مبارک حسین مصباحی
انتہائی مسرت و شادمانی کا موقع ہے کہ امسال یکم جمادی الاخریٰ 1446ھ /3دسمبر 2024 کو جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی بانی جامعہ اشرفیہ کا گولڈن جبلی عرس ہے ، یہ پچاس برس بحسن و خوبی پایۂ تکمیل کو پہنچے ۔ حضور حافظ ملت قدس سرہ کی تدفین سے قبل آپ کے لخت جگر جانشین حافظ ملت عزیز ملت حضرت علامہ شاہ عبد الحفیظ عزیزی کو جامعہ اشرفیہ کا سربراہِ اعلیٰ منتخب کر دیا گیا تھا۔ آپ ہی کی امامت میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی ، ایصال ثواب کے بعد آپ قدس سرہ کو زیر زمین دفن کر دیا گیا۔ حاضرین کا تاثر ہے کہ مبارک پور کی سر زمین پر وہ ایک یادگار منظر تھا۔
حضور عزیز ملت کا خاندانی پس منظر:
حضرت عزیز ملت کی ولادت با سعادت آبائی وطن قصبہ بھوجپور ضلع مراد آباد میں ایک علمی و روحانی گھرانے میں 2 جمادی الاولی 1363ھ /1944ء، بروز بدھ کو ہوئی۔ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے سر پر دست کرم رکھا اور عبد الحفیظ نام عنایت فرمایا:
حضرت عزیز ملت کا خاندان علم و حکمت اور روحانیت کا سر چشمہ اور شروع ہی سے دین اسلام کی خدمت و آبیاری میں مشہور زمانہ رہا۔ شرافت ، دیانت داری ، خود داری، پاک بازی، مہمان نوازی اور علم دوستی میں دور دور تک شہرت یافتہ رہا۔
آپ کی والدہ محترمہ نیک دین دار اور دردمند تھیں، بلند اخلاقی، پابند نماز ،یہاں تک کہ تہجد بھی پابندی سے ادا کرتی تھیں۔ آپ کے عم مکرم حافظ عبدالرشید اور مولانا حافظ حکیم عبد الغفور علیہما الرحمہ نہایت اچھے حافظ قرآن تھے ، تقوی شعار، انتہائی متقی و پرہیز گارتھے، آپ کے جد امجد عارف باللہ استاذ الحفاظ حضرت حافظ غلام محمدنور علیہ الرحمہ بھی اپنے زمانے کے ولی صفت کامل بزرگ تھے۔ علاقہ بھر کے اکثر و بیشتر حفاظ اساتذہ آپ ہی کے خرمن فیض کے خوشہ چیں تھے۔
ابتدائی تربیت:
آپ کی پرورش آپ کے والدین کریمین کے زیر سایہ ہوئی ۔ظاہر ہے جب ماں دین دار ہوگی تو اپنی گود میں پلنے والے بچے کو بھی دین دار دیکھنا چاہے گی ۔ آپ کا ابتدائی زمانہ ایک ایسے پاکیزہ ماحول میں گزرا جہاں قال اللہ وقال الرسول کے جاں فزا کلمات آویزۂ گوش بنتے ۔ گھر میں اہل اللہ کی آمد آمد کے اس روحانی ماحول نے آپ کے ذہن وفکر میں علم کا نہ صرف یہ کہ ذوق سلیم بخشا تھا بلکہ اس کی تحصیل کا وافر جذ بہ بھی پیدا کر دیا تھا۔
آپ کے بچپن کا زمانہ زیادہ تر مبارکپور میں گزرا اور یہیں نشو و نما ہوئی۔ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے آپ کو رسم بسم اللہ ادا کرائی ۔
تحصیل علم :
پرائمری کے بعد فارسی شروع کی اور فارسی کی مشہور کتابیں گلستاں ، بوستاں، وغیرہ حضرت مولانا شمس الحق علیہ الرحمہ سے پڑھیں ۔ موصوف فارسی کے ما ہر ، بلند اخلاق تھے ، آپ کی مجلس میں آدمی بیگا نہ پن محسوس نہیں کرتا تھا ۔ آپ نے فارسی کتابوں کے ساتھ عربی گرامر کی ابتدائی کتاب میزان الصرف بھی شروع کر دی تھی ، اس طرح عربی تعلیم کا سلسلہ بھی چل پڑا ۔
مبارک پورایم پی اسکول سے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد شبلی ہائی اسکول اعظم گڑھ میں نویں جماعت(1959ء) میں داخلہ لیا ۔ بارہویں جماعت(1963ء) تک شبلی انٹر کالج اعظم گڑھ میں قیام رہا ، اتوار کی چھٹی اور دیگر چھٹیوں میں مبارک پور تشریف لاتے ہر چھٹی میں حافظ ملت علیہ الرحمہ درس نظامی کی کتابیں بالالتزام صبح و شام پڑھاتے تھے۔ مبارک پور و اعظم گڑھ کے قیام میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے جلالین، مشکوٰۃ شریف تک تعلیم دی ۔ انٹر میڈیٹ شبلی انٹر کالج سے پاس کیا۔
انجینئرنگ اور درس نظامی:
اعظم گڑھ کے بعد آپ کا رجحان مسلم یونیورسٹی علی گڑھ جانے کا ہوا۔ وہاں ضابطہ کی کارروائی مکمل کی، مگر ایک سال عمر کم ہونے کی وجہ سے داخلہ نہ ہو سکاتو 1964 میں ایک سال کے لیے مراد آباد ہندو کالج میں داخلہ لے لیا ۔ اس دوران قیام مراد آباد شہر میں بھی رہتا اور وطن میں بھی ۔ دوسرے سال علی گڑھ کے لیے کوشش کی اور بی ایس سی میں داخلہ لیا۔ اس دوران آپ کا قیام ایم .ایم. ہال کے سیفی ہاسٹل میں رہا۔ بی .ایس سی.(B.Sc.) فائنل کرنے کے بعد شعبۂ انجینئرنگ میں داخلہ لیا اور انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی ۔ علی گڑھ پانچ سال رہ کر 70-1969ء میں سیشن ختم ہونے پر مکان واپس ہوئے۔
حضرت عزیز ملت 1974ء میں اشرفیہ تشریف لائے، درس نظامی کی جو کتابیں باقی رہ گئی تھیں ، حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے انفرادی طور پر اور جماعت کے ساتھ مکمل کیا اور حضور حافظ ملت کے چہلم کے موقع پر 1976ء میں فراغت حاصل کی۔ اس وقت آپ کے اساتذہ حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمہ اور حضرت شمس العلما مولانا شمس الدین جون پوری تھے۔
عادات و خصائل :
حضرت عزیز ملت کے عادات و خصائل کا بیان کرنا اتباع سنت اور اطاعت رسول کی جیتی جاگتی تصویر کھینچتا ہے ، اپنے تو اپنے بیگانے بھی یہ تسلیم کیے بغیر بر نہ رہ سکے کہ ” حضرت عزیز ملت سادگی و پاکیزگی اور ورع و تقوی کا سچا نمونہ ہیں“۔ آپ کے مزاج میں بے حد خود داری اور بے نیازی ہے، امراء ورؤسا میں اگر تمکنت کا شائبہ پاتے ہیں ، تو ان سے ملاقات کے وقت استغنا اور بے نیازی کا اظہار فرماتے ہیں لیکن جب عوام سے ملتے ہیں تو بڑی انکساری و بشاشت سے ملتے ہیں۔ بزرگوں سے نیاز مندانہ ، احباب سے نہایت مخلصانہ ، چھوٹوں سے انتہائی مشفقانہ ، طلبہ اور شاگردوں سے بڑے ہی ہمدردانہ طور پر ملتے ہیں ۔ علما و مشائخ، خصوصاً سادات کرام کی بے پایاں عزت و تکریم کرتے ہیں ، اہل علم کے حضور نہایت خندہ روئی سے پیش آتے ہیں۔ اپنی لیاقت اور واقفیتِ علوم خواہ مخواہ کسی پر نہیں جتاتے ، غیر ضروری بحث و تمحیص سے ہمیشہ اجتناب فرماتے ہیں ، سب وشتم کے جواب میں خاموش رہتے ہیں، کبھی مناسب موقع پاتے ہیں تو نہایت مہذب ادبی وعلمی اورنصیحت آمیز لطائف بھی بیان فرماتے ہیں۔
حضرت علامہ عبدالشکور علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیہ آپ کے اخلاق کے متعلق فرماتے ہیں:
سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا آپ کا شیوہ اور طریقہ ہے اس لیے ہر ایک کے ساتھ شیر یں لب ولہجہ میں گفتگو فرماتے ہیں کہ کسی کو تکلیف نہ ہو ، دیکھا گیا ہے کہ بعض وہ لوگ جو اپنے آپ کو دور سمجھتے ہیں اگر آپ کا ان سے بھی سامنا ہو گیا تو ان کے ساتھ بھی اس طرح گفتگو فرماتے ہیں کہ اسے دوری کا اندازہ نہیں ہوتا۔یہ خوبی بھی آپ کی موروثی ہے کہ اپنوں کی طرح غیر سے بھی سلوک رکھتے ہیں۔
وعظ و خطابت:
آپ کی تقریر عام فہم اور آسان ہوتی ہے ، آپ اکثر و بیشتر ملک و بیرون ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں ۔ جس کا مقصد ایک طرف تو دین اسلام کی نشر و اشاعت اور قوم مسلم کی اصلاح و رہنمائی ہوتی ہے ،دوسری طرف الجامعۃ الاشرفیہ کے عروج وارتقا اور اس کا استحکام بھی محل نظر ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ حضور حافظ ملت کے حلقۂ ارادت کی توسیع بھی مد نظر ہوتی ہے۔
آپ کے بیرون ملک کے اسفار ۔ آپ نے امریکہ، ساؤتھ افریقہ ، زمبابوے ، ماریشس لیتھوسو، پاکستان، انگلینڈ اور نیپال کا سفر کیا ہے۔
آپ نے اپنی زندگی میں سیکڑوں کا نفرنسوں میں شرکت کی، آپ کی صدارت میں مسلم پرسنل لا کا نفرنس سیوان میں منعقد ہوئی تھی ، جس میں علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ اور دوسرے بہت سے علما کرام تھے۔
شیخ طریقت، جانشین حضور حافظ ملت، عزیز ملت حضرت علامہ شاہ عبد الحفیظ دامت برکاتہم القدسیہ سربراہ اعلی ’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘ مبارک پور، انڈیا چند دنوں کے لیے انگلینڈ کے تبلیغی دورے پر تشریف لائے۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ قریب سے مجھے حضرت کے شب وروز دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ ان یادگار لمحات سے قلب وجگر پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں تا حیات باقی رہیں گے۔ اور آپ کی شفقتیں، محبتیں بار بار یاد آئیں گی۔
حضرت کی تشریف آوری کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ آپ کی زندگی سے متعلق کچھ ضروری سوالات کر کے جواب حاصل کر لیا جائے تو بہتر ہوگا، میں نے اپنے دل کی بات حضرت کے سامنے رکھی۔
حضرت کی عنایت ہے کہ میرے عریضہ کو قبول فرمایا اور ہمیں اپنے قیمتی کلمات سے نوازا، میں نے دو نشستوں میں یہ تمام سوالات وقفہ وقفہ سے حضرت کے سامنے رکھے اور آپ نے ان سب کا جواب عنایت فرمایا۔ پہلی نشست الحاج شفیق بھائی بولٹن کے دولت خانہ پر تھی، اس وقت ہمارے ساتھ حضرت کے کلمات سننے کے لیے درج ذیل علماے کرام تشریف فرماتھے:
1- حضرت مولانا محمد ارشد مصباحی 2- حضرت مولانا محمد محسن صاحب 3- حضرت مولانا محمد خالد صاحب
4- حضرت مولانا خیر الدین صاحب ۵- حضرت مولانا محمد سلیم صاحب 6- حضرت مولانا محمد شفیع صاحب
7- حضرت مولانا حافظ محمد یونس صاحب بولٹن 8- حضرت مولانا حافظ محمد حنیف صاحب
اور دوسری نشست حضرت مولانا حافظ محمد داؤد صاحب ڈیوزبری کے دولت خانہ پر ہوئی اس وقت وہاں درج ذیل علماے کرام موجود تھے:
1- حضرت مولانا مفتی شمس الہدی مصباحی صاحب
2- حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب
3- حضرت مولانا محمد خالد صاحب
4- مولانا فیض الرحمٰن صاحب
۵- حافظ عبد الرحمٰن صاحب
6- حافظ احمد سعید صاحب
7، 8- برادران حضرت مولانا محمد خالد، جناب حامد وزاہد صاحبان
میں نے اس پوری گفتگو کو حضرت کی اجازت سے ریکارڈ کر لیا تھا۔
ایک عظیم شخصیت:
حضرت عزیز ملت دامت برکاتہم القدسیہ انتہائی جفاکش ، مرد مجاہد، مخلص اور مردم شناس شخصیت سے عبارت ہیں جن کی سادگی میں کافی کشش موجود ہے تکلفات سے بالاتر ایک لمبے عرصہ تک اپنی قیام گاہ سے برابر جامعہ اشرفیہ تک پیدل چل کر آنا ۔ سردی اور گرمی کی شدت میں بھی جامعہ اشرفیہ کے لیے تگ و دو اور جہد مسلسل میں بھی کوئی کسر اٹھانہ رکھنا، اس کی ترقی کی راہ میں شب و روز ایک کر دینا، آپ کا نہایت اہم اور نمایاں کارنامہ ہے۔ آپ حضور حافظ ملت کے سچے جانشین اور نہایت متقی و پرہیز گار ہیں۔ آپ کی صدارت وسر براہی میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور نے بے پناہ ترقیاں کیں۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ دینی خدمات میں عظیم خدمت دینی ادارے کا چلانا ہے۔ حضرت عزیز ملت اس پرفتن دور میں ہندوستان کا سب سے عظیم اور مشہور و معروف دینی ادارہ الجامعۃ الاشرفیہ کو بحسن و خوبی چلا رہے میں جو لمحہ بہ لمحہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بلکہ فی زمانناہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی اشرفیہ کے فارغین دین کی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ، جن کا اعتراف اپنے اور غیر بھی کرتے ہیں ۔ آپ تمام دینی کاموں کے انجام دینے میں مخلص ہیں ، یہی وجہ ہے کہ شب و روز چا ہے آپ مبارک پور میں ہوں یا مبارکپور سے باہر رہیں ،ادارے کا تصور آپ کے دل و دماغ سے دور نہیں ہوتا ہے ۔ ادارے کی خیر خواہی میں کام کرتے رہتے ہیں، لیکن آج تک نہ کوئی تنخواہ آپ کو دی جاتی ہے نہ آپ نےکبھی اس کا مطالبہ کیا اور نہ کسی طرح خواہش ظاہر کی ، اسی قوت اخلاص کی بنا پر ادارہ کے چلانے میں آپ کو سہولت حاصل ہے۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org