ان کی رسالت عام ہے، سب کے سردار بھی ہیں، اور آخر بھی کہ اب ان کے بعد کوئی نہیں آنے والا، دروازۂ نبوت بند ہو چکا ۔ اب تو قیامت تک آنے والوں کو صرف انھی کی بات ماننی ہے، انھی پر ایمان ذریعۂ نجات ہوگا ۔ انھی کی اتباع و پیروی سے کامیابی و کامرانی ہے ، امن و سکون کی زندگی انھی کے دامن سے وابستہ ہے ۔ خدا تک رسائی کایہی واحد سہارا ہیں؛لیکن عجیب بات ہے ” اُمّی “ ہیں ۔
” اُمّی“ کے معنیٰ ان پڑھ کے ہیں ۔ ”امّ“ سے بنا ہے جس کے معنی اصل کے ہیں ۔” امّی“ یعنی وہ شخص جو اپنی اصل پر رہا ،جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہا ،نہ دنیا کے استادوں سے کچھ سیکھا ،نہ کتابوں سے پڑھا ،ان پڑھ ہی آیا ، ویسا ہی رہا، ویسا ہی گیا ، اہل عرب اکثر ان پڑھ ہی تو تھے جن میں نبی مبعوث ہوئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ.(جمعہ:2)
وہی اللہ جس نے امّیوں میں ایک رسول انھی میں سے مبعوث فرمایا”امیین“ کا نبی بھی امی تو وہ اَن پڑھوں کی راہنمائی کیسے کرے گا ؟ انھیں تو نور علم کی ضرورت ہے کہ وہ تاریکی سےنکل سکیں پس نبی کا امی ہونا بڑا ہی عجیب ہے ۔
واقعی میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ”اُمّی“ ہی ہیں، کون انکار کر سکتا ہے، قرآن نے اعلان کیا ہے، متعدد بار آپ کو ”اُمّی“کہا ہے۔ جب بھیجنے والاہی ”اُمّی“کہتا ہے توہم کیسے انکار کرسکتے ہیں؟ ملکہ کا بچہ بچہ جانتا اور مانتا ہے کہ عبد اللہ کا یتیم بیٹا ، آمنہ کا جگر گوشہ، عبدالمطلب کا پوتا ،ابوطالب کا بھتیجا جو قریشی ہے، ہاشمی ہے، باپ اور ماں دونوں ہی کی طرف سے اعلیٰ خاندان والا اچھی نسل والا ہے، لیکن ”اُمّی“ہے کبھی کسی نے ان کو مدرسہ و مکتب جاتےنہ دیکھا۔
مکہ میں فصحا اوراہل زبان کم نہ تھے لیکن کسی نے کہا کہ آج کا نبی کل تک ہمارا شاگرد تھا ، کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے استاد ہونے کا دعویٰ کرتا ۔سب نے مانا کہ وہ ”امی“ ہیں، نہ لکھ سکتے ہیں، نہ پڑھ سکتے ہیں۔
نبی امّی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارکہ سے کلام الٰہی سنا تو انکار کیا ،حکمت و دانش کی باتیں سنیں تو مجنون و دیوانہ کہا، اس ہی لیے کہ امّی سے کون ایسی باتوں کی توقع کر سکتا ہے؟
ہم ہرگز انکار نہیں کرتے، مانتے ہیں، اور فخر کے ساتھ مانتے ہیں کہ جس کی غلامی کا ہمیں شرف حاصل ہے وہ ”امّی“ ہے، لاکھوں سلام ہوں نبی ہاشمی امی لقب پر۔
ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کا ”امّی“ ہونا بڑا عجیب کہ یہ ان کا معجزہ ہے اگر عجیب نہ ہوتا تو معجزہ کیسے ہوتا ؟پھر منکرین کو ان کی تلاوت آیات، تعلیم کتاب وحکمت پر حیرت کیسے ہوتی۔ بلا شبہہ ان کا امی ہونا بہت ہی عجیب ہے، بہت بڑا معجزہ ہے، دلائل نبوت میں سے ایک اہم دلیل ہے جس نے اس کو سمجھ لیا اس کے لیے ایمان قبول کرنا مشکل نہ رہا۔
ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ امّی ہونا، ان پڑھ ہونا کوئی خوبی نہیں ،مدح نہیں عیب ہے، لیکن امیین کے لیے، رسول کے لیے نہیں، ہرگز نہیں ، یہ قاعدہ کلیہ غلط ہے کہ ایک عیب سب ہی کے لیے عیب ہو، دھوکا کتنا بڑا عیب ہے لیکن مجاہد کے لیے نہیں، دشمن پر غلب حاصل کرنے کے لیے ،یہی عیب مجاہد کاکمال ہے۔ کسی کوقتل کرنا، تکلیف پہنچانا بلا شبہہ عیب ہے لیکن قاتل کو قتل کرنا ،چور کے ہاتھ کاٹ دینا، مجرم کو سزا دینا، ہرگز عیب نہیں ، پس ہر عیب سب کے لیے عیب نہیں۔
امی ہونا ضرور عیب ہے لیکن میرے رسول کے لیے نہیں، کیا تکبرعیب نہیں؟ بہت بڑا عیب ہے، متکبر کی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی، خدا تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا -
قِیْلَ ادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ(الزمر:72)
انھیں کہا جائے گا۔ داخل ہو جاؤ دوزخ کےدروازوں سے کہ تم سب ہمیشہ اسی میں رہو گے پس مغروروں کا کتنا برا ٹھکانہ ہے۔
کتنا بڑا عیب ہے تکبر، لیکن صرف انسانوں کے لیے، خدا کے لیے نہیں۔اس کی خوبی ہے، اس کی شایان شان ہے ،جیسا کہ-
عن ابي هريرة قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللهَ تَعَالَى الكِبْرِيَاءُ رِدَائِي وَالْعَظَمَةُ إِزَارِيْ فَمَنْ نَا عَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا أَدْخَلْتُهُ النَّارَ. (رَوَاهُ مُسْلِمٌ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں؛ نبی صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، تکبر میری چادر ہے اور بڑائی میرا تہ بند ،جس نے کسی ایک کو بھی ان میں سےچھیننا چاہا میں اسے دوزخ میں ڈالوں گا ۔ ( مسلم )
متکبر ہونا ہمارے لیے یقیناً عیب ہے ، لیکن خدا کے اسماے حسنیٰ میں ایک نام متکبر ہے۔
هُوَ اللهُ الَّذِیۡ لَاۤ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ00 (الحشر:23)
اللہ وہی تو ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، سب کا بادشاہ نہایت مقدس ، سلامت رکھنے والا، امان بخشنے والا نگہبان، عزت والا،ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والا، متکبر ہے۔
پس اُمی ہونا عیب ہے، لیکن عام انسانوں کے لیے ،رسول کے لیے ہرگز نہیں ، رسول کے تو عین شایان شان ہے، کیوں کہ منصب رسالت کی ذمہ داریاں اتنی بڑی اور اتنی دشوار ہیں کہ ان کو دنیا والوں سے علم حاصل کر کے پورا نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے تو سیع علم ناگزیر ہے۔
مقام نبوت کوئی ایسا مرتبہ یا عہدہ نہیں جو انسان کو اپنی کوشش و کاوش یا محنت سے حاصل ہوتا ہو، نہ ہی اس کی بنیاد علم ،تقویٰ یا پر ہیز گاری ہے بلکہ یہ خالصتاً خدائی عطیہ ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیداکرنے سے پہلے ہی عالم ارواح میں ایسی روحوں کو منتخب و متعین فرمادیا جن کو مقام نبوت دینا مقصود تھا، حتیٰ کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو تسلیم کرانے، ان کی عظمت کو اجاگر کرنے اور ان کی قیادت وسیادت منوانے کا عہد بھی تمام انبیاےکرام علیہم السلام سے عالمِ ارواح ہی میں لیا گیا :
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗط-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْط-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاط-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ
(آلِ عمران:81)
اور یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے انبیا سے پختہ وعدہ لیا کہ جب میں تمھیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول تشریف لائے، جو تصدیق کرنے والا ہو اس چیز کی جو تمہارے پا س ہو تو تم ضرور ایمان لانا اس پر ، اور اس کی ضرور مدد کرنا۔فرمایا گیا تم نے اقرار کر لیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ اٹھا لیا ، سب نے عرض کی ہم نے اقرار کر لیا، فرمایا تم گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے لیے مقررہ دور میں اس کی مخصوص امت کی طرف مبعوث فرماتا رہا، یہاں تک کہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو گئی، ان کے بعد نہ کوئی آیا نہ آسکتا ہے، نہ وہاں کوئی باقی رہا جو آئے اور جس کو زندہ واپس بلا لیا وہ اپنی عمر طبعی پوری کرنے اور خدا کی قدرت کا کرشمہ دکھا نے ضرور آئے گا، لیکن نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ سید الانبیاء کے امتی کی حیثیت سے، انھی کلمہ پڑھتے ہوئے آئے گا، انھیں کے دین کی خدمت کرتا ہوا آئے گا۔ اور اس عہد کی تکمیل کا شرف حاصل کرے گا، جو اس نے دیگر انبیاء علیہ السلام کے ساتھ عالم ارواح میں کیا تھا۔ وہ واحد انسان ہے جس کو نبی اور سید الانبیا کا امتی ہونے کا شرف ملا۔
غرضےکہ نبوت انسان کا اپنا حاصل کردہ منصب نہیں جس کی عظیم ذمہ داریاں انسان کے اپنے حاصل کردہ علم سے پوری ہوسکیں ، یہ تو خدائی عطیہ ہے، اس کے لیے خدائی صلاحیتوں ہی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کو مبعوث فرمانے سے پہلے ہی ان کی ضرورت کے مطابق تمام صلاحیتیں بھی عطا فرمائیں، یہاں تک کے کوئی نبی کسی اعتبار سے امتی کا محتاج نہ رہا اور نہ ہی وہ اپنی کسی صلاحیت میں امتی کسی بھی طرح کم رہا کہ نبوت کے اعلیٰ منصب کےشایان شان نہیں ۔
بلا شبہ نبی کا امی ہونا عجب بات ہے لیکن عیب ہرگز نہیں کہ اگر نبی کو منصب نبوت کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے نبوت عطا فرما نےوالا رب علم عطا نہ فرماتا تو امی ہونا ضر ور عیب ہوتا؛ لیکن رب نے تو نبی پر یہ کرم فرمایا کہ اسے اس دنیا کے ناقص علم والے استادوں اور کتابوں سے بے نیاز کر کے” امی “ ہی رکھا لیکن خود ایسا علم عطافرمایا کہ ہر نبی اپنی امت کا ”معلم“ بنا ایسا معلم کہ کسی نبی کے علم کا مقابلہ اس کاکوئی امتی نہ کرسکا۔ ایسا معلم کہ علم کا نور صرف نبی کی تعلیم کے ساتھ خاص ہو گیا کہ جس نے بھی مدرسۂ نبی کو چھوڑ کر دنیا والوں سے علم حاصل کیا وہ بھٹکتے ہی رہے، منزل نہ پاسکے اس ہی لیے نبی کی اتباع و پیروی ذریعۂ ہدایت قرار پائی ۔
بہر کیف سنت الہیہ یہ قائم ہوئی کہ اس نے اپنے ہرنبی کو دنیا اور کتابوں سے آزاد اور الفاظ و حروف کی پہچان وتحریر کے استادوں سے بے نیاز کر کے اس کی ضرورت اور مرتبہ کے مطابق خود ہی علم عطا فرما دیا ،پس لفظ نبی کے معنی کا اقتضا بھی پورا ہو گیا اور منصب نبوت کے تقاضا کی بھی تکمیل ہوگئی اور نبی امی ہی رہا۔ کیسا قابل تعریف و مدح ہے نبی کا امی ہونا ،عیب ہرگز نہیں ۔
ہر نبی کو اس ہی سے علم ملا جس سے تاج نبوت ملا لیکن میرے رسول " النبي الأمی “ کی بات ہی نرالی ہے، نہ کسی کو ان جیسی نبوت ملی نہ ان جیسا علم نبوت، ایسی کہ جس کا دائرہ اولین و آخرین تمام نوع انسان کا احاطہ کیے ہوئے، تو علم ایسا کہ اس کی کنہ و تہہ کا پتہ لگا لینا کسی امتی کے بس کی بات نہیں ، بس دینے والے نے جتنا بتا دیا ہمیں اتنا ہی پتا ہے ۔
وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيۡمًا (النساء:113)
اور اتاری ہے اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت اور سکھا دیا آپ کو جو کچھ بھی آپ نہ جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا آ پ پر بڑا فضل ہے۔
ہے کوئی دنیا کا استاد جو اتنا دے سکے، بھیجنے والے نے اتنا دیا کہ ” امی“ نے پچھلوں کا حال بھی بتایا، اگلوں کا بھی ۔جو ہو چکا اس کو بھی جان لیا اور جو ہوتا رہے گا وہ بھی معلوم ہو گیا ،وہ آسمانوں کے اوپر کی باتیں بھی جان گئے اور زمین کے نیچے کی بھی ، ”امی“ ہیں لیکن کوئی جھجک نہیں کہ ”معلم “ہونے کا دعوی کریں -
”إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعلّمًا .“بے شک میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔
امی بھی اور معلم بھی !کوئی حیرت نہیں ،جس نے بھیجا اس ہی نےسکھایا ۔اس نے گوارا نہ فرمایا کہ اس کا بھیجا ہوا کسی کا شاگرد کہلائے دوسروں سے علم کی بھیک مانگ کر نبوت کی اہم ذمہ داریوں کو پورا کرے اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے نبی کو کسی بھی معاملہ میں دنیا والوں کا محتاج نہ بنایا ۔
دشمن کا ڈر ہوتا ہے تو لوگ کیسے محافظین کے محتاج ہوتے، نہ جانے کس کس کی پناہ تلاش کرتے اورکیسی کیسی حفاظتی تدابیراختیار کرتے ہیں ، میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ دشمنوں کی یلغارکس پر ہوئی ، لیکن بھیجنے والے نے کسی کا محتاج نہ کیا، خود اعلان فرمایا ، وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اور اللہ تعالیٰ بچائے گا آپ کولوگوں سے ۔ (المائدہ:67)
لوگوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کیا کچھ نہ چاہا لیکن بھیجنے والے نے ایسی حفاظت کی کہ بال بیکا نہ کر سکے۔ ہجرت کی شب جب چاروں طرف سے گھیراؤ ہو چکا تو کس نے حفاظت کی ؟غار ثور کے منھ پر دشمن آکھڑے ہوئے تو ان کے منھ کس نے پھیرے؟ غزوۂ احد میں دشمن ٹوٹ پڑے تو کس نے بچایا ؟کیا میرے نبی نے کبھی کسی کو مدد کے لیے پکارا؟ انھوں نے توپہاڑوں کے فرشتے کی پیش کش کو قبول نہیں کیا، وہ کسی کے محتاج کیوں ہوں؟ بھیجنے والا جوان کا کفیل ہے۔ وہ ہمارا بھی کفیل ہے، کوئی شک نہیں لیکن واسطوں اور وسیلوں سے۔ نبی کا کفیل بلا واسطہ بلا وسیلہ، نبی تو واسطہ ووسیلہ بنے ، سہارا دینے آئے ،واسطہ، وسیلہ لینے اور سہارا مانگنے نہیں ۔
پس حصول علم میں وہ کسی محتاج کیوں رہے؟ بھیجنے والے نے ”امی“ہی رکھا اور خود اتنا دیا کہ کوئی اور کیا دیتا، نبی کو دینے کے لیے کسی کے پاس کیا رکھا ہے، سب تو اس کے در کی بھکاری ہیں، شاہ ہوں یا گد ا سب ہی نبی سے مانگتے ہیں ۔
الله يعطي وانا قاسم اللہ دیتا ہے او میں بانٹنے والا ہوں۔
نہ دینے والے کے خزانہ میں کس چیزکی کمی ،نہ بانٹنے والے کے، دہ دیتا ہے یہ بانٹتے ہیں ، سب ان سے ہی مانگیں، جو چاہیں انگیں ، یہ دیں گے، دینے ہی کے لیے تو آئے ہیں۔ بھیجنے والے نے اپنے علم کا خزانہ بھی ان پرکھول دیا ہے، ہر قسم کا علم دیا ہے ،دنیا کا بھی، دین کا بھی ۔دنیا کی کامیابی چا ہوتوان کے علم سے رہنمائی حاصل کرو، آخرت کی نجات چاہو تو انھی کے علم سے استفادہ کرو۔
اب جو علم کا متلاشی ہے، آئے اس امی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں علم سیکھے ،ایسا علم جس کا نور کبھی نہ بجھنے پائے ،ایسا علم جس سے کائنات کے سارے حجاب اٹھ جائیں ، سارا عالم روشن ہو جائے، دنیا کی ساری عظمتیں سمٹ کر قدموں میں آپڑیں ، آخرت کی نجات کی ضمانت مل جائے ۔ جسے نور علم لینا ہے، آئے وہ اس ”امی “ کے قدموں میں ، غریب ہو تو امیر ہو جائے ، غلام ہو تو آقا بن جائے، غیر مہذب، مرکز تہذیب بن جائے ، بدو ، حکمراں بن جائے، امی ہوتو معلم بن جائے ، بڑی تاثیر ہے اس امی کی تعلیم میں ۔
”امی“ امیوں میں مبعوث ہوا تو جاہلوں نے اس کو ”امی“ ہی جانا ۔اس نے خدا کی آیات سنائیں تو انھوں نے انکار کیا ، اس نے حکمت و دانش کی باتیں بتائیں تو انھوں نے مجنون و دیوانہ کہا اس نے ان درندہ صفتوں کو مہذب انسان بنانا چاہا تو انھوں نے اینٹ و پتھر سے جواب دیا ۔
لیکن نبی امی جو علم بن کر آیا تھا وہ بارہ سال تک مصائب وآلام سے پُر ناسازگار ماحول میں تعلیم دیتا رہا ۔ظلم وستم کرنے والے تھک جاتے ، پر وہ ایک دن نہ تھکا، کیسے تھکتا ؟نہ تو اس نے دنیا والوں سے علم حاصل کیا تھا اور نہ ہی وہ دنیا کے کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم دیتا تھا ، اس نے جس سے علم لیا بس اس ہی کی رضا کے لیے وہ اپنا کام کرتا رہا اور پھر اس ہی نے مدد کی۔
جب مدد کا دروازہ کھلا تو خوب مددہوئی ، اس معلم کے مکتب میں علم کے پیا سے آنا شروع ہوئے، ایک نوجوان نے پہل کی، آگے بڑھ کر شمعِ علم تھاما تو وہی علم کا دروازہ بنا –” أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلى بابھا “میں شہر علم، اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
پھر اس مکتب امی میں خوش نصیب داخل ہوتے ہی رہے شمع علم نے انھیں ایسا منور کیا کہ ہمیشہ کے لیے چمکتے دمکتے تارے بن گئے۔ ”اصحابی ک النجوم“ میرے صحابہ چمکتے تارے ہیں۔
اور چند ہی دن گزرے، مبتدی امی انتہا کو پہنچے اور امت مسلمہ کے مقتدا قرار پائے ۔
تاریخ شاہد ہے، احادیث کے اوراق ناطق ہیں کہ اس معلم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے کیسے لوگوں کو کیسا بنادیا ، جوکچھ نہ تھے انھیں کیا کچھ نہ کر دیا۔ حبشی غلام بلال رضی اللہ عنہ نے موذن اول بن کر اللہ اکبر کی صدا ایسی بلند کی کہ آج تک گونج رہی ہے اور کوئی قوت نہیں جو قیامت تک بلال کی اس آواز کو دبا سکے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ قرآن کریم کے سب سے بڑے مفسر قرار پائے، 848 ؍ا حادیث کے راوی ہوئے، علم وحکمت کا ایک عظیم پہاڑ تھے، کو فہ میں قیام کے دوران اہل کوفہ کے ہر گھر میں شمع علم کو ایسا روشن کیا کہ کوفہ نور علم سے چمک اٹھا اور اہل علم کی بستی بن گیا ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایسے محدث کہ کوئی ان کی روایت حدیث کا مقابلہ نہ کرسکا ، کسی صحابی کوکسی حدیث میں شک ہوتا تو ابو ہریرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور تسلی کر لیتے، آپنے کل 5364 احادیث بیان کیں، شاید ہی حدیث کی کسی کتاب کا کوئی ورق ہوجو ابو ہریرہ کے نام سے خالی ملے ۔
حضرت ابو بکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم نبی امی کے خلفا قرار پائے جنھوں نے اپنے ادوار میں صرف امور خلافت ہی کو بحسن و خوبی انجام نہ دیا بلکہ دنیا کو حکومت کر نے اور ملک کا نظم ونسق چلانے کا ڈھنگ سکھاگئے، ہر کوئی جانتا اور مانتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلامی مملکت کے حدود دکتنے وسیع و عریض تھے ، آج تک کسی ملک کے حدود دور فاروق اعظم کی مملکت اسلامیہ کا مقابلہ نہ کرسکے، آج کی دنیا کے یہ چھوٹے چھوٹے ملک کیسی بدامنی اور بد حالی کا شکار ہیں ، وسائل کی کمی نہیں، پھر بھی حکام کے بس میں کچھ نہیں، رابطہ کے لی آلات کی کمی نہیں پھر بھی حکام کو اپنی قوم کی خبر نہیں، وہ کیا جانیں کون بھو کا سویا ، کون سوتا مر گیا؟ انھیں کیا خبرکس کی دولت لٹ گئی کس کی عزت و آبرو پر ڈاکہ پڑگیا۔ یہ حکام تو بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آتے ہیں، انھوں نے کتنے استادوں سے پڑھا اور نہ جانے کتنی کتابوں کا مطالعہ کر ڈالا لیکن کیا کیا اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ استاد بھی ناقص، خود بھی ناقص اگر کس کو کچھ بنتا تھا تو نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیں حاضر ہوتا ،ان کے علم سے فیضیاب ہوتا توبن جاتا، ایسے ہی جیسے فاروق اعظم بن گئے ۔ دیکھو وہ کیسے بنے کہ مسجد نبوی کے فرش پر بیٹھے دنیا کے سب سے بڑے حصہ پر حکومت کر رہے ہیں، کیا مجال کہیں کچھ ہو جائے اور کچھ ہو تو اس کی خبر امیر المومنین کو نہ ہو، اگر رات کی تاریکی میں کوئی دودھ میں پانی ملائے تو عمر جان لیں ، اگر بھوک سے کسی کے بچے بلبلائیں تو عمر کو پتہ چل جائے ، اگر لشکر اسلام کا سر دار ذرا غلطی کرے تو امیر المومنین اس کو متنبہ کریں رنگ نسل، زبان و مذہب کی تفریق کے باوجود پوری قوم کو اللہ کی رسی میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ معاشی بدحالی ہے نہ سیاسی افراتفری ،بسامن ہے، ا سکون ہے ،سب آرام کی نیند سوتے ہیں اور محنت کی روزی کماتے ہیں۔
غرضیکہ جو اس مکتب میں آیا وہ کیا کچھ نہ بنا، بننے والے بعد میں بھی بنتے رہے اور قیامت تک بنتے رہیں گے ، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام حنبل، امام ابو یوسف ، امام بخاری ، امام غزالی اورنہ جانے کون کون، تاریخ اسلام قابل فخر مقدس ہستیوں کے ناموں سے بھری پڑی ہے ، یہ سب کچھ تھے یا نہیں ، ضرور تھے۔ کوئی انکار نہیں کرتا، سب ان کا احترام کرتے ہیں ، سب ان کے گن گاتے ہیں ،لیکن یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب کیسے بنے، سوچتے تو ضرور وہیں پہنچتے جہاں سے یہ سب بنے ۔افسوس ہم ہی نہ بنے اور نہ بن سکتے ہیں ۔ کیسے بن سکتے ہیں ہمیں تو نبی امی صلی اللہ علیہ سلم کی تعلیمات سے نفرت ہے، ہم تو ان مدرسوں کو حقیر جانتے ہیں، جو آج بھی نبی امی صلہ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا گہوارہ ہیں الہ علی ہم توان لوگو کو خوار سمجھنے لگے جوآج بھی علم نبوی کے وارث ہیں، ہم تو ان کی صحبت میں بیٹھنا یا اپنے بچوں کو ان سے پڑھوانا کسرشان جانتے ہیں، تو ہم کیا بن سکتے ہیں؟ ہم تو مغربیت زدہ یونیورسٹیوں ہی کو مرکز علم مانتے ہیں ، ہم مغربی تہذیب کی تقلید ہی کو اپنی ترقی کاذریعہ کہتے ہیں، ہم غیروں کے در سے بھیک مانگنا اپنے شایان شان سمجھنے لگے تو ہم کیا بن سکتے ہیں ، جو خود کونہ بناسکے وہ ہمیں کیا بنائیں گے ۔یقین کیجیے ہمیں ترقی کی منزل تک وہی پہنچا سکتا ہے جس نے امیوں کو بام عروج پر پہنچا دیا ، امن و سکون کی زندگی اسی کی تعلیمات سے نصیب ہو سکتی ہیں جس نے جاہلوں ، ظالموں، لٹیروں ، اور ڈاکوؤں کو امن وسکون سے رہنےکا ڈھنگ سکھا دیا ۔
◘◘◘◘◘
’’لفظِ اُمّی‘‘ اور اس کے معانی و مفاہیم
مولانامحسن رضا ضیائی
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کوبے شمارفضائل و کمالات کا جامع بنایا اورساتھ ہی ساتھ آپ کی شان کے لائق اوصافِ حمیدہ اورالقابِ محمودہ بھی عطا فرمایا ،جو قرآنِ کریم اور صحفِ آسمانی تورات،زبور اور انجیل میں مذکور ہیں۔ آپ کے القاب کو اس قدر شہرت و مقبولیت حاصل تھی کہ اہلِ مکہ آپ کو کبھی صادق تو کبھی امین کے معزز القاب سے یاد کیا کرتے تھے،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے صفاتی ناموں کواسمِ بامسمیٰ بناکر لوگوں کے سامنے پیش کیا، جس سے اپنے تو اپنے دشمنوں نے بھی آپ کے القاب کا اعتراف کیا ۔
آپ کے القاب میں ایک اہم لقب’’ اُمّی‘‘ بھی ہے، جس پر معترضین اعتراضات کرتے آئے ہیں، حالاں کہ علما و مفسرین نے اس کے معقول اور مدلّل جوابات بھی دیے ہیں تاہم بعض لوگوں کے ذہنوں میں اِس حوالے سے اِشکالات اور اعتراضات جنم لیتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ یہاں قرآن و حدیث اور اقوالِ علما و مفسرین کی روشنی میں لفظِ اُمّی کی مزید تشریح و توضیح کردی جائے تاکہ’’ لفظ اُمّی‘‘ کے معانی و مفاہیم واضح اور پیدا ہونے والے اشکالات رفع ہوسکیں۔
اُمّی ، اُم سے نکلا ہے اس کا ایک معنیٰ ہے اصل،اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو اپنی جبلتِ اولیٰ پر ہو یعنی جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہے یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو،اُمّی کا ایک معنیٰ ام القریٰ جو کہ مکہ معظمہ ہی کا ایک نام ہے ۔اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ (قاموس، تاج العروس و صحاح وغیرہم)
اس کے علاوہ علما و مفسرین نے’’اُمّی‘‘کے اور بھی دیگرمعانی بیان فرمائے ہیں،جن میں سے چند یہ ہیں:
(1) ’’اُمّی‘‘ یعنی ام القری (مکہ) سے تعلق رکھنے والے۔
(2)’’اُمّی‘‘ یعنی اُمِّیِّیْن (ان پڑھوں) کی قوم سے تعلق رکھنے والے (لیکن خود پڑھنا جاننے والے) جیسے قرآن میں اہلِ مکہ کو اُمِّیِّیْن کہا گیا حالاں کہ ان میں یقینی طور پر بہت سے لوگ پڑھنا جانتے تھے لیکن انھیں صرف اس قوم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اُمِّیِّیْن سے یاد کیا گیا۔
(3)’’اُمّی‘‘ یعنی صاحبِ امت ، امت والے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ لقب کسی شخص یا ادارے کی طرف سے نہیںدیا گیا ہے بلکہ جس کی ذات علام الغیوب ہے اسی نے یہ لقب اپنے پیارے حبیب ﷺ کو عطا فرمایا ہے۔ لہٰذا’’ لفظِ اُمّی‘‘ سے رسول اللہ ﷺ کے لیے غلط معنی اخذ کرنایہ سراسر آیات و لغات سے ناواقفیت اورجہالت کا بیّن ثبوت ہے۔ہاں یہ امر ضرور تحقیق کا متقاضی ہے کہ’’ لفظِ اُمّی‘‘ معلمِ کائنات ﷺ کے لیےکس معنی میں استعمال ہوا ہے تو اس کے لیے’’ لفظِ امی‘‘کے معانی و مفاہیم کا سمجھنا نہایت ہی ضروری ہے،چوں کہ ’’اُمّی‘‘ کا لفظ کلامِ پاک میں بھی وارد ہوا ہے،لہٰذا پہلے قرآنِ کریم سے اِس کے معانی اور مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو ’’اُمّی‘‘ کے لقب سے ملقّب فرمایا،چناں چہ باری تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ (لاعراف، 7: 157)
وہ جواس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں ،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب ) اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔
دوسرے مقام پر ارشاد خداوندی ہے:
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ (الاعراف، 7: 158)
تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ۔
آیات مذکورہ سے واضح ہے کہ حضور ﷺ اُمی نبی ہیں،لیکن ایسے امی ہیں،جنہوں نے سواے اپنے رب کے کسی سے کچھ پڑھا اور نہ کچھ سیکھابلکہ آپ ﷺ کا علم وہبی اور عطائی ہے، اکتسابی نہیں اوریہ آپ کا عظیم الشان کمال ہے کہ آپ کو براہِ راست اللہ تعالیٰ نے تعلیم دیا اور کل کائنات کے علوم و حکمت سے نوازا اوریوں کہ آپ پر کلامِ مجید کا نزول فرمایا،جس میں ہر چیز کا روشن بیان ہےاوریہ اوّل سے آخر تک جملہ حقائق و معارف اور علوم و فنون کی ایک جامع ترین کتاب ہے۔آج دنیا اِس کتابِ مقدس میں سائنسی مسائل کا حل دریافت کررہی ہے اوراس میں بیان کردہ واقعات و قصص پر ریسرچ کرکے ترقی و کامیابی کی معراج کو پہنچ رہی ہے،لیکن وہ لوگ کس قدر علم و فہم سے نابلد واقع ہوئے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو ’’امی‘‘ تو کہتے ہیں لیکن اُس کا معنی اَن پڑھ مراد لیتے ہیں،اُنہیں ذرا سوچنا چاہیے کہ آج جو کتاب پوری دنیا کے لوگوں کے لیے عروج و ارتقا کا زینہ ثابت ہورہی ہے وہ معلمِ کائنات ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔یہ معترضین کے لیے مقامِ غور و فکر ہے کہ ساری دنیا جن کے خرمنِ علم سے خوشہ چینی کرکے ارتقائی بلندیوں کو چھو رہی ہےاورجس پر قرآنِ کریم کا نزول ہوا ہے( جو کائنات کے تمام علوم و فنون، اسرار و حقائق اور احکام و شرائع پر محیط کتابِ مقدس ہے(،وہ ذات اَن پڑھ کیسے ہوسکتی ہے۔ (فیاللعجب!)
آئیے یہاں اِس حوالے سےایک اورقرآن کی آیت ملاحظہ فرمائیں اور اپنے نہاں خانۂ دل میں معلمِ انسانیتﷺ کی تعلیمی قدر و منزلت کو جاں گزیں کریں۔
مرجعِ علم و حکمت معلمِ کائنات ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کتاب و حکمت کے ساتھ ساتھ دین کے جملہ اُمور،شریعت کے احکام اور غیب کے وہ تمام علوم و اسرار عطا فرمادیا جو آپ نہ جانتے تھے۔چناں چہ کلامِ مجید کی سورۂ نساء آیت نمبر 113 میں ارشاد ہے:
وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا. (النساء ، آیت:113)
اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اُتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ جامع البیان کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اللہ نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا بیان ہے، ہدایت اور نصیحت ہے اور آپ پر نصیحت نازل کی ہے۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ حلال، حرام، امر، نہی، دیگر احکام، وعد، وعید اور ماضی اور مستقبل کی خبریں ان چیزوں کا کتاب میں اجمالاً ذکر کیا گیا ہے اور ان تمام چیزوں کی تفصیل ہم نے وحی خفی کے ذریعہ آپ پر نازل کی ہے اور یہی حکمت کو نازل کرنے کا معنی ہے اور جن چیزوں کو آپ پہلے نہیں جانتے تھے، ہم نے ان سب کا علم آپ کو عطا فرمادیا، اس کا معنیٰ ہے تمام اولین اور آخرین کی خبریں اور ماکان وما یکون پر آپ کو مطلع فرمادیا۔
( تفسیرِ تبیان القرآن،ج 2،ص : 795،96)
اسی طرح دو احادیثِ مبارکہ بھی ملاحطہ فرمائیں جنہیں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت علیہ الرحمہ نے امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ کی شفا شریف کے حوالے سے فتاویٰ رضویہ میں نقل فرمایا ہے:
یعنی حالاں کہ نبی کریم ﷺلکھتے نہ تھے مگر حضور کو ہر چیز کا علم عطا ہوا تھا یہاں تک کہ بے شک حدیثیں آتی ہیں کہ حضور کتابت کے حروف پہچانتے تھے اور یہ کہ کس طرح لکھے جائیں تو خوبصورت ہوں گے، جیسے ایک حدیث ابن شعبان نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی کہ نبیﷺ نے فرمایا:
بسم اللہ کشش سے نہ لکھو ( سین میں دندانے ہوں نِری کشش نہ ہو) دوسری حدیث (مسند الفردوس) میں امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہوئی کہ یہ حضور کے سامنے لکھ رہے تھے، نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ دوات میں صوف ڈالو اور قلم پر ترچھا قط دو اور بسم اللہ کی ب کھڑی لکھو اور اس کے دندانے جدا رکھو اور میم اندھا نہ کردو( اس کے چشمہ کی سفیدی کھلی رہے) اور لفظ اللہ خوبصورت لکھو اور لفظ رحمن میں کشش ہو ( رحمن یا رحمن یا رحمن یا رحمن) اور لفظ رحیم اچھا لکھو۔(فتاویٰ رضویہ،ج:2۹،ص460،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ،لاہور)
درج بالا آیت و احادیثِ مبارکہ سے یہ اعتراض رفع ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺمعلمِ کائنات ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے اس کی مکمل خبریں عطا فرمادیا اور کائنات کے جملہ علوم و معارف اور اسرار و رموز سے بھی واقف کرادیا ہے۔ہاں ! رسول اللہ ﷺ کو’’ امی‘‘ لقب عطا کرنے میں بہت سی حکمتیں اور فوائد پوشیدہ ہیں، جن کو علما و مفسرین نے بیان کیا ہے۔ چناں چہ علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ رسول اللہﷺ کے ’’امی‘‘ لقبی ہونے کی کچھ حکمتیں اور فوائد یوںبیان فرماتے ہیں:
(1) تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور اقدس ﷺ ہوں اور آپ ﷺ کا استاد صرف خداوند عالم ہی ہو، کوئی انسان آپ کا استاد نہ ہوتاکہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔
(2) کوئی شخص کبھی یہ خیال نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور ﷺ کا استاد تھا تو شاید وہ حضورﷺ سے زیادہ علم والا ہو گا۔
(3) حضور ﷺکے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور ﷺچوں کہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس لیے انھوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن انھی کا بنایا ہوا کلام ہے۔
(4) جب حضور ﷺ ساری دنیاکو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پہلی اور پرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ کر اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
(۵) اگرحضور ﷺکا کوئی استاد ہوتا تو آپ کو اس کی تعظیم کرنی پڑتی،حالاں کہ حضورﷺ کو خالق کائنات نے اس لیے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپﷺ کی تعظیم کرے، اس لیے اللہ پاک نے اسے گوارا نہیں فرمایا کہ میرا محبوب کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس کا استادہو۔(واللہ تعالیٰ اعلم) (سیرت المصطفیٰ،ص: 85)
خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا امی لقب ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ نے دنیا میں کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا بلکہ رب تعالیٰ نے بذاتِ خود آپ کو اپنی بارگاہ سے ماکان وما یکون کا علم عطا فرمایا۔ یہ بھی واضح ہوا کہ ’’اُمی‘‘ لفظ کے بے شمار معانی آتے ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہے کہ ایسی شخصیت جو کسی سے پڑھی نہ ہو اور ساری دنیا کے علوم اسے آتے ہوں، یہی معنی معلمِ انسانیت ﷺ کے لیے خاص ہے، اسی وجہ سے آپ ﷺ کو ’’اُمی‘‘ کہا جاتا ہےاور آپ کا یہ کمال ہے کہ آپ نے نہ کبھی کسی سے تعلیم حاصل کی اور نہ ہی کسی سے شرفِ تلمذحاصل کیا، بلکہ اس میں کوئی دوراے نہیں کہ آپ کی پوری حیاتِ مبارکہ کسی بھی طرح کی شاگردی اور طالبِ علمی سے مبرا و منزہ ہے، لہٰذا آپ کو شانِ امّیت حاصل ہونا جہاں آپ کی نبوت کی حقانیت اور صداقت کی ایک روشن دلیل ہے وہیں بارگاہِ رب العزت سے جمیع علوم کا اکتساب ہونا بھی ایک عظیم معجزہ ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ایسا اُمّی کس لیے منت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اُس کو اِقرَا َربُّکَ اَلاَکرَم نہیں
لہٰذا لفظِ’’ امی‘‘ کے معنی و مفہوم کو لے کر مغالطہ میں پڑھنا اور آپ ﷺ کو ان پڑھ کہناسراسر نادانی، کم علمی، کج فہمی اور نا سمجھی کی دلیل ہے۔ رسول اللہﷺ کے علم کا حال تو یہ ہے کہ آپ جس خطۂ عرب میں تشریف لائے وہاں کفر وضلالت اور شرک و گمرہیت کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے،آپ نے اپنے نورِ علم و عرفان سے نہ صرف عربوں کے قلوب و اذہان کو روشن و منور کردیا بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں شمعِ علم کو فروزاں کیا، آج دنیا میں تعلیم و تعلم، علم و حکمت اور درس و تدریس کی جو بہاریں ہیں آپ ہی کے نقوشِ کف پا کے صدقے ہیں۔ ◘◘◘
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org