21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Dec 2024 Download:Click Here Views: 10477 Downloads: 572

(10)-باتیں حافظ ملت کی

 

مولانا حمد عبد المبین نعمانی

استاذ العلما، جلالۃ العلم ، حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمۃ والرضوان بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور (متوفیٰ یکم جمادی الآخرہ 1396ھ/31 مئی 1976ء) چودہویں صدی ہجری کی اس عظیم شخصیت کا نام ہے جس کی زندگی کا لمحہ لحد دین و شریعت کی تبلیغ و اشاعت اور مسلک اہل سنت و جماعت کی حفاظت و صیانت کے لیے وقف تھا ، جنھوں نے اپنی زندگی کو اطاعت خداوندی و اتباع سنت نبوی کے سانچے میں ایسا ڈھال لیا تھا کہ آپ کو دیکھ کر سنت و شریعت پر عمل کرنے کا جذبہ دلوں میں موجزن ہو جا تا تھا ، ایک طرف آپ علم و فضل میں یکتا تھے تو دوسری طرف عمل و تقویٰ  میں بھی کامل تھے۔ دین کی سربلندی کے لیے سعی پیہم، مخلوق خدا کی خدمت، دوست و دشمن کے لیے حلم و برد باری  کے آپ پیکر تھے۔اوقات کو بلا وجہ ضائع کرنا آپ گناہ سمجھتے تھے، کسی نے آپ کو بے کار نہ دیکھا ہوگا ، حتیٰ کہ سفرمیں بھی آپ ذکر الٰہی و تلاوت کلام ربانی میں رطب اللسان نظر آتے تھے ، ٹرین میں سفر کر رہے ہوں یابس میں یا پیدل، ہر وقت آپ کے لبہاے مبارک جنبش میں رہا کرتے تھے ۔

آپ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ بھی تھی کے کٹر سے کٹر مخالف اور  جانی دشمن تک کو برے لفظ سے یاد نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے لیے اصلاح کی دعا فرماتے، اسے غلط فہمی کا شکار بتاتے یا خاموش رہتے ، البتہ دشمنانِ خدا اور رسول کے لیےشمشیر برہنہ تھے۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی مداہنت کو روا نہیں رکھتے ۔

حضور حافظ ملت نے متعدد بار فرمایا :” میں نے حضرت صدرالشریعہ سے علم بھی سیکھا  اور عمل بھی،  آج کل لوگ صرف علم سیکھتے ہیں۔“ اسی عمل اور اخلاص کا نتیجہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں وہ کارہاے نمایاں انجام دیے کہ معاصرین میں بلا شبہ فائق و ممتاز گردانے گئے،  بالکل ویسے ہی جیسے حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ اپنے اقران میں ممتاز تھے۔

 حضور حافظ ملت اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، اور مختلف النوع خصوصیات کے حامل ، آپ ایسے عظیم شیخ الحدیث تھے کہ آپ کے دور میں سب سے زیادہ طلبہ آپ کے ہی درس دورۂ حدیث میں ہوا کرتے تھے۔ افسوس کہ آپ کی تحریرات درسی جمع نہ ہو سکیں ، ورنہ ایک قیمتی علمی سرمایہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتا ۔میں نے اپنے دورۂ حدیث کے سال(89-1388ھ) میں بخاری شریف کے درس کی خاص خاصی تقریروں کو قلم بند کرنے کا اہتمام کیا تھا ۔ مگر دو کا پیوں پر لکھی ہوئی یہ تقریریں سرقہ کا شکار ہو کر ضائع ہو گئیں ، پھر دل ٹوٹ جانے کی وجہ سے مزید تقریر یں نہ لکھ سکا۔

حضور حافظ ملت بہترین شیخ الحدیث تھے ، پوری بخاری شریف (مکمل دونوں جلدی ں) دورۂ حدیث میں ترجمہ و مختصر تشریح کے ساتھ ختم کراتے تھے۔ آج اس پر غور کیا جاتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ اہم کام کیسے حضرت انجام دیتے تھے، جب کہ تقریری پروگرامات کا سلسلہ بھی اچھا خاصا لگا رہتا تھا ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ رجب کے آخر میں بخاری شریف کی دونوں جلدیں ہم لوگوں نے ختم کرلی تھیں ، اس دور میں ہمارے کل رفقاے درس ایک کم چالیس تھے ، بخاری شریف کی قراءت حافظ ملت کے سامنے آسان نہ تھی، بہت غور سے حضرت اعرابی کیفیات پر توجہ فرماتے تھے ، غلط عبارت پڑھ کر نکل جانا حضرت کے سامنے آسان نہ تھا ، حتیٰ کہ حروف کی ادائیگی حسب قواعد تجوید (ضروری حد تک) پر بھی توجہ دیتے اور غلط پڑھنے پر سخت تنبیہ کرتے تھے۔

حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کوئی پیشہ ور مقرر نہ تھے مگر خطیبانہ جو ہر اور عالمانہ وقار سے بھر پور تقریر فرماتے تھے ، اور ملک کے گوشے گوشے سے بڑے بڑے  جلسوں اور کا نفرنسوں میں مدعو کیے جاتے تھے ، ہر بڑی کا نفرنس ہیں آپ کی شرکت لازمی تصور کی جاتی تھی۔ انکسارو تواضع اور خدمت دین و اشاعت  حق  کا ایسا  جذبۂ صادقہ پا یا تھا کہ بایں ہمہ کمال و خوبی چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بھی محافل میلاد شریف کے لیے مدعو کیے جاتے تو بلا تکلف منظور فرماتے اور تشریف لے جاتے اور کبھی کبھی طویل مسافت پیدل چل کر بھی طے کرنی پڑتی تو اسے گواراکرتے اور نذرا نے کے طور پر جو کچھ ملتا اسے لے لیتے، کبھی کر ایے سے بھی کم رقم پیش کی جاتی اور کبھی کچھ نہیں ملتا۔ جب بھی اشاعت حق کی راہ میں قوم کی یہ بے اعتنائیاں اور بعض پیشہ ور جلسہ کرانے والے ارکان کی زیادتیاں ان کے قدم کو ڈگمگا  نہ سکیں ، بالجملہ اخلاص فی الدین کا ایسا جو ہر کامل اور استقامت کا ایسا کوہ گراں ڈھونڈنے سے ملنا مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کے بہت سے تلامذہ میں بھی آپ کی ان خصوصیات کا عکس نظر آتا ہے۔ بے نیازی اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ کھانے میں اور سواری کے سلسلے میں کبھی کوئی پسند اور خواہش کا اظہار نہیں فرماتے، جو ملتا کھا لیتے اور جس سواری پر سوار کرایا جاتا بلا تکلف سوار ہو جائے۔ کبھی میلوں سائیکل پر بیٹھ کر بھی سفر کرنا پڑتا تو اس کو بھی بہ طیب خاطر گوارا کرتے ، چاہے خود کو زحمت ہی کیوں نہ اٹھانی ، اور جلسہ یا کوئی اور پروگرام ہوتا توبعدِ اختتام جلد واپسی کی کوشش کرتے اور اس سلسلے میں داعی حضرات کی بہت ساری خواہشات کو بھی نظر انداز کر جاتے تا کہ  دوسرے پروگرام میں فرق نہ آئے ، اور تدریسی خدمات میں بھی نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے ۔ غرضےکہ مقررین و خطبا اور مبلغین و علما کے لیے اس حیثیت سے بھی آپ کی زندگی بہترین نمونہ بھی ہے۔

 آپ با ضابطہ کسی خانقاہی نظام سے وابستہ نہ تھے، نہ خود کوئی خانقاہ بنائی بلکہ آج کی بگڑی ہوئی خانقاہوں اور پیشہ ور سجادہ نشینوں کو اور  ان سے ہونے والے دینی نقصانات کو دیکھ کر نہا یت درجہ کڑھتے اور رنجیدہ ہوتے اور ایسی خانقا ہوں کو فرماتے کہ” یہ خانقاہ نہیں خواہ مخواہ ہیں“۔ لیکن آپ نے اسلاف کے کارناموں اور ان کے تربیتی ا نظام کو اپنی نگاہوں میں رکھ کر قوم کی  ایسی روحانی تعلیم و تربیت کی کہ بڑی بڑی خانقاہوں ہوں اور بڑے بڑے سجادہ نشینوں کے مقابلے میں آپ کے کا رنامےبدرجہا بھاری ہیں۔ آپ نے پیری مریدی کو کبھی پیشہ نہیں بنایا اور نہ ہی مریدین کی جیبوں پر کبھی نظر ڈالی، جس نے بھی روحانی تربیت کے لیے رجوع کیا آپ نے اس کی بھر پور رہ نمائی فرمائی اور تربیت کا حق ادا کیا ۔

حافظ ملت علیہ الرحمہ نے جہاں علوم ظاہری کو فروغ دیا ہے، علوم باطنی کے جام بھی پلائے ہیں۔ آپ اکثر یہ شعر ارشاد فرماتے؂

ترے مے کدے میں کمی ہے کیا جو کمی ہے ذوق طلب میں ہے

جو ہوں پینے والے تو آج بھی وہی بادہ ہے وہی جام ہے

 جو جیسا ذوق لے کر گیا اس کو ویسی ہی توجہ سے نوازا ۔حضور حافظ ملت کا مقام عرفان ہم تہی دامن کیا جانیں؟ آپ کی رفعت شان دیکھنی ہو تو عارف باللہ قطب عالم غوث زمن سرکا رمفتی اعظم رضی المولیٰ عنہ کی آنکھوں سے دیکھا جائے۔ پہلی بار سر کار مفتی اعظم کی زیارت کا نا چیز کو شرف 1388ھ یا 89ھ میں اس وقت حاصل ہوا جب آپ دار العلوم اشرفیہ تشریف لائے ۔ وہ ہم لوگوں کی طالب علمی کا دور تھا۔ سرکار مفتی اعظم حافظ ملت کی درس گاہ میں قیام فرما تھے ، اتنے میں حضور حافظ ملت مفتیِ اعظم سے ملنے تشریف لائے۔ سرکا رمفتی اعظم دور ہی سے دیکھ کر کھڑے ہو گئے ۔ اور حضور حافظ ملت کا حال یہ تھا کہ نہایت نیاز مندانہ انداز میں تیزی سے آئے، اور جھک کر قدم بوس ہو گئے، باوجود ے کہ سرکار مفتی اعظم منع کرتے رہے اور ہاتھ سے بھی روکتے رہے مگر حافظ ملت علیہ الرحمہ قدم بوسی میں  کامیاب ہو گئے ، وہ عجیب روحانی اور پر کیف منظر تھا۔ ایک طرف حافظ ملت کا ادب دوسری طرف مفتی اعظم کا اعزاز اور ہر ایک اپنے اپنے مقصد کی بجا آوری میں بھر پور کوشاں۔ اس واقعہ سے ہم لوگوں کے دلوں میں سر کار مفتی اعظم کی جو عظمت بیٹھی وہ شاید لمبے چوڑے تعریفی جملوں سے بھی نہ بیٹھتی۔ دوسری طرف شہزادہ اعلیٰ حضرت سرکار مفتی اعظم نے حضور حافظ ملت کا جو اعزاز فرمایا اس سے آپ کی عظمت جو ہمارے دلوں میں تھی وہ دوبالا ہوگئی اور آپ کی جلالت و فضل کا جو سکہ ہمارے دلوں میں بیٹھا تھا اس کا نقش اور گہرا ہو گیا۔ یہیں سے حضور حافظ ملت کے روحانی مقام اور عرفانی بلندی کا پتا چلتا ہے۔

حضور حافظ مہ نے اپنی سادگی اور ایک اخلاص کی وجہ سے نہ تو اپنی در سی تقریروں کو نوٹ کرانے کا اہتمام کیا نہ ہی دیگر ارشادات و ملفوظات سے متعلق کوئی انتظام کیا ۔ آپ کے تلامذہ ومریدین میں سے بھی کسی نے اس پر توجہ نہ دی جب کہ اگر آپ کے ارشادات و ملفوظات کو قلم بند کیا جاتا تو قیمتی ارشادات پر مشتمل ضخیم دفتر تیار ہو جاتا۔ راقم الحروف نے کچھ ارشادات واقوال قلم بند کیے جسے مولانا اختر حسین فیضی مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ نے اپنی کتاب ” ملفوظات حافظ ملت “ میں شامل کر لیا ہے۔ جوا المجمع الا سلامی  مبارک پور سے شائع ہو گئی ہے ۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved