فضلِ رحماں مجددی نقشبندی علیہ الرحمہ گنج مرادآبادی
شیخ غلام ربانی رحمانی نقشبندی ،گنج مرادآبادی
اسم گرامی: فضلِ رحماں علیہ الرحمہ ۔عرفیت مولانا بابا
والد محترم: حضرت مخدوم شاہ اہل اللہ میاں، علیہ الرحمہ
(اولاد ) حضرت مخدوم شیخ محمد مصباح العاشقین چشتی علیہ الرحمہ (مَلّاواں ضلع ہردوئی)
والدہ محترمہ :حضرت سیدہ بصیرت بی بی بنتِ سید رحمت اللہ (اولاد )حضرت مخدوم سید علاء الدین چشتی علیہ الرحمہ (سنڈیلہ ضلع ہردوئی )۔
القابات: استاذالمحدثین، مرجعِ علما وصوفیہ، قطب الاقطاب ، مرشدِ انس وجِن، اویس دوراں،شیخ عرب وعجم، صاحب کشف وکرامات، مستجاب الدعوات ۔
مولد: آپ کا ننھیال، موضع سنڈیلہ، ضلع ہردوئی، یوپی
سن ولادت :یکم رمضان المبارک 1208 ھ۔
مسکن: وطن اول، مَلّاواں، ضلع ہردوئی ۔وطن ثانی، گنج مراد آباد ،ضلع اناؤ، یوپی ۔ وطن ثانی میں آپ کی آمد ،سن 1242ھ میں ہوئی
حسب ونسب :والد کی جانب سے آپ امیرالمؤمنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہیں، اور والدہ کی جانب سے آپ اولادِ سید الشہدا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ میں ہیں ۔
ہندوستان میں مورثِ اعلیٰ کی آمد :
آپ کے اجداد کرام میں شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین ثانی ،المعروف ”شہیدِحق گو“ علیہ الرحمہ، (6 چھٹی ہجری میں ) ہندوستان تشریف لائے ۔ آپ اور آپ کی اولاد در اولادوں کی بڑی دینی خدمات و احسانات ہیں اور آپ کو ثانی اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کے پر دادا محترم کا بھی یہی نام تھا، جو بڑے صاحب فضل وکمال، اور مسجد حرم میں درس حدیث اور منصبِ امامت پر فائز تھے ۔
بچپن :آپ رمضان المبارک میں صرف رات میں دودھ پیتے تھے، 2؍سال کی عمر میں اتنی صاف اور شیریں باتیں کرنے لگے تھے کہ پاس پڑوس والے اکثر آپ کی باتیں سننے کے لیے آیا کرتے تھے، تقریباً ڈھائی سال کی عمر میں حضرت مخدوم شاہ عبدالرحمن، لکھنوی علیہ الرحمہ کے پاس، رسم بسم الله ادا فرمائی۔ 3؍ سال کی عمر میں ڈھیلے سے استنجا فرمانے لگے، بعمر 4سال ،نماز ومراقبہ وغیرہ کا آغاز فرمایا۔ اور 10سال کی عمر سے نمازِ باجماعت کے پابند ہوگئے تھے۔ ”ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ“ [الجمعہ:آیت:4]
تعلیم:ابتدائی تعلیم، سنڈیلہ اور ملاواں، میں ہوئی، صرف ونحو، اصول وکلام اور تفسیر وفقہ وغیرہ کا درس، سلطان العلما، حضرت مولانا نورالحق فرنگی محلی علیہ الرحمہ سے لیا۔ اور سراج الہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ سے علم حدیث میں کمال حاصل کیا۔ ہردو استاذ آپ کی بڑی قدر کرتے تھے۔ حضرت محدث دہلوی نےتو یہاں تک فرمادیا : ” مولانا فضل رحماں کو حصول علم میں نبی کریم ﷺ کی خصوصی توجہ حاصل رہتی ہے “ واضح رہے کہ بعض تذکرہ نگاروں نے شاہ اسحٰق محدث دہلوی کو آپ کا استاد بتایا ہے جو سراسر غلط ہے ۔
بیعت وخلافت:حضرت مولانا بابا علیہ الرحمہ، سید العارفین، شیخ الواصلین، عطیۂ خلاق علامہ خواجہ شاہ محمد آفاق دہلوی علیہ الرحمہ کے مریدوخلیفہ تھے۔مرشدِ برحق اپنے حلقۂ ارادت میں آپ کی خدا داد خوبیوں کااکثر ذکر کرتے ہوئے فرماتے تھے : ”اللہ رب العزت نے مجھے ایک خاص بیٹا مرحمت فرمایا ہے۔ میں اس کی مریدی پر فخر کرتا ہوں اور تمام عالم میرے اس کامل واکمل بیٹے کے دریائے فیض سے سیراب ہوگا“۔
آپ کو چاروں سلاسل کی اجازت وخلافت کے علاوہ، اپنے مرشد سے سلسلۂ مداریہ کی بھی نسبت حاصل تھی، مگر والدہ محترمہ کے تعلق سے سلسلہ نقشبندیہ کی نسبت غالب تھی۔
(آپکی والدہ حضرت شاہ تراب علی قلندر نقشبندی کاکوروی علیہ الرحمہ سے مرید تھیں )
علومِ ظاہری وباطنی میں درجۂ کمال : تقریباً بعمر 13سال
مال ودولت سے بےنیازی:اتباع شریعت، خوف خدا اور عشق رسالت، آپ کا اصل سرمایہ تھا، دولت وثروت سے کوئی سروکار نہیں تھا، اہل عقیدت کی جانب سے جو نذرانے اور تحائف وغیرہ آتے تھے وہ جلد ہی غربا ومساکین میں تقسیم کردیے جاتے تھے یا پھر اہل ضرورت اور مہمانوں کی خاطر لیا ہوا قرض ادا کردیا جاتا تھا۔
متاع دنیا:پہننے کے لیے دو تین جوڑےمعمولی کپڑے، ایک رضائی، باند کی ایک چارپائی، ایک لکڑی کی چوکی، ایک کھجور کی چٹائی، چند ڈھیلے، دوپیالے اور ایک لوٹا ۔
اکابر علما بارگاہ فضلِ رحمانی میں :
فاضل بریلوی:اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی بغرض ملاقات حضرت قدسی صفات مولانا بابا گنج مرادآبادی سے ماہر مضان میں آئے اور ایک جگہ ٹھیر کر خدمت اقدس میں اطلاع کرائی کہ ایک شخص بریلی سے ملنے آیا ہے خادم نے جا کر بتایا، تو مولانا بابا نے فرمایا کہ یہاں فقیر کے پاس کیا دھرا ہے ان کے دادا عالم، والد عالم ، اور وہ خود عالم پھر بکمال لطف فرمایا کہ بلالاؤ بوقت ملاقات حضرت بریلوی نے میلاد شریف کے بار میں پوچھا تو مولا نا بابا نے ارشاد فرمایا کہ پہلے تم بتاؤ، خود بھی تو عالم ہو، حضرت بریلوی نے عرض کیا حضور میں تو میلاد کو مستحب جانتا ہوں، اس پر مولانا بابا نے فرمایا کہ میں سنت جانتا ہوں، کیوں کہ صحابہ کرام جو جہاد میں تشریف لے جاتے تھے تب اپنے گھر والوں میں اہل و عیال سے کیا کہا کرتے تھے، یہی نہ کہ مکہ معظمہ میں نبی اکرم پیدا ہوئے اللہ نے ان پر قرآن اتارا انھوں نے یہ معجزے دکھائے اور اللہ نے ان کو یہ فضائل عطا فرمائے، مجلس میلاد میں بھی تو یہی بیان ہوتا ہے جو صحابہ اپنے مجمع میں کیا کرتے تھے، بس فرق اتنا ہے کہ تم اپنی مجلس میں لڈو بانٹتے ہو اور صحابہ اپنی مجلس میں موڑ (سر) بانٹتے تھے ( یعنی اپنے سر کو کٹوا دیا کرتے تھے ) تو اس پر حضرت بریلوی نے عرض کیا کہ حضور کچھ نصیحت فرمائیے تو مولانا بابا نے فرمایا تکفیر میں جلدی نہ کیا کرو، تب حضرت بریلوی اپنے دل میں سوچنے لگے میں تو اس کو کافر کہتا ہوں جو حضور کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، حضرت مولانا بابا کو کشف ہو ا ،فر مایا کہ ہاں ہاں جو ادنیٰ حرف گستاخی شان اقدس میں کرے بلاشک کافر ہے اس کے بعد حضرت بریلوی نے دعا کی درخواست کی تو مولانا بابا نے اپنی کلاہ مبارک (ٹوپی) حضرت بریلوی کو عنایت فرمائی اور ان کی ٹوپی خود لے لی یہ طریقہ صوفیا میں لباس کی تبدیلی بھی فیض رسانی کا ایک طریقہ ہے۔ (بحوالہ دبدبۂ سکندری، افضال رحمانی، سوانح حیات اعلی حضرت ظفرالدین بہاری)
اس ملاقات کی تاریخ 27 رمضان 1292ھ ہے تین دن قیام کر کے 29 رمضان کو واپسی ہوئی
یہ ملاقات اس لیے بھی تھی کہ اعلی حضرت کے دادا جان حضرت مولانا رضا علی بریلوی بھی مرید و خلیفہ ہیں حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰں گنج مرادآبادی کے اور اعلیٰ حضرت بھی مرید ہونے ہی آئے تھے لیکن روشن ضمیر پر سب روشن ہوتا ہے تو مولانا بابا نے آپ کو مرید نہ کیا بلکہ اپنی دعا و فیض بشکلِ کلاہ عطا کیا پھر اعلیٰ حضرت بدایوں بھی گے تھے مرید ہونے مگر حصہ مارہرہ میں تھا۔
نوٹ: اس واقعہ کو بہت سے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور کچھ کا کہنا یہ ہے کہ جب اعلیٰ حضرت گنج مراد آباد ملاقات کو گئے تو مولانا بابا کوان کی آمد کی خبر پہلے سے ہی ہوگئی تھی اور اپنے خلفا کو ان کا استقبال کرنے کو بستی کے باہر بھیجا یہ باکل جھوٹ ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ خود خلیفہ اعلی حضرت مفتی ظفر الدین بہاری صاحب اپنی کتاب سوانح حیات اعلیٰ حضرت میں لکھتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے ایک جگہ ٹھیر کر خدمت اقدس میں اطلاع کرائی تھی،
اصل میں یہ استقبال والی روایت حضرت قبلہ مانا میاں پیلی بھیتی کی کتاب سوانح اعلیٰ حضرت میں درج ہے اور اسی کتاب کا حوالہ اکثر کتب میں پایا جاتا ہے جیسے کہ خواجہ رضی حیدرکی کتاب تذکرہ محدث صورتی میں بھی ہے
لیکن افسوس یہ، کہ خود مانا میاں قبلہ افضالِ رحمانی کا بھی ذکر کرتے ہوے اس ملاقات کا ذکر یوں کیا ہے ۔ شاہ فضلِ رحماں کے موجودہ سجادہ نشین مولانا افضال الرحمٰن (بھولے میاں) نے اپنی تالیف افضالِ رحمانی میں بھی کیا ہے۔ پھر استقبال کا کیا سوال بنتا جبکہ افضال رحمانی میں ایک جگہ ٹھیر کر اطلاع کرنے کا ذکر ہے
(2) اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھو چھوی بارگاہ فضلِ رحمانی میں :حضرت مولانا شاہ غلام حسین پھلواری بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا شاہ فضل رحماں محدث گنج مراد آبادی کی ولایت کا ایک عالم معترف ہے بلکہ اس دور کے علماو مشائخ کا اجماع ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ جب پہلی بار اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے مولانا بابا سے ملاقات کی تو مولانا بابا نے فرمایا بیٹا اشرفی مثنوی شریف (مولانا روم)سناؤ تو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے مثنوی شریف سنائی، مثنوی شریف سنتے ہی مولانا بابا نے فرمایا کہ بیٹا اشرفی جس طرح حضرت شمس تبریز کی پر فیض صحبت نے مولانا روم کو جلا کر کندن بنادیا تھا اس طرح تمھارے پاس جو بھی عالم آئے گا اس پر تمھارا ہی رنگ غالب اثر ہوگا اور بہت سے علما کا دل آپ کی محبت میں جل کر بوے محبت پھیلائے گا یہ دعا و بشارت سن کر اعلی حضرت اشرفی میاں قدم بوسی کو جھکے تو فورا مولانا بابا نے اپنے قدم سمیٹ لیے اور آپ کو گلے لگا لیا۔
یہ دعا و بشارت حرف بہ حرف صادق آئی اور اعلی حضرت اشرفی میاں کی با فیض صحبت سے کثیر علماو مشائخ و طالبان حق کے قلوب رنگ گئے ہند اور بیرون ہند آپ کے ہی رنگ کا چرچا تھا اور آپ کا ہی رنگ غالب تھا اور آج بھی خاندان کچھوچھہ کے علماو مشائخ آپ کے ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ (بحوالہ سیرت اشرفی ص: 40 / شیخ اعظم نمبر 2012ء)
کس قدر جید علما کامل صوفیا آپ سے فیضیاب ہوے ہیں، یوں تو جس بزرگ اور جس عالم دین نے جمال فضل رحمانی کا مشاہدہ کیا تو وہ خراج تحسین پیش کیے بغیر نہ رہ سکا، لیکن وہ علما جن کو آپ سے محبت تھی اور فیض حاصل کیا ان میں سے چند نام یہ ہیں:
(1) مولانا رضا علی بریلوی (2) مفتی ظفر الاسلام فتح پوری (3) حافظ احدیث حضرت مولانا سید ابو سعید ایرایاں(4) بحر العلوم ابوالحسنات مولانا عبدالحی محدث فرنگی محلی (۵) مولانا احمد رضا محدث بریلوی (6)مفتی وصی احمد محدث سورتی پیلی بھیتی (7) مفتی ظہر اللہ صاحب محدث لکھنو (8) مفتی نعمت اللہ صاحب محدث لکھنو (۹) مفتی نور الحق صاحب محدث لکھنو (10) مفتی ولی اللہ صاحب محدث لکھنو (1) مفتی لطف اللہ صاحب علی گڑھی (12) مولانا احمد حسن سہوانی (3) مولانا احمد حسن محدث سہارن پوری (14) مولانا احمد حسن کانپوری (1۵) سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری (16) حضرت محمد علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں (17) حضرت علیم اللہ خان صاحب (18)حضرت سید دیدار علی محدث علی پوری صاحبان کے نام نمایاں ہیں جن کا اٹھتے بیٹھتے یہ متفقہ مقولہ تھا کہ جس کو اتباع سنت عالم حدیث اور خلفائے اربعہ کے دربارشریعت و طریقت کی شان دیکھنا ہو تو وہ شیخِ عرب و عجم اویسِ دوراں حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰں محدث گنج مراد آبادی کو دیکھ آئے۔(بحوالہ افضال رحمانی، رحمت و نعمت )
آپ کے اقوال: یہ اقوال مختلف محافل میں فرمائے ہیں:
◘آپ نے فرمایا شریعت کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
◘آپ نے فرمایا اتباع سنت ہی مقام غوثیت اور قطبیت ہے۔
◘آپ نے فرما یا صاحب حال و صاحب مقام ہونا آسان ہے مگر با نسبت ہونا مشکل ۔
◘ ایک بار یوں ارشاد فرمایا صاحب حال وہ ہے جس پر کوئی کیفیت وارد ہونے لگے ، لیکن با نسبت وہ ہے جس کو دائمی فنائیت حاصل ہو۔
◘ آپ نے ارشاد فرمایا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنا یہ بھی مولود ہے کہ مخبر صادق صل اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ذکر عام ہی مولود ہے۔
◘ ایک بار جواز مولود شریف کا ذکر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا تمام قرآن میں پیدائش انبیا کا ذکر ہے بس یہی مولود شریف ہے اس محفل میں تھوڑی دیر بعد ار شاد فرمایا ہم تو روز مولود شریف کرتے ہیں حضرت زکریا حضرت یحی، حضرت عیسیٰ جملہ انبیا و سید نا محمد رسول اللہ کا، مقصد یہ ہوا کہ بیان پیدائش و عظمت ومعجزات، یہی مولود شریف ہے ۔
ازواج و اولاد :آپ کا پہلا عقد اپنے ہی خاندان کی ایک نیک طینت خاتون سے ہوا تھا، جن کے بطن سے حضرت مولانا شاہ عبدالرحمٰن اور مولانا شاہ عبدالرحیم اور ایک دختر پیدا ہوئیں، صاحب زادی کی پیدائش کے چند روز بعد حرم اول کا وصال ہو گیا ۔ پھر دوسرا عقد گنج مرادآباد میں ہوا، یہ خاتون، نواب میر کریم شیر صاحب علوی کے خاندان سے تھیں، موصوفہ سے قیوم دوراں، قطب زماں حضرت مولانا شاہ احمد میاں علیہ الرحمہ اور سید محمد عرف سیدو میاں (19سال کی عمر میں وصال فرما گئے تھے) اور شفقت بی بی صاحبہ پیدا ہوئیں۔
1302ھ میں حرم دوم کا بھی وصال ہوگیا، پھر چند سال بعد ایک عرب خاتون مسماة مریم بی بی صاحبہ آپ کے عقد میں آئیں، جو حضرت کی وفات کے بعد تقریباً 15سال حیات رہیں، تینوں مخدومات حضرت مولانا بابا علیہ الرحمہ کے فیضان کرم سے مالامال اور اتباع شریعت وسنت میں یکتاے روزگار تھیں۔
کشف وکرامات : بقولِ صاحب نزہۃ الخواطر، سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ کشف و کرامات کا صدور، آپ سے ہوا ۔
حضوری رسالت : آپ جب چاہتے حضور رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو جاتے تھے، حتیٰ کہ احادیث کی تصحیح بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر، کرلیتے تھے، اور بسااوقات اپنے شاگردوں اور مریدوں کو بھی شرف زیارت سے فیض یاب فرمادیا کرتے تھے اور صاحبانِ کتب کی ارواح سے بھی ملاقات کروا دیا کرتے تھے ” ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ“ [الجمعہ:آیت:4]
درجۂ کمال:مولانا رحمان علی تذکرہ علماے ہند میں فرماتے ہیں کہ مولانا شاہ فضلِ رحماں کے اوصافِ حمیدہ اور خصائصِ پسندیدہ ایسے نہیں ہیں کہ زبانِ بریدہ قلم، قلم بے بنیاد، کاغذ پر، اُن میں سے تھوڑا بھی لکھ سکوں،اور انسانِ ضعیف البنیاد کی کیا مجال ہے کہ انکا عُشرِ عشیر بھی بیان کرسکے۔
اعزازو امتیاز:علامہ یٰسٓ اختر مصباحی (دار القلم دہلی)اپنی کتاب اویسِ زماں میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
مولوی حبیب اللہ ٹانڈوی مہاجر مدنی بیان کرتے ہیں کہ میری عمر کے چودہ پندرہ سال تو ایسے گزرے ہیں کہ ہر مہینے کا زیادہ حصہ آستانہ رحمانی پر گزرا کیا ہے، میں نے بے حد کشف و کرامات آنکھوں سے دیکھی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں نے دیکھا دربارِ رسالت صل اللہ علیہ وسلم سجا ہےلیکن میرے پیر و مرشد
غوثِ زماں حضرت مولاناشاہ فضلِ رحماں صاحب نظر نہیں آئے تو مجھے بڑا ملال ہوا، اتنے میں بکمال شفقت رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیوں ملول ہو میں نے عرض کیا کہ میرے پیر و مرشد کیا یہاں نہیں ہیں تو اس پر ار شاد ر سول کریم ہوا کہ یہ تو دربار عام ہے جہاں تم دیکھتے ہو، یہاں وہ کہاں، پھر پر دۂ حجاب اٹھا تو میں نے اپنے پیرو مرشد کو حریم خاص میں دیکھا کئی روز تک مجھ پر یہ جلوہ فضل رحمانی دیکھ کر وجدانی کیفیت طاری رہی۔
حضرت شاه حاجی وارث علی کابیان :یوں تو حاجی صاحب مولانا بابا سے بڑی محبت عقیدت رکھتے تھے اور حاجی صاحب مولانا بابا کی ننھالی رشتے داری سے بھتیجے لگتے تھے اور حاجی صاحب اکثر اپنے مریدوں میں مولانا بابا کے فضائل و کمالات بیان کیا کرتے تھے جس میں سے ایک واقعہ یوں ہے کہ:
حاجی صاحب قبلہ کے ایک شاہ صاحب مرید خاص جو شہر گیا (بہار) میں رہتے تھے انھوں نے بیان کیا ہے کہ حاجی صاحب نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ مولانا شاہ فضل رحماں صاحب آقائے دو جہاں صل اللہ علیہ وسلم سے بغیر پوچھے کسی کو مرید نہ کیا کرتے تھے اور آپ کا یہ بھی بے حد کمال تھا کہ جسے چاہتے اور جب چاہتے تھے اس مرید کا ہاتھ آقا صل اللہ علیہ وسلم کو پکڑا دیا کرتے تھے اور تاریخ میں یہاں تک ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو مصنفینِ کتب کی ارواح سے بھی ملاقات و مصافحہ کروادیا کر تے تھے ۔(بحوالہ رحمت و نعمت/ افضالِ رحمانی)
ہجومِ خلق : آپ کے دربار عالی میں حصول فیض کے لیے، ہندوستان اور دیگر ممالک کے علما و صوفیہ، اصحاب اقتدار، غرباء ومساکین ،مسلم اور غیر مسلم کا میلہ لگا رہتا تھا، ان میں کچھ ایسے بھی افراد ہوتے تھے کہ جن کے کرایہ اور زادِراہ وغیرہ کا بندوبست آپ کو ہی کرنا پڑتا تھا، علاوہ ازیں جب آپ گھر یا مسجد سے باہر نکلتے تو بکریاں اور متعدد قسم کے پرندے وغیرہ آپ کو گھیر لیتے ، اور جب تک آپ ان کے کھانے کے لیے غلہ و غیرہ نہ ڈالتے وہ آپ کا راستہ نہیں چھوڑتے تھے۔
کرامات :
(1) -بلگرام شریف میں مولانا بابا کا حاضر ہونا: ایک مرتبہ حضرت ستھرے میاں بلگرامی علیہ الرحمہ اپنی قیام گاہ میں آرام فرما رہے تھے کہ اچانک ایک بزرگ سفید لباس میں ملبوس نمودار ہوئے اور ستھرے میاں سے میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ کی مزار دریافت کی تو ستھرے میاں صاحب نے آرام فرماتے ہوئے (یعنی لیٹے لیٹے اشارہ فرمادیا کہ وہ مزار جو یہاں سے نظر آرہی ہے وہی میر عبدالواحد بلگرامی کا مزار پاک ہے آنے والے سفید لباس میں ملبوس بزرگ نے کہا کہ میں اتنی دور سے چل کر آرہا ہوں اور تم یہاں سے تھوڑی دور اُٹھ کر نہیں چل سکتے پھر حضرت ستھرے میاں ان بزرگ کے ساتھ میر صاحب کے مزار پر تشریف لے گئے مزار پر ابھی پہنچے ہی تھے کہ دونوں حضرات یک بیک غائب ہو گئے کچھ وقت گزرنے کے بعد صرف حضرت ستھرے میاں ہی واپس تشریف لائے اپنی قیام گاہ پر، تو ان کے خادموں نے حضرت ستھرے میاں سے پوچھا کہ آپ جاتے وقت تو دو حضرات تھے لیکن آتے وقت آپ اکیلے ہی تشریف لائے تو اس پر حضرت ستھرے میاں نے فرمایا کہ ہم لوگ میر صاحب کے مزار پر حاضر ہوئے تو دیکھا کہ میر صاحب اپنے مزار میں موجود نہیں تھے وہ کسی دوسرے مقام پر تھے پھر ہم دونوں حضرات بھی وہاں پہنچ گئے تھے پھر ان کے خادموں نے پوچھا کہ وہ آنے والے سفید لباس میں ملبوس بزرگ کون تھے تو اس پر حضرت ستھرے میاں نے یہ راز کھولا کہ وہ آنے والے سفید لباس میں ملبوس بزرگ حضرت علامہ شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادی تھے جن کو وصال کئے ہوئے ایک عرصہ ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ سبحان اللہ کیا مقام ہے اللہ والوں کا۔ (بحوالہ ضیای واحدی)
(نوٹ) ایک تو مولانا شاہ فضل رحماں گنج مراد آبادی کے بعد وصال اپنی قبر سے بلگرام جانے اور وہاں سے دوسرے مقام پر جانے اور پھر وہاں سے واپس آنا اس واقعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اولیاء اللہ اپنی مزاروں میں زندہ رہتے ہیں اور جب چاہے جہاں چاہتے ہیں آتے جاتے ہیں۔
(2) ایک بار حضرت مولانا شاہ نیاز احمد فیض آبادی کچھ لکھ رہے تھے کہ ایک دم لکھتے لکھتے رک گئے اور ان پر سکتہ طاری ہو گیا کہ اتنے میں ایک بزرگ تشریف لائے اور بڑے جلالی انداز میں فرمایا کہ مولانا (نیاز احمد) کیوں نہیں آتے ہو۔
تو مولانا نیاز احمد ان بزرگ کو دکھتےہی فور کھڑے ہوگئے پھروہ بزرگ اتنا کہے اور غائب ہو گئے وہاں موجود لوگوں نے مولانا نیاز احمد سے بہت اصرار کیا تب مولانا نیاز احمد نے یہ راز کھلا کہ یہ بزرگ میرے پیرو مرشد مولا نا شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی تشریف لائے تھے اور یہ تمہید فرمائی کہ آتا کیوں نہیں تیرا انتظار ہے۔
نوٹ : غور طلب بات یہ ہے کہ وہاں بیٹے موجودہ لوگ یہ سمجھے تھے کہ گنج مراد آباد آساتانہ پر انتظار ہے لیکن اس واقعہ کے تیسرے دن مولانا حکیم شاہ نیاز احمد رحمانی فیض آبادی علیہ الرحمہ کا جب وصال ہو گیا، تو وہاں موجودہ لوگوں نے مولانا بابا کو جو اعلانیہ دیکھا تھا اس کرامت کو سمجھے یعنی مولانا شاہ فضل رحماں نج مراد آبادی کا خود وصال 22 ربیع الاول 1313ھ میں ہو چکا تھا اور مولانا نیاز احمد کا وصال 25 ذو الحجہ 1345ھ میں ہوایعنی مولانا شاہ فضل رحماں اپنے انتقال کے 32 سال بعد اعلانیہ طور پر اپنے مرید کے پاس گئے اور کہا کہ آتا کیوں نہیں تیرا انتظار ہے ، سبحان اللہ قربان جائیے عظمت فضلِ رحماں پر اور بزرگوں کی سیرت پر۔ (بحوالہ رحمت و نعمت)
مولوی عبدالحی صاحب نزہۃ الخواطر میں مولانا شاہ فضل رحماں کے فضائل وکمالات میں لکھتے ہیں کہ علم و عمل ، ورع و زید، شجاعت و کرم، جلالت و حبابت، اور امربالمعروف ونہی عن المنکر میں اپنے معاصرین میں مولانا بابا سب سے ممتاز اور قائق نظر آتے تھے،
اس کے ساتھ اخلاص نیت گریہ و زاری،عشق، حسن اخلاق، اور عام فیض رسانی میں، اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے اگر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑا ہو کر میں (حکیم عبدالحی) قسم کھاؤں کہ میں نے دنیا میں آپ سے بڑھ کر صاحب کرم ورحم اور دنیاد غیرہ سے بے تعلق اور کتاب و سنت کا تبع نہیں دیکھا تو میں حانث (جھوٹی قسم کھانے والا) نہیں ہوں گا اور اس کے ساتھ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا آپ سے بڑا عالم میں نے نہیں پایا۔ اور جہاں تک کشف و کرامات کا تعلق ہے وہ تو حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ (بحوالہ کسوٹی )
شب وروز کے مشاغل:درس تفسیر وحدیث، وعظ ونصیحت، دعوت واصلاح، اذکار و اوراد، کثرتِ نوافل، ترویج شریعت وطریقت، اور خدمت خلق ۔
وصال پاک:حضرت مولانا شاہ فضل رحماں کا وصال اس طرح ہوا کہ یکم ربیع الاول 1313ھ سے مزاج کچھ زیادہ نا ساز رہنے لگا مگر کمال اتقا یہ تھا کہ ایک وقت کی بھی نماز با جماعت نہ چھوڑی، پھر ایک دن آپ کے سینے میں درد پیدا ہوا، جس سے خلش تکلیف اور بھی بڑھ گئی کہنے کو یہ بظاہر مرض تھا مگر باطن خدا سے ملنے کا بہانہ تھا۔
اسی حالت میں 22 ربیع الاول 1313 ھ جمعہ کا دن آیا تو استغراق با حضرت حق اور بھی زیادہ ہو گیا آپ جناب احادیت کی یاد میں ان تکالیف کے باوجود تسبیح و تحلیل میں مصروف رہے غرض یہ کہ عصر و مغرب کے درمیان، مکان دنیاوی سے مکان اخروی میں انتقال فرمایا۔ انا لله و انا الیه راجعون بعد غسل جو کفن آپ کو پہنایا گیا وہ آپ کے پیر ومرشد کا عطیہ تھا۔آپ کا مزار پرانوار گنج مرادآباد شریف، ضلع اناؤ میں واقع ہے، جہاں سے آج بھی فیض رسانی کا سلسلہ جاری ہے ۔
حوالہ: مذکورہ بالا”تعارف نامہ“ رحمت ونعمت، افضال رحمانی، کسوٹی، نزہۃ الخواطر، اور اویسِ زمان، وغیرہ سے ماخوذ ہے ۔◘
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org