قرآنی آیات کی روشنی میں
مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
تیسری دلیل: انسان کا وجود اس کے بعث پردلیل ہے، ارشاد باری ہے:
اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰىۙ۰۰۳۷ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰىۙ0038 فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰىؕ003۹ اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يُّحْيِۧ الْمَوْتٰى۰۰۴۰[سورۂ قیامہ: 37-40]
انسان بہائی جانے والی منی کا ایک قطرہ تھا، پھر خون کا لوتھڑا بنا، اللہ نے اس کے لیے اعضا بناۓاور ان کو موزوں کیا، اسی قطرۂ آب سے مرد وعورت بنائے، جس نے یہ کچھ بنایا کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ بلاشبہ قادر ہے اور سب کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ١ؕ وَ نُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْ١ۚ وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا۔ [سورۂ حج : 5]
اے لوگو! اگر تمھیں بعث کے بارے میں شک ہو تو اس بات پر غور کرو کہ ہم نے تم کو پہلے مٹی سے بنایا، پھر نطفے سے، پھر بستہ خون سے، پھر تمام اور ناتمام پارۂ گوشت سے بنایا؛ تاکہ تم پر ہم اپنی قدرت ظاہر کردیں،اور جسے چاہیں ایک مقررہ مدت تک رحم میں رکھتے ہیں، پھر تمھیں بچہ بناکر نکالتے ہیں، پھر تمھیں زندگی دیتے ہیں؛ تاکہ جوانی کو پہنچو، تم میں بعض جوانی سے پہلے چلے جاتے ہیں اور بعض ایسی عمر کو پہنچ جاتے ہیں کہ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے۔
ان آیات مبارکہ کے مطابق ایک انسان شروع میں نطفہ ہوتا ہے، پھر نطفے سے بستہ خون ، بستہ خون سے پارۂ گوشت، پارۂ گوشت سے مکمل انسان بنتا ہے، پھر جب پیدا ہوتا ہے تو پہلے بچہ ہوتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے، پھر بوڑھا ہوتا ہے، بعد از اں ایسے بڑھاپے میں پہنچ جاتا ہے جہاں پہنچنے کے بعد کوئی بھی بات یاد نہیں رہتی، جو رب ایک انسان کو پیدائش سے پہلے اور بعد میں اتنے مراحل سے گزار سکتا ہے وہ رب اس بات پر بھی قادر ہے کہ چند بوسیدہ ہڈیوں میں مغز پیدا کردے، پھر ان پرگوشت چڑھاۓ اور اس میں رطوبت پیدا کرے، پھر اس پر پوست چڑھاۓ اور اس میں تروتازگی پیدا کرےاور اس میں روح پھونک کر دوبارہ زندہ کردے، جو انسان اپنی اصل تخلیق اور اس پر گزرنے والے مختلف مراحل پر غور کرلے اسے اس بات پر کامل یقین ہوجاۓ گا کہ بعث حق ہے، ثابت ہےاور اللہ بعث پر قادر ہے۔
چوتھی دلیل: انسان کی پہلی تخلیق ا س کی دوسری تخلیق پر دلیل ہے، کیوں کہ کوئی بھی کام پہلی دفعہ کرنا مشکل ہوتا ہے، جب کہ دوسری دفعہ کرنا نسبتاًآسان ہوتا ہے، اسی طرح کسی بھی چیز کو پہلی دفعہ بنانا مشکل ہوتا ہےاوراگر وہی چیز بگڑ جاۓ تو اس کی مرمت نسبتاً آسان ہوتی ہے، اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو پہلی دفعہ کوئی کام کرلے وہ دوسری دفعہ بھی کرسکتا ہے، کیوں کہ اس نے مشکل سے مشکل ترین کام کرلیا تو آسان سے آسان تر کام کیوں نہیں کرسکتا؟ انھیں تجربات کی روشنی میں اللہ جل شانہ کا یہ ارشاد ملاحظہ فرمائیں:
وَ هُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَ هُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ١ؕ وَ لَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۰۰۲۷
[سورۂ روم:27]
وہی مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ بناۓ گا اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے، آسمان وزمین میں اس کی شان بہت بلند ہےاور وہی غالب اور حکمت والا ہے۔
یعنی جو بغیر کسی نمونے اور مادے کے تمھیں پہلی بار بناسکتا ہے وہ تمھاری بوسیدہ ہڈیوں کو اور ضائع شدہ اجزا کو اکٹھا کرکے دوبارہ کیوں نہیں بناسکتا، تمھارے تجربات کی روشنی میں یہ اعادہ اور بعث ،اول تخلیق کے مقابلے میں نسبتاً آسان ہونا چاہیے، جب تم اصل وجود اور اول تخلیق پر اعتراض نہیں کرتے تو بعث بعد الموت پر بھی مت کرو، کیوں کہ بعث بھی پہلی تخلیق کی طرح ہے؛ لہذا جیسے اپنی موجودہ زندگی پر یقین کرتے ہو ویسے ہی اگلی زندگی پر کرو۔
پانچویں دلیل: آسمان وزمین کی تخلیق بعث بعد الموت پر روشن دلیل ہے، کیوں کہ آسمان بہت بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مضبوط ومستحکم ہے ، اسی طرح زمین بھی بہت بڑی ہےاور کافی وسیع ہے،ان کے بالمقابل انسان بہت ہی چھوٹا اور معمولی ہے،ارشاد باری ہے:
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰۵۷ [سورۂ غافر:57]
بے شک آسمان وزمین کی تخلیق لوگوں کی تخلیق سے بہت زیادہ بڑی ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
جب اللہ اتنے اتنے بڑے آسمان و زمین کی تخلیق پر قادر ہے تو کیا پانچ چھ قدم کے انسان کو دوبارہ بنانےپر قادر نہیں؟ یقیناً قادرہے، بلاشبہ قادر ہے، قرآن مجید میں اس مضمون کی آیات متعدد مقامات پر وارد ہوئیں ہیں، مثلاً سورۂ اسرا میں ہے:
اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَ جَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيْهِ١ؕ فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا۰۰۹۹ [سورۂ اسراء: 99]
اسی طرح سورۂ یس میں ہے:
اَوَ لَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ١ؐؕ بَلٰى ١ۗ وَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ۰۰۸۱ [سورۂ یس: 81]
یعنی جس رب نے آسمان وزمین بناۓ، کیا وہ انھیں دوبارہ بنانے پر قادر نہیں؟ کیوں نہیں، بلاشبہ قادر ہے، وہی خلاق اکبر ہے اور وہی ہر شے کا جاننے والا ہے۔
واضح رہے کہ قرآن،عربی اسلوب میں نازل ہوا اور بندوں کے لیے نازل ہوا، اسی لیے بہت سے مضامین بندوں کے فکرومزاج اور ان کے نجی تجربات کی روشنی میں بیان کیے گئے، مثلاً فرمایاکہ ہم نے تم سے زیادہ طاقت ور قوموں کو ہلاک کردیا ، جب ان کو ہلاک کرسکتے ہیں تو تمھیں کیوں نہیں ہلاک کرسکتے؟ فرمایا: ہم نے تم سے بڑی مخلوق آسمان وزمین کو بنایا ، جب ان کو بنادیا تو تم کو دوبارہ کیوں نہیں بناسکتے؟ ہم نے تمھیں پہلی دفعہ بنایا حالانکہ پہلی تخلیق مشکل ہوتی ہے تو تمھیں دوبارہ کیوں نہیں بناسکتے جب کہ دوبارہ بنانا آسان ہوتاہے؟
اس قسم کی آیات میں بندوں کے اعتبار سے کسی کو بڑا اور کسی کو چھوٹا، کسی کو آسان اور کسی کو مشکل، کسی کو طاقت ور اور کسی کو کمزور قرار دیا گیا ہے، ورنہ اس خلاق اکبر کے آگے کیا بڑا کیا چھوٹا، کیا آسان کیا مشکل، کیا ضعیف کیا کمزور، سب ایک جیسے اور ایک حکم کن کے محتاج ہیں، اس کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کا حال یہ ہے کہ :
اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَ يَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍۙ001۹ وَّ مَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِيْزٍ۰۰۲۰[سورۂ فاطر: 16-17]
اگر چاہے تو ابھی تمھیں فنا کردے اور تمھاری جگہ دوسروں کو پیدا کردےاور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔
چھٹی دلیل: بعث پر ایک خوب صورت دلیل ویران زمین کی شادابی ہے،عموماً ایام قحط میں اور کبھی موسم گرما میں زمین خشک ہوجاتی ہے، ہر کھیت بے گیاہ، ہر شاخ بےثمر، ہر باغ بے رونق، ہر زمین بنجر اور ہر سمت مایوسی نظر آتی ہے، لوگ دو بوند کو ترس جاتے ہیں، انسان دعا کرتے ہیں، چوپاۓ فریاد کرتے ہیں، پرندےمناجات کرتے ہیں کہ مولیٰ چند قطرے برسادے ، بالآخر رحمت الٰہی کو جوش آہی جاتا ہے، ہوائیں چلتی ہیں، بادل گرجتے ہیں، بجلیاں چمکتی ہیں، گھٹائیں چھاجاتی ہیں،اور دیکھتے ہی دیکھتےموسلا دھار بارش برسنے لگتی ہے، سوکھی زمینیں سیراب ہوجاتی ہیں، خشک زمین سر سبز وشاداب ہوجاتی ہے، ہر زمین لالہ زار، ہر شاخ ثمر بار اور ہر درخت بار آور ہوجاتا ہےاور اپنی زبان حال سے یہی پیغام دیتا ہے کہ جس نے خشک زمین کو سبزہ زار بنایا، جس نے اجڑے دیار کو رشک گلستاں بنایا وہ ایک دن ضرور مردوں کو زندہ کرے گااور ان سے محاسبہ فرماۓگا، فرمایا:
وَ اللّٰهُ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ۰۰۹
[سورۂ فاطر :9]
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:فَانْظُرْ اِلٰۤى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَيْفَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰى١ۚ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۵۰۔[سورۂ روم: 50]
اسی کے مثل ایک دوسری آیت میں ہے:
وَ مِنْ اٰيٰتِهٖۤ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ١ؕ اِنَّ الَّذِيْۤ اَحْيَاهَا لَمُحْيِ الْمَوْتٰى ١ؕ اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۳۹ [سورہ ٔ فصلت: 39]
مزید وضاحت کے دوسری آیت میں فرمایا:
وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيْجٍ۰۰۵ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّهٗ يُحْيِ الْمَوْتٰى وَ اَنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌۙ۰۰۶ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ۰۰۷[سورہ ٔ حج: 5-7]
ان تمام آیات کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ وہی ہے جو ہوائیں چلاتا ہے، بادلوں کو یکجا فرماتا ہےاور انھیں بنجر زمینوں میں اور خشک علاقوں میں پہنچاتا ہے، پھر وہ بادل برستے ہیں تو زمین لہلہا اٹھتی ہےاور ہر قسم کے خوش نما پودے اگاتی ہے، جس رب نے دانوں سے سبزے اگاۓاور خشک زمین کو گلزار بنایا، وہ ایک دن قبروں سے مردوں کو اٹھاۓگااور انھیں آخرت میں ایسی ہی زندگی عطا فرماۓگا جیسے اس نے دنیا میں بنجر زمینوں کو اور سوکھے پتوں کو نئی زندگی عطا فرمائی۔
ساتویں دلیل: کفار کہا کرتے تھے کہ بوسید ہ ہڈیوں میں مغز کہاں سے آۓگا؟ گوشت، پوست میں ترو تازگی کیسے بحال ہوگی؟ رگوں میں خون کیوں کر گردش کرے گا؟ اللہ فرماتا ہے:
قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِيْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيْمُۙ۰۰۷۹ ا۟لَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَاۤ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ۰۰۸۰ [سورہ ٔ یس:79-80]
یعنی کفار کہتے ہیں کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ کون زندہ کرے گا؟ فرمادو،جس نے پہلی دفعہ پیدا کیا وہی دوبارہ بناۓ گا، اسے ہر مخلوق کا علم ہے، وہی دوبارہ پیدا کرےگا جس نے ہرے بھرے درخت سے آگ نکالی،جس سےتم سلگاتے ہو۔
عرب میں دو درخت پاۓجاتےتھے، ایک کا نام مرخ تھا اور دوسرےکا عفار، یہ دونوں درخت اس قدر تر ہوتےتھےکہ ان کی ٹہنیوں کو توڑتے ہی پانی ٹپکنے لگتا تھا، اس کے باوجود ان دونوں درختوں کی خصوصیت یہ تھی کہ اگر ان میں سے ایک کی تر شاخ لے کر دوسرے کی تر شاخ پہ رگڑ لگائی جاۓ تو ان سے آگ نکلتی تھی اور اس آگ سے ضرورتیں پوری کی جاتی تھیں۔اللہ فرماتا ہے کہ جو رب ہرے بھرے درخت کی تر شاخوں سے آگ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے، جو رب ہری شاخوں سے آگ نکالنے پر قادر ہے وہ مردہ رگوں میں گرم لہو دوڑانے پر بھی قادر ہے، جو رب ہری شاخوں سے آگ نکالنے پر قادر ہے وہ بوسیدہ ہڈیوں میں زندگی کی حرارتیں بحال کرنے پر بھی قادر ہے
آٹھویں دلیل: کسی بھی کام کے دشوار گزار، مستبعد یا محال ہونے کی متعدد وجو ہات ہوسکتی ہیں، ان میں ایک اہم وجہ تھکاوٹ ہے، جو ایک بار کام کرکے تھک جاۓ وہ دو بارہ کام کرنے کی ہمت نہیں کرپاتا، اللہ منکرین بعث سے فرماتا ہے کیا تم اس زعم فاسد میں ہو کہ ہم آسمان و زمین بناکر تھک گئے اور آگے سلسلۂ تخلیق موقوف کردیں گے، نہیں،ہرگز نہیں، اس لیے کہ تھکاوٹ اور عدم استطاعت ہمارے شایان شان نہیں، فرمایا:
اَفَعَيِيْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ١ؕ بَلْ هُمْ فِيْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ۰۰۱۵ [سورۂ ق :1۵]
کیا ہم پہلی دفعہ بناکر تھک گئے کہ دوبارہ نہیں بنائیں گے، بلکہ یہ لوگ بعث اور تخلیق جدید کے بارے میں تردد کا شکار ہیں۔
معاندین پر نکیر قائم کرتے ہوئے فرمایا:
اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يُّحْيِۧ الْمَوْتٰى ١ؕ بَلٰۤى اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۳۳ [سورۂ احقاف : 33]
کیا انھیں نہیں معلوم کہ جس نے آسمان وزمین بناۓ اور ان کے بنانے میں اسے تکان نہیں ہوئی وہ دوبارہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ جب اللہ کے لیے تھکاوٹ یا سستی نہیں تو وہ جب چاہےمردوں کو زندہ کرسکتاہے ۔
نویں دلیل: اللہ رب العزت نے ہر انسا ن کو آزاد پیدا کیا، اسے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار دیااور اسے اپنے مال و جائداد میں ہر طرح تصرف کرنے کی اجازت دی، لیکن بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس آزادی کی نعمت سے محظوظ ہوتے ہیں، کیوں کہ اس پر اسرار دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو دوسروں کے حقوق پامال کرتے ہیں،دھوکہ دیتے ہیں، غبن کرتے ہیں، ظلم وستم کے بازار گرم کرتے ہیں، فتنے کھڑے کرتے ہیں، فساد مچاتے ہیں، قتل وغارت گری پر اتر آتے ہیں۔
ظلم وتشدد کا نشانہ بننے والے افراد اپنے حقوق کی باز یابی کے لیے کوشش کرتے ہیں، حکمرانوں سے فریاد کرتے ہیں ، لیکن کوئی فریاد رسی کرنے والا نہیں ہوتا، تو محض یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ کبھی تو انصاف ملے گا، کبھی تو وہ دن بھی آٗئے گا کہ ظلم پرور اور جرائم پیشہ افراد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
اللہ رب العزت کی یہ شان نہیں کہ اس کے بندوں پر مظالم ڈھائے جائیں اور وہ ان کی فریاد رسی نہ کرے، وہی سب کی دعا سنتا ہے، وہی ظالموں کو سزا دے گا، وہی مظلوموں کو انصاف دلائے گا، وہی اپنے بندوں کے مابین فیصلہ فرمائے گااور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا،انھیں کاموں کے لیے بعث ہوگا: فرمایا:
فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِؕ۰۰۷ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ۰۰۸ [سورۂ والتین : 7-8]
کون سی چیز ہے جو تمھیں جزا کے انکار پر مجبور کر رہی ہے، کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟
بلاشبہ سب سے بڑا حاکم اور سب کے ساتھ انصاف کا فیصلہ کرنے والا اللہ ہی ہے، وہی اس بات پر قادر ہے کہ سب کو یکجا کرے، سب سے محاسبہ کرے، سب کے ساتھ انصاف کرےاور سب کو بدلہ دے۔ اسے اس کے ارادے سے کوئی پھیرنے والا نہیں، اس کے فیصلوں پر کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں۔ اس نے انصاف اور محاسبے کے لیے ایک دن مقرر کر رکھا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے وہ دن آئے گا اور سب اس کے حضور حاضر کیے جائیں گے، اورع اپنے اچھے برے اعمال کے مطابق سزا وجزا کے حق دار ہوں گے۔
ان تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ جو رب ہر شےپر قادر ہے وہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے، جو رب آسمان وزمین کی تخلیق پر قادر ہے وہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے، جو رب انسان کو پہلی دفعہ بنانے پر قادر ہے وہ حساب وکتاب کے لیے اپنے بندوں کو دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے۔
اگر بعث نہ ہو تو نہ ظالموں کو سزا ملے گی، اور نہ مظلوموں کو انصاف ملے گا، نہ کسی نیکوکار کو ثواب ملے گا، نہ کسی بد کار پر عتاب ہوگا، بلکہ تخلیق انسان کا کوئی مقصدہی نہیں رہ جائے گا، اوراللہ کے لیے لغو و عبث لازم آئے گا، یہ تمام چیزیں اللہ کے لیے ناممکن اورمحال ہیں، لہٰذا بعث ہوگا،سب کا ہوگااور ضرور ہوگا۔(جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org