21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Dec 2024 Download:Click Here Views: 10465 Downloads: 572

(7)-خلیفہ و تلميذ اعلیٰ حضرت مفتی رحیم بخش مظفر پوری علیہ الرحمہ

 

مفتی محمد اسلم آزاد مصباحی

سید المناظرین قاضی رحیم بخش علیہ الرحمہ مردم خیز موضع باتھ اصلی،مظفر پور (موجودہ ضلع سیتامڑھی) بہار میں پیدا ہوئے۔ تلاش بسیار کے با وجود تاریخ ولادت معلوم نہیں ہو سکی۔ ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی بزرگوں سے حاصل فرمائی۔اعلیٰ تعلیم بریلی شریف میں منظر اسلام کے قیام سے پیشتر بارہ سال تک اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی خدمت میں رہ کر جملہ علوم و فنون میں مہارت و تربیت حاصل کی۔ آپ  شہ زادۂ اعلیٰ حضرت حجۃالاسلام علامہ حامدرضاخاں علیہ الرحمہ کے ہم درس و ہم سبق ساتھی ہیں۔خداداد صلاحیت اورعلمی قابلیت کی بدولت اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے آپ کو ’’بڑے مولانا صاحب‘‘ کا خطاب عطا فرمایا۔ جب آپ علوم عقلیہ و نقلیہ سے مرصع ہو گئے تو اعلیٰ حضرت نے دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین و مسلک کی خاطر مشرقی بہار،آسام، اڑیسہ اور بنگال کی جانب بحیثیت مبلغ و داعی روانہ کیا اور فرمایا: ’’بیٹے! میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں ۔‘‘

علاقہ اتردیناج پور اور اعلیٰ حضرت قدس سرہ:

مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ  لکھتے ہیں:20 اپریل1962ء کو ڈمٹی (ڈیمٹھی،اتر دیناج پور، مغربی بنگال ) پہنچنا ہوا ۔ 2۵؍کو یہاں سے روانگی ہے۔ یہاں بھی ایک دو جلسے ہوتے ہیں، یہاں کے حاجی محمد حلیم صاحب سے معلوم ہوا کہ ان کا ارادہ تھا کہ مرید ہوں ، مونگیر ( محمد علی مونگیری بانی ندوہ لکھنو) کی طرف خیال تھا۔ کوئی فقیر منش شخص مانع ہوئے اور مولانا رحیم بخش صاحب با تھوی فاضل ( منظر اسلام ) بریلی مرحوم مغفور کی طرف اشارہ کیا ان سے ہو جاؤ۔ انھوں نے مولانا رحیم بخش صاحب مرحوم سے کہا۔ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اعلیٰ حضرت سے اجازت نہیں ہے۔ جب تک اجازت نہ لے لوں بیعت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ بقصد اجازت بریلی کا سفر کیا اور بھی کچھ صاحبان ہم راہ تھے وہ فقیر صاحب بھی ۔ اعلیٰ حضرت سے ملاقات ہوئی ، ابھی کچھ کہنے بھی نہ پائے تھے کہ فرما یا اجازت ہے، فوراًواپس جاؤ فورا واپس ہو کر مرید کرو۔ ہمر اہیان پر اعلیٰ حضرت کی اس کرامت کا عجیب اثر ہوا، چنانچہ مولانا رحیم بخش مرحوم باتھوی واپس ہوئے اور یہاں کے لوگوں کو مرید کیا۔ اس لیے اس نواح کے باشندگان کو حق و باطل، بریلوی ودیو بندی کی خوب تمیز ہے۔“ (ماہنامہ اعلی حضرت بریلی شماره جون 1962ء ص :11(

مفتی رحیم بخش علیہ الرحمہ کی علمی شان کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ’’فتاوی رضویہ شریف‘‘ کا  رسالہ ’’الدلائل القاہرة على الكفرة النیاشرة‘‘ اورشیر بیشہ اہل سنت مفتی محمد حشمت علی لکھنوی ثم پیلی بھیتی کی کتاب ’’الصوارم الہند یٍۃ‘‘ میں آپ کی تصدیق و تائید موجود ہے۔ آپ کو فن مناظرہ میں ید طولیٰ حاصل تھا اور اَدیان باطلہ کا رَد و ابطال آپ کےپسندیدہ فنون تھے۔كثير تشنگان علوم و عرفان کو اپنے علمی،دینی اور روحانی جام سے شاد کیا۔ مولاناسیدالزماں حمدوی پوکھریرا بہار سابق ہیڈ مولوی عابدہ ہائی اسکول مظفرپور بہار نےبتایاکہ بڑےمولاناصاحب دوران تقریر امام رازی کی تفسیر کبیر کے کئی کئی صفحات عربی عبارت کے ساتھ پڑھ دیتے تھے پھر ترجمہ بھی  کرتےتھے۔

کرامات و تصرفات:

(١) علامہ ڈاکٹر حسن رضا خاں( پی ایچ ڈی پٹنہ) دام ظلہ نے اپنے ایک مضمون میں آپ کی ایک کرامت بیان فرمائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے:

’’ ایک بار کلکتہ میں گیارہویں کی محفل میں مفتی رحیم بخش نے شان غوث اعظم بیان کرتے ہوئے کہا کہ غوث پاک کے نام سے دی ہوئی شیرینی اگر کسی نابیناکوکھلادیا جائے تووہ بینا ہوجائےگا۔ غیر مقلدین بطور تمسخر دونابینا اور ایک کلو مٹھائی لاکر بولے:آپ ہی فاتحہ پڑھیں اور کھلائیں،آپ نے غوث پاک کے نام سے فاتحہ پڑھی اورتبرک کھلایا اسی وقت وہ دونوں بینا ہو گئے؟ پورا مجمع نعرہ کی صداسے گونج اٹھا اور بہت سے بد عقیدے تائب ہوئے۔ اور مرید بن گئے“۔

(2) راقم الحروف نے اپنے دادا الحاج دبیرالدین،مرحوم ماسٹرادریس اور درجنوں لوگوں سے سناکہ سرزمین ڈیمٹھی،اسلام پور سے روانہ ہوتے وقت ایک انتہائی غریب شخص نے حضرت مفتی رحیم بخش علیہ الرحمہ کو چائے پلانے کی خواہش ظاہر کی۔آپ منع فرماتے رہے مگر  وہ مُصر رہا۔ بالآخر وہ آپ کوراضی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن یہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یہ کہ جب وہ غریب آدمی چائے بنوانے نکلا تھا تو وہاں حضرت سمیت پانچ چھ لوگ موجود تھے۔ جب وہ چائے لے کرحاضر خدمت ہوا تو حضرت کے پاس عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو گيا۔ وہ محو حیرت تھا کہ کیا کروں؟ اسی کش مکش میں کافی وقت بیت گیا، لوگ آتے رہے اور حضرت سے شرف ملاقات و دعا حاصل کرتے رہے۔ اتنے میں آپ کی نظر اس پر پڑی، فرمایا تقسیم کرو! وہ غریب عقیدت مند با ادب عرض گزار ہوا:حضور! بمشکل آپ کے ساتھ دس لوگوں کو اس کیتلی کی چائے کفایت کرے گی ! آپ کو اس پر ترس آیااور کیتلی کا ڈھکن کھولنے کا حکم دیا،آپ نے چائے کیتلی میں دم کیا اور ڈھکن نہ کھولنے کی تاکید کی اور سب کو تقسیم کرنے کا حکم فرمایا ،اللہ کی رحمت سے اس کیتلی کی گرم چائے کو تقریباً ایک ہزار کے مجمع نے نوش کیا۔ 

  (٣)مفتی اشرف رضا قادری دام ظلہ قاضی ادارہ شرعیہ مہاراشٹر ممبئی نے تحریر فرمایا کہ آپ کی قیمتی آراضی آپ کی اجازت کے بغیر قریبی رشتہ دار نے اونے پونے نیلام کرادی، جس وقت آپ کو اطلاع ہوئی آپ نماز عشا کے لیے مشرقی و شمالی مسجد میں تھے۔ اس حادثۂ فاجعہ کی خبر سن کر اللہ کہتے ہوئے سرد آہ کھینچی۔ عینی شاہد کا کہنا ہے کہ آپ کی آہ سے مسجد کی زمین دہل گئی۔

دعوت و تبلیغ اور زریں خدمات:اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمۃ والرضوان کے شاگرد رشید و خلیفۂ اجل وعالم ربانی مفتی رحیم بخش کی میزبانی کا شرف بنگال میں سب سے پہلے اتر دنیا ج پور کو حاصل ہوا ۔زیادہ تر آپ کا قیام خانقاہ ڈیمٹھی، اسلام پور پھر کلکتہ اور دیگر ایک دو جگہوں پر ہوتا تھا،ان جگہوں سے دوسرے  علاقوں میں لوگوں کو دینی و مذہبی و علمی و روحانی خوشبو سے معطر کرنے کے لیے دَورہ کیا کرتے تھے۔آپ کی شخصیت دیناج پور کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی کہ یہاں کثیر تعداد میں علماے کرام پائے جاتے ہیں، اس خطہ کو یہ شرف آپ ہی کے قدوم میمنت  لزوم سے حاصل ہوا۔

آپ نے اپنی مساعی جمیلہ  سےہزاروں گم گشتگان راه کو صراط مستقیم پر گامزن کیا۔ آپ کی تعلیمات ، اخلاقیات اور اعلی تبلیغی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر  عوام جوق در جوق  دامن اسلام سے وابستہ ہوتے گئے۔ اس دُور افتادہ اور پسماندہ علاقہ میں آپ کی دینی، تبلیغی، فلاحی اور اصلاحی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔ لاکھوں لوگوں کو آپ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل ہوا۔وطن مالوف مظفر پور کی جانب دعوت و تبلیغ کا الوداعی سفر بھی ڈیمٹھی، اسلام پور ہی سے ہوا ، گھر پہنچے اور کچھ ہی دنوں میں جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

آپ کی خواہش اور بریلی شریف کی سرکار کے حکم سے اتر دیناج پور میں آپ کے بعد آپ ہی کے شاگرد و خلیفہ حضور بدر ملت الشاہ مفتی بدرالدین احمد قادری برکاتی نوری رضوی منظری علیہ الرحمہ جانشین منتخب ہوئے۔

اولاد امجاد: حضرت کی دوسری زوجہ صبیرالنسا سے ایک شہزادہ مبلغ بنگال،خطیب الہند، خلیفۂ مفسراعظم ہندعلامہ اظہارالحسن نوری اورچار صاحبزادیاں تھیں: زیب النسا زوجہ مولاناوصی احمد حامدی منظری باتھوی۔ سحرالنساعرف سارہ زوجہ مفتی بدرالدین احمدنوری رضوی منظری باتھوی۔ مہرالنسازوجہ منظورالحسن بن منشی اسمعیل شیخ باتھوی۔ صدرالنسا زوجہ شیخ عبیدالرحمن بچھارپوری۔ پہلی زوجہ سے بھی ایک بیٹی وایک بیٹا صوفی سلیم قادری تھے۔

راقم الحروف اسلم آزاد مصباحی مفتی رحیم بخش کی نواسی (محترمہ مرحومہ سحرالنسا عرف سارہ کی بیٹی) محترمہ ہند صدالخیر کاشی پور، ڈیمٹھی ،اسلام پوربنگال کا بڑا بیٹا ہے۔

مزار پُرانوار باتھ اصلی بہارمیں مرجع خلائق ہے۔ عرس ہرسال 1۹ جمادالآخرہ کو ہوتا ہے ۔◘◘◘◘◘◘

 

 

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved