21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Dec 2024 Download:Click Here Views: 10451 Downloads: 572

(5)-بھارت میں مسلم خواتین اور مذہبی امتیاز

فکر امروز

مہتاب پیامی

جنوری 2022 میں،  مغربی بنگال کے بردوان سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ مسلم لڑکی  دہلی آئی تاکہ کانٹینٹ رائٹر کے طور پر ملازمت حاصل کر سکے۔ وہ ایک آزاد خاتون کے طور پر دارالحکومت میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے پرعزم تھی۔اس کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔اس کی والدہ نے اس کے دہلی جاکر کام کرنے کے فیصلے کی حمایت کی۔ لیکن اس کے نئے دفتر میں معاملات اس کی توقعات کے بالکل برعکس نکلے۔ وہ بتاتی ہے کہ شروع میں مجھ سے عام جنس پرستی کے متعلق سوالات کیے جاتے تھے، جیسے کہ ؛ کیا میں مردوں میں دلچسپی رکھتی ہوں یا کس خاص قسم کے لوگ مجھے پسند ہیں، میں کیا پہنتی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ مگر بعد میں یہ رویہ آہستہ آہستہ اسلاموفوبیا میں بدل گیا۔

وہ بتاتی ہے کہ کمپنی کا سی ای او اکثر و بیشتر مسلمانوں کے عدم برداشت پر نازیبا تبصرہ کرتا  اور ساتھ ہی مجھ سے یہ بھی کہتا کہ: تم ان مسلمانوں سے الگ ہو۔ ملازمت حاصل کرنے کے تین ماہ بعد مجھے تنبیہ کی گئی کہ میں اپنے مذہب کو ظاہر نہ کرو ں۔ایک میٹنگ کے دوران، سی ای او نے اس سے پوچھا کہ اگر وہ کسی بزنس میٹنگ کی بعد پارٹی میں ہوتی اور کوئی اسے شراب کا گلاس پیش کرتا تو کیا وہ اسے قبول کرتی، کیونکہ انکار کرنا بدتمیزی ہوتا؟ ایک بار پاکستان کے متعلق بھی اس سے سوال جواب کیا گیا۔7 ماہ کی ملازمت میں اس لڑکی کو اس قدر ذہنی ٹارچر کیا گیا کہ اس نے بالآخر اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ کہتی ہے کہ  تلاش روزگار کے لیے میں نے بوجہ مجبوری گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا ، یہ میری زندگی کا پہلا موقع بھی تھا جب میں نے سماج میں  اسلاموفوبیا کو براہ راست محسوس کیا۔

نجی کمپنیوں میں مذہبی امتیاز:

ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 16 عوامی ملازمتوں میں مساوی مواقع کو یقینی بناتا ہے۔ قانون کے مطابق کسی ممکنہ ملازم کے ساتھ جنس، نسل، مذہب، یا جنسی رجحان کی بنیاد پر امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن نجی شعبے کے ملازمین کے لیے ایسا کوئی قانونی تحفظ موجود نہیں ہے۔آرٹیکل 16 کا اطلاق صرف ریاست کے خلاف ہوتا ہے، نجی ملازمین کے خلاف نہیں، لیکن مزدوروں کے حقوق کے کچھ بنیادی اصول، جیسے کہ منصفانہ اجرت، جنسی ہراسانی سے تحفظ، گریجویٹی، پروویڈنٹ فنڈ اور دیگر شقیں، نجی شعبے پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوتی ہیں۔

آکس فیم انڈیا کی جانب سے نئی دہلی میں جاری کردہ ”انڈیا ڈسکریمنیشن رپورٹ 2022“ کے مطابق شہری مسلمانوں میں کم روزگار کی شرح کا 68.3 فیصد 2019-20 میں امتیازی سلوک کی وجہ سے تھا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2004-05 میں کل روزگار کے فرق کا 59فیصدامتیازی سلوک کی وجہ سے تھا، جو نو فیصد پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ نمایاں طور پر بڑھ گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلم باقاعدہ ملازمت میں 49 فیصد زیادہ کماتے ہیں۔ نجی روزگار میں غیر مسلم اوسطاً 15,878 روپے کماتے ہیں، جب کہ مسلمان 11,421 روپے ، حالانکہ شہری علاقوں میں مسلمانوں کی نجی روزگار میں زیادہ نمائندگی ہے۔ 2015 میں، ایک اکنامک ٹائمز انٹیلی جنس گروپ نے بتایا کہ بی ایس ای 500 کمپنیوں میں صرف 2.67 فیصد ایگزیکٹیوز مسلمان تھے۔

ہاورڈ یونیورسٹی  کے لیڈبائی فاؤنڈیشن نے بھی ، جو بھارتی مسلم خواتین کے لیے ایک لیڈرشپ انکیوبیٹر ہے، انٹری لیول پوزیشنز پر مسلم خواتین کے خلاف ملازمت میں تعصب کو اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ہر بار جب ایک مسلم خاتون کو کال بیک ملتا ہے، ایک ہندو خاتون کو دو کال بیک ملتی ہیں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سنٹر فار دی اسٹڈی آف لاء اینڈ گورننس کی اسسٹنٹ پروفیسر اور 2022 میں شائع ہونے والی کتاب”مسلم وومین اسپیک“ کی مصنفہ غزالہ جمیل نے کہا،  کہ” مسلم خواتین کو عام طور پر پردے کے ذریعے گھروں میں قید سمجھا جاتا ہے، اس لیے پیشہ ورانہ طور پر نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ تصور آجروں کے ذہن میں موجود ہوتا ہے، جو اکثر مسلم خواتین امیدواروں سے انٹرویو اور انتخاب کے عمل میں معاندانہ سوالات کرتے ہیں۔“

مسلمان، جو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں اور 1.4 ارب کی آبادی میں 14فیصد حصہ رکھتے ہیں، بھارتی ورک فورس کے سب سے زیادہ سماجی اور معاشی طور پر محروم طبقات میں شامل ہیں۔ مسلمان خواتین بھارت میں تعلیمی طور پر سب سے زیادہ محروم، معاشی طور پر کمزور، اور سیاسی طور پر حاشیے پر دھکیلے گئے گروہوں میں شامل ہیں۔

بھارت میں 2014 سے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور میں بڑھتی ہوئی ہندو اکثریتی سوچ کے درمیان ریاستی اور غیر ریاستی عناصر نے مسلم خواتین کو نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر، کرناٹک کی بی جے پی حکومت (جولائی 2019 سے مئی 2023 تک) نے اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی لگا دی، اور ہندو انتہاپسندوں نے مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کا اہتمام کیا۔

او پی جندل گلوبل یونیورسٹی میں سیاسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر عنبرین آغا کہتی ہیں کہ : یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آج مسلمان خوف کے ماحول میں جی رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا:اس خوف کا پہلا شکار کمیونٹی کی خواتین ہوتی ہیں، جو ایسے فرقہ وارانہ سیاسی ماحول میں دوہری مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ ایک طرف کھلا امتیاز، اور دوسری طرف، مسلم خواتین ہونے کے ناطے اپنے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد۔

کام کی جگہ پر اسلاموفوبیا:

مذکورہ لڑکی جس کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا، وہ کہتی ہے کہ نپور شرما تنازع کے دوران، جب بی جے پی کی ترجمان نے پیغمبر محمدﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے،کمپنی کے سی ای او نے انھیں اپنے دفتر میں بلا کر پوچھا کہ وہ اس معاملے کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔اس  نے جواب دیا کہ کسی کو اس طرح بات کرنا غلط ہے۔ اس پر سی ای او نے کہا کہ تم تو  مسلمانوں کے ساتھ ہی ہو کیوں کہ تم خود ایک مسلمان ہو۔اسی طرح عید الاضحیٰ کے موقع پرقربانی کے جانوروں کے بارے میں بھی اس سے اوٹ پٹانگ سوالات کیے گئے ، سی ای او نے پوچھا: کیا جانوروں کو مارنا ظالمانہ  فعل نہیں ہے؟ اور مسلمان اس تہوار کو مختلف انداز میں کیوں نہیں مناتے اور اتنے جانوروں کا قتل کیوں نہیں روکتے؟

جب مذکورہ لڑکی نے ، جو کافی عرصے سے حجاب پہننے کے بارے میں سوچ رہی تھیں، ایک دن حجاب پہن کر دفتر آئی تو حالات اس کے لیے مزید خراب ہو گئے۔اس واقعے کے بعد، انتظامیہ کا رویہ اس کے ساتھ انتہائی سرد ہو گیا۔ اسے میٹنگز میں نہیں بلایا جاتا اور کام بھی نہیں دیا جاتا تھا۔

اس نے بتایا کہ ایچ آر نمائندہ سے شکایت کی، لیکن تیس کی دہائی میں موجود خاتون(ایچ آر) نے اس کی کوئی  بات نہیں سنی ۔جب پاکستان سے متعلق تبصرہ کیا گیا تو وہ ایچ آر خاتون بھی وہاں بیٹھی ہنس رہی تھیں۔

اس وقت تمام مشکلات سے نبرد آزما رہتے ہوئے مذکورہ لڑکی پی ایچ ڈی کے امتحان کی تیاری کر رہی ہے۔

صنفی امتیاز بھی موجود ہے:

ورلڈ بینک کے اپریل 2023 میں شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، بھارت میں خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت کی شرح (FLPR)، جو تاریخی طور پر کم رہی ہے، 2021 میں 31 فیصدسے کم ہو کر 23فیصد ہو گئی ہے۔

2011 کی آل انڈیا سینسس رپورٹ کے مطابق، مسلم خواتین میں صرف 15فیصد خواتین نوکری کے بازار میں شریک ہیں، جو ہندو، بدھ مت، اور عیسائی خواتین کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

حیدرآباد کی ایک ملٹی نیشنل سافٹ ویئر کمپنی کی ہیومن ریسورسز ڈائریکٹر نوشین خان نے کہا کہ انہیں اپنے مذہبی تشخص کی وجہ سے امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن انہوں نے بہت کم مسلم پیشہ ور افراد کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے کیریئر کو 15 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ میں نے کبھی کسی مسلم خاتون کو قیادت کی پوزیشن پر کام کرتے نہیں دیکھا۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ میں نے مسلمان خواتین امیدواروں کی بہت کم درخواستیں دیکھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں: سماجی اور ثقافتی عوامل کی وجہ سے مسلم گریجویٹس کی شرح بھی کافی  کم ہے، یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

زاہدہؔ ، جو نئی دہلی میں ایک عالمی آئی ٹی خدمات اور مشاورتی کمپنی میں تجزیہ کار ہیں، نے نوشین خان جیسا تجربہ بیان کیا، جہاں انہیں اسلاموفوبیا کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن دیگر مسلم خواتین کی موجودگی بہت کم محسوس ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں 70 لوگوں کی ٹیم میں واحد مسلم خاتون ہوں۔ میرے خیال میں پورے دفتر میں دو سے زیادہ مسلم خواتین نہیں ہوں گی۔

زاہدہ نے کہا:مجھے مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے ضرور امتیازی سلوک کا شکار ہوئی ہوں۔ عموماً  میرے ساتھی اور منیجر  یہ فرض کر لیتے ہیں کہ میں ذمہ داری کا کوئی عہدہ نہیں سنبھال سکتی کیونکہ میں ایک عورت ہوں۔حالاں کہ یہ بات واضح الفاظ میں کوئی نہیں کہتا مگر ان کے اشاروں کنایوں سے یہی ثابت ہوتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم تک رسائی اور اندرونی عوامل:

2020 میں نیشنل اسٹیٹیکل آفس (NSO) کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق، مسلم خواتین تمام مذہبی گروہوں میں سب سے کم شرح خواندگی رکھتی ہیں۔ صرف 1.90 فیصد مسلم خواتین پری یونیورسٹی تک پہنچتی ہیں، اور صرف 0.14 فیصد تکنیکی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

حالاں کہ مسلم لڑکیوں میں تعلیم اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی زبردست خواہش اور لگن پائی جاتی ہے، لیکن موجودہ معاشی حالات اور سماجی حقیقتوں کے باعث ان میں سے کتنی اپنی تعلیم کے خواب کو پورا کر پاتی ہیں، یہ ایک بڑا سوال ہے۔

تعلیمی مواقع کی کمی:

سچر کمیٹی کی 2005 کی رپورٹ کے مطابق، ہر 100 مسلمانوں میں سے صرف 4 گریجویٹ ہو پاتے ہیں۔ ان 4 میں سے خواتین کی تعداد کتنی ہے، یہ معلوم ہی نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم خواتین کے لیے تقریباً ہر جگہ بہتر تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔

معیشت اور غربت کا اثر:

بھارت کے تیز ترین ترقی پذیر بڑی معیشت ہونے کے باوجود مسلمانوں کی معاشی ترقی جمود کا شکار ہے۔ صبیحہ حسین، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سروجنی نائیڈو سینٹر فار ویمنز اسٹڈیز کی سابق ڈائریکٹر نے کہا کہ غربت تعلیم حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، نجی تعلیمی ادارے تیزی سے بڑھ رہے ہیں لیکن ان تک رسائی صرف دولت مند طبقے تک محدود ہے۔

انہوں نے مزید کہا:تعلیمی اداروں، رسمی اور غیر رسمی شعبوں میں خواتین کی تعداد جیسے ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ڈیٹا موجود نہیں ہوگا، ہم پالیسی سازی میں مداخلت نہیں کر سکتے۔

مسائل کا حل:

  • میعادی اور ساختی اقدامات: صبیحہ حسین نے تجویز دی کہ مسئلے کو مائیکرو اور میکرو سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
    • میکرو سطح پر: مسلمانوں کے لیے اسکالرشپ اور پروگرامز کی تعداد بڑھائی جائے۔
    • مائیکرو سطح پر: مسلم کمیونٹی کو داخلی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جیسے مذہب کی غلط تشریح اور پدرانہ نظام۔

مسلم خواتین کے لیے تعلیمی مواقع میں اضافہ صرف تب ممکن ہوگا جب غربت اور پدرانہ نظام جیسے بنیادی مسائل پر قابو پایا جائے۔ اسکالرشپ اور سرکاری امداد میں اضافے کے ساتھ سماجی شعور اجاگر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ مسلم خواتین کو ترقی کے بہتر مواقع مل سکیں۔

دہلی میں انٹرویو:

دسمبر 2022 میں، اتر پردیش کے لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ فاریہ، جو کسٹمر ریلیشن شپ مینجمنٹ کے شعبے میں کام کرتی ہیں، دہلی آئیں، جب انہیں ایک عالمی کمپنی کے فائنل انٹرویو راؤنڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔ فاریہؔ نے بتایا کہ کمپنی کے ایچ آر نے ان سے ”ویسٹرن فارمل کپڑے“ پہننے کے بارے میں اصرار سے پوچھا۔جیسے ہی میں انٹرویو کے کمرے میں داخل ہوئی، ایچ آر نے سب سے پہلے میرے اسکارف [حجاب] پر توجہ دی۔ ایک چالیس سالہ خاتون اور تیس سالہ مرد  انٹرویو لے رہے تھے، انٹرویو کے دوران گفتگو کام سے ہٹ کر فاریہؔ کے مذہب پر مرکوز ہو گئی۔

  • انہوں نے پوچھا کہ چونکہ مسلم خاندان ”روایت پسند“ ہوتے ہیں، کیا ان کا خاندان انہیں دہلی آنے کی اجازت دے گا، اور وہ اس کا کیسے سامنا کریں گی؟
  • انہوں نے فاریہؔ سے کہا کہ حجاب ”استحصال کی علامت“ ہے اور ایک مسلم خاتون کی مثال دی جو پہلے پردہ کرتی تھیں، لیکن اب مغربی لباس پہنتی ہیں۔ اس خاتون کو بلا کر ان کا لباس دکھایا گیا۔
  • فاریہ سے یہ بھی پوچھا گیا: کیا آپ اس پابندی سے باہر آنے کے لیے پُراعتماد ہیں؟

ایمان کا امتحان:

فاریہ کہتی ہیں کہ میں نے سوچا کہ سوالوں کا سامنا کرنا زیادہ بہتر ہے بجاے فیصلہ کن نظروں کے برداشت کرنے کے ۔انٹرویو کے آخر میں انھوں نے فاریہؔ سے  کہا کہ انہیں حجاب اتارنا پڑے گا۔ جب فاریہؔ نے انکار کیا تو انھوں نے کہا کہ اگر وہ ایسا کریں گی تو ان کی تنخواہ 20فیصد بڑھا دی جائے گی، جو ایک بڑی رقم ہے۔جب فاریہ  نے  اس پر بھی معذرت کے ساتھ انکار کیا اور کمرے سے نکلنے کی تیاری کی، تو ایچ آر نے کہا: ”حجاب لپیٹ کر نوکری ڈھونڈنے کے لیے گڈ لک“۔

تاثرات اور نتائج:

فاریہؔ کو آج بھی یقین ہے کہ تنخواہ بڑھانے کی پر کشش پیشکش سنجیدہ نہیں تھی بلکہ ان کے عقیدے کا امتحان تھا۔انھوں نے کہا:میری پریشانی یہ ہے کہ لوگ فرض کرلیتے ہیں کہ چوں کہ میں اپنے عقیدے کی علامت پہنتی ہوں، میں خود مختار عورت کی طرح کام کرنے کے قابل نہیں ہوں یا غیر مسلم خواتین کے مقابلے میں کم مؤثر ہوں گی۔یہ بات فاریہؔ نے اپنے والد کو بتائی، کیونکہ وہ اس بات پر شرمندہ تھیں، خاص طور پر حجاب کے متعلق تبصرے پر۔

حجاب اور کمیونٹی پر تنقید:

فاریہ نے فروری 2023 میں،  گڑگاؤں کے ایک ہوم ایکسیسریز اسٹور میں کام شروع کیا۔، وہ کہتی ہیں کہ اسٹور میں جب ان کے ساتھی ملازمین تنخواہوں اور اخراجات پر مذاق کر رہے تھے، تو انہوں نے کہا کہ اگر سبھی اضافے کی بات کر رہے ہیں، تو وہ بھی مانگ سکتی ہیں۔ اس پر ایک ساتھی نے طنز کیا کہ انہیں اپنی کمیونٹی کے لیے دی جانے والی تنخواہ پر شکر گزار ہونا چاہیے اور مزید کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ان کے اس رویے کی شکایت مینیجنگ ڈائریکٹر سے کی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی

دہلی میں انٹرن شپ کے تجربات:

22 سالہ ہماؔ، نومبر 2022 میں دہلی کی ایک عالمی ایڈ-ٹیک کمپنی میں مارکیٹنگ انٹرن کے طور پر شامل ہوئیں۔تقریباً ایک ماہ بعد، کھانے کے دوران، ہما کے ساتھیوں نے ان سے مسلم شادیوں کی رسومات کے بارے میں پوچھا۔ ہما نے وضاحت کی، لیکن ایک ساتھی نے مذاقاً کہا کہ ”مسلمان شادی کے وقت تین بار قبول ہے کہتے ہیں اور طلاق کے وقت تین بار طلاق کہتے ہیں۔“جب ہما نے اس تبصرے کو توہین آمیز کہا، تو تینوں خواتین ہنسنے لگیں۔

ہما کے مطابق، ان کے ساتھی پاکستانی ڈراموں اور لباس کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرض کر لیتے تھے کہ وہ پاکستانی پسند کریں گی یا جانتی ہوں گی۔وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے مجھے پاکستانی شوز اور سماجی میڈیا کی باتوں پر ایسے جوڑ دیا جیسے میں وہاں کی معلومات رکھتی ہوں ۔

جب فلم دی کیرالا اسٹوری زیر بحث آئی، تو ایک ساتھی نے ہما کے ارد گرد رہتے ہوئے فلم کی کہانی کے بارے میں بار بار بات کی، جس میں لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے اور داعش میں شامل ہونے کی داستان دکھائی گئی ہے۔ہمانے محسوس کیا کہ ساتھی انہیں قصداً شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فلم کے بارے میں سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ یہ ایک افسانوی کہانی ہے، اور اس میں دکھائے گئے اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

ہما کا کہنا ہے کہ  کمپنی کا ماحول عمومی طور پر اچھا تھا، لیکن چند افراد کی ”مائیکرو ایگریشنز“ انہیں متاثر کرتی تھیں۔انھوں نے ایچ آر سے شکایت کرنے کی ہمت نہیں کی کیونکہ انہیں خوف تھا کہ ان کی بات نہیں سنی جائے گی یا بات بڑھ جائے  گی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا، اس لیے خاموشی اختیار کی ۔ ہما  نے اس کے باوجود اپنی مجموعی انٹرن شپ کے تجربے کو مثبت کہا لیکن ملک کی نسوں میں زہر بن کر دوڑنے والے اسلاموفوبیا نے انھیں واقعی خوف زدہ کر دیا تھا۔

ہم نے یہ تین خواتین کی سچی کہانیاں شیئر کیں ، انھوں نے کن مشکل حالات کا سامنا کیایہ واقعی فکرمندی کا مقام ہے۔ ہندوستان اپنی مشترکہ تہذیب کو ترک کر کے کس طرف جا رہا ہے یہ بھی سوچنے کا مقام ہے ۔ برادرانِ وطن سے التماس ہے کہ وہ تعصب  اور زہریلی سیاست کے خونی پنجوں سے باہر نکل کر ہندوستانی تاریخ و ثقافت کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کریں تاکہ جو کچھ انھیں مفاد پرست سیاست داں دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے پس پردہ کی حقیقت تک پہنچ سکیں اور ہندوستانی سماج کو اس کی پرانی ڈگر پر  واپس لا سکیں۔◘◘◘

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved