21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Dec 2024 Download:Click Here Views: 10473 Downloads: 572

(11)-حافظ ملت قوم و ملت کے عظیم معمار

محمد مدثر حسین اشرفی پورنوی

 ماضی قریب میں جن بزرگوں نے اپنی پوری زندگی خدمت اسلام کے لیے وقف کردی، اور جن کے شب وروز قوم وملت کی اصلاح اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر عمل میں بسر ہوئے، اور جو نونہالان اسلام کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کے لیے مدارس ومساجد کے قیام وترقی کے لیے شب وروز کوشاں رہے، ان میں ایک اہم نام جلالۃ العلم، استاذ العلما حافظ ملت علامہ الشاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی قدس سرہ کا ہے ، اختصار سے  جن کےذکر جمیل کی سعادت حاصل کررہے ہیں ۔

حضرت حافظ ملت کے والدین کریمین اور آپ کے جد امجد شریعت مطہرہ کے از حد پابند تھے ، سنت پر عامل تھے، قرآن شریف کی تلاوت سے بڑی محبت تھی ، ایسے باشرع اور پاکیزہ ماحول میں اہل سنت وجماعت کے عظیم محسن، بے شمار علما وفقہا کے استاذ ومربی، حضور اشرفی میاں قدس سرہ کے محبوب نظر مرید وخلیفہ،  مسلک اعلٰیٰ حضرت کے سچے داعی حافظ ملت حضرت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی کی ولادت باسعادت قصبہ بھوج پور ضلع مرادآباد اترپردیش میں، 1312 ہجری مطابق 1894 عیسوی بروز دوشنبہ شریف کو ہوئی ، چوں کہ حافظ ملت علمی وعملی اور پاکیزہ خاندان میں پیدا ہوئے، جہاں علم دین کے حصول کی بڑی تڑپ ہوتی ہے ، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے پدر بزرگوار سے حاصل کی ، آپ کے والد کی دیرینہ خواہش تھی کہ میرا یہ لڑکا بڑاعالم بنے ، اس تعلق سے حضور حافظ ملت خود فرماتے ہیں:

” بھوجپور میں کوئی بڑے عالم یاشیخ درویش تشریف لاتے تو والد صاحب مجھے ان کے پاس لے جاتے اور عرض کرتے حضور میرے اس بچہ کے لیے دعافرمادیں ، وہ دعا کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت مولاناشاہ سلامت اللّٰہ رام پوری علیہ الرحمہ تشریف لائے ان کے پاس لے گئے اور عرض کیا میرے اس بچہ کے کے لیے دعا فرمادیں ، مولاناشاہ سلامت اللّٰہ  قدس سرہ نے فرمایا حافظ صاحب میں سب کے لیے دعاکرتاہوں مگر اس کے لیے تو آپ ہی کی دعاہے اور فرمایا اولاد کے حق میں والدین کی دعا یابد دعانبی کی دعا یابد دعا کا اثر رکھتی ہے “۔ ( حیات حافظ ملت )

جب حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں صدرالمدرسین کی حیثیت سے تشریف لائے تو قریب قریب ہرسال حضور اشرفی میاں دارالعلوم میں تشریف لایاکرتے تھے - ایک بارجب آپ کی آمد ہوئی تو آپ نے حافظ ملت کو خلافت دینی چاہی لیکن آپ نے اپنی منکسر المزاجی کی وجہ سے عرض کی کہ حضور مجھ میں تو کچھ صلاحیت نہیں میں خلافت کیسے لوں ؟ جوابًاحضرت شیخ المشائخ نے یہ امتیازی تمغہ عطافرمایا:” دادحق راقابلیت شرط نیست “

اورخلافت واجازت سے سرفراز فرمایا ۔ ( حیات حافظ ملت )

  علاوہ ازیں آپ کے استاذ صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی قدس سرہ نے بھی خلافت سے نوازا .

حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت، کائنات کی سب سے عظیم دولت ہے، اس دولت سے دنیا وآخرت دونوں سنورتی اور کامیاب ہیں ، حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سچے عاشق رسول تھے ،ایک عاشق کی دائمی دلی تمنا ہوتی ہے کہ گنبدخضرٰی کا حسین جلوہ اپنی آنکھوں سے دیکھوں - مگر محبوب دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا اس  عاشق کو بھلا کب گوارا ہو کہ اپنی تصویر  ( پاسپورٹ بنانے کے لیے جو قانونی طور پر ضروری ہے)  چھاپے - مگر ذات پاک مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر یقین کامل دیکھیے؛ فرماتے ہیں: اگر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس غلام کو طلب فرمائیں گے، تو ساری رکاوٹیں دور ہوجائیں گی ۔ دنیا نے دیکھا کہ وہ ساعت سعید آئی کہ بغیر فوٹو کھینچوائے آپ نے حرمین شریفین کی زیارت کی ۔ عشق اگر صادق ہو اور قلب میں خلوص وللہیت ہو تو تائید غیبی یقینی ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے نمونۂ عمل ہے ، ایک مومن کامل کے شب وروز سنت مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثنا کی پیروی کرتے ہوئے بسر ہوتے ہیں ، اس تعلق سے حضرت حافظ ملت کے شب وروز دیکھا جائے تو آپ کالمحہ لمحہ عین سنت رسول پرعمل پیرا ملتاہے ۔ ایک بار حضرت کے دائیں پاؤں میں زخم ہوگیا جس پہ دوالگانی تھی، ایک صاحب دوا لے کر پہنچے اورکہا حضرت دوا حاضرہے ، جاڑے کازمانہ تھا حضرت موزہ پہنے ہوئے تھے ، حضرت نے پہلے بائیں پاؤں کاموزہ اتارا، وہ صاحب بول پڑے حضرت! زخم توداہنے پاؤں میں ہے آپ نے فرمایا بائیں پاؤں کاپہلے اتارناسنت ہے۔ وضو کرنے کے لیے بیٹھنا ہوتاتو قبلہ رُخ بیٹھتے، حضرت کاپاجامہ کبھی اتنا لمبانہ دیکھاگیا کہ ٹخنہ چھپ جائے اور نہ ہی غیرضروری طور پراونچا کہ پنڈلی کھل جائے ، سچ تویہ ہے کہ آپ کی وضع اور لباس کااندازدیکھ کر شرعی وضع سمجھ میں آجاتی تھی ۔ ( حافظ ملت نمبر )

الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اہل سنت وجماعت کاعظیم ادارہ ہے ، یہ ادارہ نہ صرف یہ کہ ملک عزیز ہندوستان میں مشہور ہے بلکہ بیرون ممالک بھی اس کی اچھی شناخت ہے ، اس کی تعمیر وترقی نیز معیاری تعلیم وتربیت ملک اور بیرون ممالک میں غیر معمولی شہرت کے لیے حضور حافظ ملت قدس سرہ پوری زندگی فکرمند رہے ، عمر کا اخیر حصہ جس میں عمومًا لوگ آرام اور اہل خانہ کے ساتھ رہنے کوترجیح دیتے ہیں، مگر اہل سنت وجماعت کایہ عظیم سپہ سالار اس عمر میں بھی جامعہ کی تعمیر وترقی کی فکر کی ،  آخری ایام میں جب حضرت بیمارتھے بعض لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت! اب کچھ روز مکمل آرام فرمالیں  اور تبلیغی دوروں کوبند کردیں، اگر صحت رہی تو پھر یونیورسٹی کا کام ہوجائے گا - اس شدید علالت ونقاہت کے عالم میں اس جدوجہد کااثرجسم پراچھانہ پڑے گا ، حضرت کی دوربیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ کہیں ایسانہ ہو کہ ہم تو آرام کرنے لگیں اور حیات مستعار کاسلسلہ ٹوٹ جائے، لہٰذا اس عرض پرلوگوں سے فرمایا،  یہاں اونچ نیچ ہوش وحواس والے کو سمجھایاجاتاہے اور میں توالجامعۃ الاشرفیہ کے لیے عقل وہوش کی دنیا سے نکل کرجنون کی سرحد میں داخل ہوچکاہوں اس لیے مجھے میرے حال پر چھوڑدو ، اسی طرح ایک مرتبہ فرمایا بلاوجہ لوگ مجھے کام سے روکتے ہیں اور کہیں جانے نہیں دیتے - بیمار اپنی حالت خود سب سے بہترجانتاہے جب میں خودکو صحت یاب پارہاہوں توآپ لوگ کیوں بیماربیمار کی رٹ لگارہے ہیں ۔ ( حافظ ملت نمبر )

مختصر یہ کہ حضرت حافظ ملت نے الجامعۃ الاشرفیہ کو عروج وارتقا کی منزل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، آپ اپنے اس قول پر عامل تھے ” زمین کے اوپر کام زمین کے نیچے آرام“۔اللّٰہ عزوجل ہم سب کوفیضان حافظ ملت سے مالامال فرمائے آمین بجاہ اشرف الانبیاءوالمرسلین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم -◘◘◘

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved