21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Dec 2024 Download:Click Here Views: 10459 Downloads: 572

(13)-حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہما

مفتی محمد اعظم مصباحی مبارکپوری

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سابقین اولین اور نبی کریم ﷺ کے قریبی صحابہ میں  ہیں، آپ حضور ﷺ کے ساتھ سفر و حضر میں ساتھ رہا کرتے تھے ۔ آپ کی سیرت طیبہ سے بے پناہ علم، زہد و تقویٰ، فقاہت، اور قربانی کی مثالیں ملتی ہیں۔ آپ کی زندگی کو اسلامی تاریخ اور سیرت کے مختلف پہلوؤں سے جاننا ہمیں دین کی گہری بصیرت اور محبتِ رسول ﷺ کا درس دیتا ہے۔

نسب اور ابتدائی زندگی:آپ کا مکمل نام عبد اللہ بن مسعود بن غافل الہذلی تھا۔

کنیت: ابن ام عبد اور ابو عبد الرحمٰن تھی،والدہ کا اسمِ گرامی ام عبد تھا:

 شجرۂ نسب یہ ہے :حضرت عبد اللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بن شمخ بن فار بن مخزوم بن صابلہ بن حارث بن تمیم بن سعد بن ہذیل بن مدرکہ بن الیاس  بن مضر۔

 آپ کا تعلق قبیلہ ہذیل سے تھا۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا اور ابتدائی زندگی میں آپ مکہ کے رؤسا کے جانور چرانے کا کام کرتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا اور آپ کو نبی کریم ﷺ کے قریبی صحابیوں میں شامل کر دیا۔

اسلام قبول کرنے کا واقعہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان  ابتدائی چھ صحابہ میں شامل ہیں جنھوں نے آغاز اسلام میں  اسلام قبول کیا۔ آپ کا ایمان لانا ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔ ایک دن آپ پہاڑوں میں بکریاں چرا رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے۔ نبی کریم ﷺ نے پانی مانگا، لیکن آپ کے پاس کچھ نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ سے ایک بکری کا دودھ دوہنے کی اجازت لی۔ جب آپ نے  ایک ایسی بکری  پیش کی جس  نے پہلے بچے نہ دیے تھے کا تھن پیش کیا تو نبی کریم ﷺ کے معجزے سے فوراً  اس بکری کے تھن سے دودھ بہنے لگا۔ اس واقعے سے حضرت عبد اللہ بن مسعود کی دل میں محبتِ رسول ﷺ پیدا ہوئی اور جلد ہی آپ نے اسلام قبول کر لیا.

حبشہ اور مدینہ کی ہجرت:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مکہ میں کفار کے مظالم سہتے رہے اور ایمان پر ثابت قدم رہے۔ آپ حبشہ کی پہلی ہجرت میں بھی شریک تھے۔ بعد میں مدینہ منورہ ہجرت کی اور ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے۔

قربانی اور جرأت کا مظاہرہ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نہایت بہادر اور جری صحابی تھے۔ آپ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر علی الاعلان قرآن مجید کی تلاوت کی۔ آپ نے سورۃ الرحمن کی تلاوت شروع کی، جس پر کفار قریش نے آپ کو شدید زدوکوب کیا، لیکن آپ قرآن کی تلاوت سے باز نہ آئے ۔

ایک مرتبہ رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہما  کوساتھ لیا اور حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ہاں تشریف لائے ، حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس وقت قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہے تھے ، پیارے آقا ، مدنی مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم دیر تک کھڑے ان کی تلاوت سنتے رہے ، پھر فرمایا : جو شخص قرآنِ کریم کو ایسے پڑھنا چاہے جیسے نازِل ہوا ہے تو وہ اِبْنِ اُمِّ عَبْدکی طرح قراءَت کرے ۔

 ایک روز آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود  رَضِیَ اللہ عَنْہ  کو فرمایا : عبداللہ! مجھے قرآن سُناؤ! حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے عرض کیا : یارسولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم! میں سُناؤں؟ حالانکہ قرآن آپ پر نازِل ہوا ہے؟ فرمایا : ہاں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے سُوْرَۂ نِسَآء کی تلاوت کی ، رسولِ رَحْمت ، شفیعِ اُمَّت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم قرآن سنتے رہے اور آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

قاضِی عیاض مالکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  نے شِفَا شریف میں ”عشق مصطفےٰ “ کی علامات کا شُمار کیا تو ان میں ایک علامت ” محبتِ قرآن “ لکھی کہ جو شخص قرآن سے محبت کرتا ہے وہی رسولِ کائنات ، فخرِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  سے بھی محبت کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : جو یہ جاننا چاہے کہ اس کے دِل میں اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم   کی محبت ہے یا نہیں ، وہ دیکھے کہ قرآنِ مجید سے محبت کرتا ہے یا نہیں ، اگر تو اس کے دِل میں قرآنِ مجید کی محبت ہے تو سمجھ لے کہ وہ اللہ پاک اور

 اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم   سے محبت کرتا ہے۔

علم اور فقاہت:آپ رضی اللہ عنہ کا شمار نبی کریم ﷺ کے سب سے بڑے فقیہوں اور محدثین میں ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کے علم کی بارہا تعریف کی۔ آپ کے بارے میں فرمایا:

”تم قرآن کو ویسے سیکھنا چاہتے ہو جیسے نازل ہوا ہے تو عبد اللہ بن مسعود سے سیکھو“۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرآن مجید کے نزول، ناسخ و منسوخ آیات، اور احکام شریعت کی گہری سمجھ حاصل تھی۔ آپ فقہ کے امام سمجھے جاتے تھے، اور بعد میں کوفہ میں آپ نے لوگوں کو دین کی تعلیم دی۔ آپ کے شاگردوں میں حضرت علقمہ، شریح قاضی اور ابراہیم نخعی جیسے بڑے علما شامل ہیں۔

محبتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  اور قربت:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کے نہایت قریب تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کی خدمت میں اکثر حاضر رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کے وضو کا پانی اور نعلین مبارک  رکھنے کی خدمت بھی آپ کے ذمے تھی۔ اس قربت کی بنا پر آپ کو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کے بہت سے راز معلوم تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ  تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے:

”عبد اللہ بن مسعود وہ صندوق ہیں جن میں علم کا خزانہ ہے“۔

کوفہ میں تدریسی خدمات:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں آپ کو کوفہ بھیجا گیا تاکہ وہاں لوگوں کو قرآن اور دین کی تعلیم دیں۔ آپ کی درسگاہ سے بڑے بڑے محدثین اور فقیہ پیدا ہوئے جنہوں نے اسلامی علوم کو آگے پہنچایا۔ آپ کے علم و زہد کی شہرت دور دور تک پھیلی، اور آپ کا طریقہ اجتہاد آج بھی اسلامی فقہ کے اصولوں میں شامل ہے۔

زہد و تقویٰ:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دنیاوی خواہشات سے دور اور نہایت سادہ زندگی گزارنے والے تھے۔ آپ نے ہمیشہ قناعت اور زہد کو اختیار کیا اور دوسروں کو بھی دنیا کی محبت سے بچنے کی تلقین کی۔ آپ کا معمول تھا کہ راتوں کو تہجد میں قرآن کی تلاوت کرتے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ  تعالیٰ عنہ نے آپ کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کی پیشکش کی، لیکن آپ نے دنیاوی مال کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

حضرت  عبد اللہ  بن مسعود کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ  عنہ فرماتے ہیں:آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

نیز آپ فرمایا کرتے تھے:اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص135)

وفات:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کی وفات خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں 32 ہجری میں ہوئی۔ وفات کے وقت آپ مدینہ منورہ میں تھے۔حضرت عثمان غنی نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور  آپ کو جنت البقیع میں  حضرت عثمان بن مظعون کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

مآخذ:بخاری، مسند امام احمد، الشرف المؤبد لآل محمد، اسد الغابہ، سیر اعلام النبلاء۔◘◘◘

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved