مبارک حسین ماصباحی
اس وقت ہمارے پیش نظر مفکر ملت حضرت مولانا محمد ادریس بستوی کامجموعۂ مضا مین ”فکرو دانش“ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی اور فکری صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا ہے ۔ آپ کی شخصیت بیک وقت مختلف اوصاف و کمالات کی مرقعِ جمیل ہے۔ آپ دور اندیش سیاست داں ، انتظامی امور پرنگاہ رکھنے والے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے نائب ناظم ، فکرودانش کی الجھی گتھیوں کو سلجھانے والے دانش ور، سنجیدہ اور فکری تقریر کرنے والے مقبول خطیب ، سیمیناروں اور ورک شاپوں میں نپے تلے جملوں میں نتیجہ خیز باتیں پیش کرنے والے ہوش مند اسپیکر، اخبارات و رسائل میں مختصر اور جامع مضامین لکھنے والے قلم کار، ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر موثر گفتگو کرنے والے حساس مقرر۔
بفضلہٖ تعالیٰ آپ کی عمر تو آٹھ دہائی سے آگے بڑھ چکی ہے مگر آج بھی مشکل ترین مسائل کو حل کرنے میں جوانوں کی طرح متحرک و فعال نظر آتے ہیں۔ دل کی بات دل میں اتارنے کا فن خوب جانتے ہیں ۔ آپ وسیع مطالعہ اور گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔کبھی بھی کسی موضوع پر گفتگو کیجیے، لگتا ہے حضرت آج اسی موضوع پر تیاری کر کے بیٹھے ہیں ۔ بعض اوقات آپ کی گفتگو میں طنز و مزاح کی دل کشی بھی ہوتی ہے کڑوی سے کڑوی بات اتنے دل نشیں انداز میں فرما دیتے ہیں کہ بس، جس کو فرماتے ہیں وہ شدت سے محسوس بھی کر لیتا ہے اور دیگر حضرات کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی علمی لطائف و ظرائف بھی سناتے ہیں مگر اس سنجیدگی سے کہ محفل پر مسرت کی روح دوڑ جاتی ہے اور پوری مجلس خوشیوں کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ آپ جب جامعہ اشرفیہ مبار ک پور تشریف لاتے ہیں تو خادم مبارک حسن مصباحی کو ضرور یاد فرمالیتے ہیں، یا تو آپ خود کال فرمالیتے ہیں یا اپنے کسی محب سے فرمادیتے ہیں، کبھی کبھی وقت کم ہوتا ہے جیسے نماز مغرب سے قبل تومیں عرض کر دیتا ہوں کہ ان شاء اللہ نماز کے بعد حاضر ہوتا ہوں، کیونکہ آپ کی مجلس دس پانچ منٹ کی ہوتی نہیں بلکہ آپ کی نشست میں طویل وقت درکار ہوتا ہے، ہم بھی آپ کی بارگاہ میں وقت نکال کر حاضر ہوتے ہیں۔ بڑے خوشگوار ماحول میں شرف نیاز حاصل کرتے ہیں ۔ سلام کے بعد باہم خیریتیں دریافت کی جاتی ہیں اور بڑی محبت اور نوازش کے ساتھ بٹھاتے ہیں۔ عام طور پر فرماتے ہیں: مولانا اب طبیعت ٹھیک ہے، اب ان شاء اللہ تعالیٰ دو چار دن رہوں گا۔ اور پھر جس موضوع پر بھی گفتگو ہوتی ہے سیر حاصل ہوتی ہے ۔ کبھی کبھی کوئی موضوع زیر غور ہوتا ہے اس موضوع کو چھیڑ دیتا ہوں ،بس چھیڑنے کی دیر ہوتی ہے، آپ جواب کے تمام گوشوں پر بھرپور ارشاد فرمانے لگتے ہیں ۔کبھی کبھی آپ سے عرض کرتا ہوں کہ حضرت اس موضوع پر آپ کچھ لکھ دیجیے، آپ فرماتے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ کل آپ کے حوالے کر دوں گا اور ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔پیشِ نظر مجموعۂ مضامین میں بیشتر مضامین ایسے ہی ہیں ۔جنھیں ہماری گزارش پر سپرد قلم فرمایا ہے۔ مضمون دیتے وقت فرما دیتے ہیں؛ ہم نے اپنے حساب سے لکھ دیا ہے آپ گھٹا بڑھا لیجئے گا۔ کبھی کبھی مضمون پڑھ کر ہم کچھ عرض کرتے ہیں تو فرماتے ہیں ٹھیک ہے آپ اس کو اس طرح کر لیجیے۔
اس مجموعۂ مضامین میں دین و سیاست اور ملک و ملت کے مسائل پر فکر انگیز اور معلومات افزا تحریریں ہیں۔ ان میں سول کوڈ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی منصفانہ نظر ہے۔ ان میں صیہونیت، سامراجیت اور ان کی دہشت گردیوں پر بھی تحریریں ہیں، اسلام اور مسلمانوں پر ہندوتو کے مظالم کو بے نقاب کیا گیا ہے، مساجد خانقاہوں اور مدارس پر بھی دشمنوں کی بد نیتی کا تجزیاتی مطالعہ ہے، اکابر اہل سنت کی فکری اور سیاسی بصیرتوں پر بھی قلم خوب چلا ہے، نکاح ،طلاق وغیرہ مسائل پر بھی ہندو توکی کذب بیانیوں کی خوب قلعی کھولی ہے۔ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی متنازعہ زمین پر بھی آپ نے حق و انصاف کی باتیں سپردِ قلم کی ہیں۔ ہندوستان کی آزادی میں علماے اہلِ سنت کی قربانیاں بھی رقم فرمائی ہیں ۔ انقلاب 1857ء کے 9 برس بعد دار العلوم دیوبند کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ،اب آپ غور فرمائیں کہ علماےدیوبند کا انقلاب 1857ء میں حصہ کیسے رہا ہوگا ؟آپ نے سنسکرت پاٹھ شالاؤں کے حقائق بھی دقتِ نظر سے بیان کیے ہیں، آپ نے دینی مدارس کے مقابلے میں سنسکرت پاٹھ شالاؤں پر حکومت کی نظر کرم پر بھی بڑے سلیقے سے روشنی ڈالی ہے۔ آپ کی تحریریں مدلل اور فکر و بصیرت سے لبریز ہوتی ہیں، کوئی دعویٰ بلا دلیل نہیں ہوتا ۔آپ سیاسی اور صحافتی بصیرت بھی رکھتے ہیں اس لیے سرکاری احکامات کے مخفی گوشوں پر بھی نگاہ رکھتے ہیں ۔آپ اپنی تحریروں میں یہ سراغ رسانی کرتے جاتے ہیں کہ اس آرڈر کا اسٹیپ بائی اسٹیپ نتیجہ کیا ہوگا ؟لہجے میں سنجیدگی اور توازن ہوتا ہے، اس لیے مخالف بھڑکے بغیر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آپ نے جہاد اور دہشت گردی کے فرق کو بھی مثالوں کے ذریعے دماغوں میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ مدارس اور خانقاہوں پر ہونے والے حکومتوں کے رویوں کو بھی بڑے دل پزیر لب و لہجے میں پیش کیا ہے۔ آپ نے عوام و خواص کی اصلاح کا فریضہ بھی بڑے تدبر اور بلند اخلاقی سے انجام دیا ہے، ہر پل یہ نقطہ نظر ملحوظ خاطر رہتا ہے:” انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو“ تاریخ و سیر پر بھی آپ کا مطالعہ وسیع اور نتیجہ خیز ہے۔
آپ کی تنقید نگاری بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے، آپ کی تنقید کا کمال یہ ہے کہ جس پر نقد و نظر کے تیر برساتے ہیں اس کی لاش تو تڑپتی ہے مگر آپ کی تنقیدیں حقائق پر مبنی ہوتی ہیں اس لیے تنقید کے محورو فرد کو راہِ فرار نظر نہیں آتی اور وہ خاموشی ہی میں عافیت تصور کرتا ہے ۔ ہم بروقت آپ کی تنقید نگاری کی دو ایک مثالیں پیش کرتے ہیں۔ 10 اکتوبر 2004 عیسوی میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سامنے ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں ایک مقرر نے تقریر کی۔ ہم ذیل میں حضرت مولانا محمد ادریس بستوی کی تنقید کی تلخیص پیش کرتے ہیں۔
اس تقریر میں خلیفہ دوم صحابی رسول سیدنا فاروق اعظم کو (معاذ اللہ ) ایمان لانے کے چھ سال بعد بھی کافروں کی صف میں شمار کرایا گیا ہے۔ اور اسی کیسٹ میں جنگ بدر کا ذکر کرتے ہوئے روایات اور احادیث کے بالکل خلاف صحابہ کو جنگ بدر سے پہلے کھجور کی ٹہنیاں دینے کی بات کرتے ہوئے سب سے پہلے جناب خالد کا نام لیا گیا ہے جو کہ اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے انھیں مجاہد ین بدر کی صف میں شامل کر کے حقائق کی دھجیاں بکھیرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے۔ ع :چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
ایک زمانے سے دنیا کے مختلف ملکوں میں کچھ لوگ سیدنا فاروق اعظم کے خلاف دشنام طرازی اور تبرا بازی کرتے رہے ہیں مگر ان کو بھی یہ جرأت نہیں ہوئی تھی کہ سیدنا فاروق اعظم کو کافروں کی صف میں کھڑا کرتے۔ یہ کام پہلی بار اس مقرر اور ان کے ہم نواؤں نے کیا ہے ۔ تقریر کے کچھ حصے ذیل میں درج کر کے مفتیان کرام سے استفتا کرتا ہوں کہ ایسے شخص کے بارے میں نیز اس کے ہمنواؤں اور حمایت کنندگان کے بارے میں، اس کی مذکورہ تقریر کا اہتمام کرنے والوں کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ انھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا:
”حضرات جب اسلام مکہ سے چلا تو پوری دنیاے کفر نے مل کر اپنی پہلی پارلیمنٹ دارالندوہ کے نام سے قائم کی اور اس وقت جوایم، پی بنکر آئے ابوجہل کے خاندان سے اور ابولہب کے خاندان تک ہرفرد تھے“۔
ہر فرد کے عموم پرغور ہے اس میں ابو لہب کے خاندان کے ہر فرد کو دارالندوہ میں لا کر کھڑا کردیا جبکہ اسی خاندان کے کچھ لوگ پہلے ہی ایمان لا چکے تھے۔
قارئین کرام ! تاریخ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ سیدنا فاروق اعظم نے واقعہ ہجرت سے کم از کم چھ سال پہلے ہی شرک ترک کر کے توحید کا پرچم اٹھالیا تھا۔ اور اسلام قبول کر کے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں شمولیت اختیار کر لی تھی ان کی وجہ سے اسلام کو زبردست تقویت حاصل ہوئی۔ احادیث نبویہ میں ان کے فضائل بھی خوب خوب بیان ہوئے ہیں اب انھیں شب ہجرت کے موقع پر کافروں کے ساتھ کھڑا کر کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا تصور بنانے والوں کا پیشوا بنا کر پیش کرنا انتہائی سنگین جرم ہے صحابیت کے مرتبہ سے سرفراز ہوجانے کے بعد انھیں رسول کے قاتل کی حیثیت سے پیش کرنا قتل سے بھی زیادہ بھیانک جرم ہے۔
”سرکار نے کھجور کی ٹہنیاں کاٹنا شروع کیا اور اپنے جانثاروں کو عطا کرنا شروع کیا خالدؔ یہ تیری تلوارہے، طلحہؔ یہ تیری تلوار ہے ، زبیرؔ یہ تیری تلوار ہے، عمروؔ یہ تیری تلوار ہے، سعدؔ یہ تیری تلوار ہے ابو بکرؔ یہ تیری تلوار ہے، اے عمرؔ یہ تیری تلوار ہے۔“
مقرر نے خالدؔ، طلحہؔ، زبیرؔ، عمروؔ، سعدؔ، ابوبکر ؔاور عمر ؔکا نام لے کر ان سب کو پیغمبر کے دست مبارک سے کھجور کی ٹہنی دینے کی بات کہی ہے جو بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔
اس نے پہلا نام حضرت خالد کا لیا ہے جب کہ جنگ بدر کے واقع ہونے تک حضرت خالد اسلام لائے ہی نہیں تھے، پھر انھیں کھجور کی ٹہنی دے کر میدان بدر میں لے جانے کا کیا سوال ؟ حضرت خالد جنگ بدر اور اس کے بعد ہونے والی جنگ بدر کے بعد ایمان لائے ہیں جنگ احد میں کفار مکہ کی طرف سے لڑنے کے لیے آئے تھے ۔ بطورسند یہ حوالہ ملاحظہ فرما لیں:
آپ نے سیرت ابن ہشام ص:۲۷ کا حوالہ نوٹ فرمایا ہے یہ تاریخی سچائی تاریخ و سیر اور احادیث کی کتب میں موجود ہے۔
”اسلامی ضابطۂ نکاح و طلاق“ آپ کا ایک تفصیلی مضمون ہے یہ فکر انگیز اور معلومات افزا تحریر بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے مختصر تحریر ”یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے“ میں بڑی معلومات کا خزانہ ہے ”طلاق“ کے تعلق سے آپ نے جو معلومات پیش کی ہے ہماری معلومات میں تاریخی اور سیاسی اعتبار سے زبردست اضافہ ہوا ہم ذیل میں چند اقتباسات کی تلخیص پیش کرتے ہیں۔
طلاق بھی انسانی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت ہے۔ عام حالات میں طلاق دنیا ناپسندیدہ عمل ہے لیکن بسا اوقات طلاق دنیا ضروری بھی ہو جاتا ہے۔ میں دنیا کے تمام غیرت مندوں سے پوچھتا ہوں اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو ناگفتہ بہ حالت میں دیکھ لے یا دوسرے کے بازوؤں میں کسی کی عورت مچلتی ہوئی نظر آئے تو اس کی غیرت کیا اسے طلاق دینے پر برا نگیختہ نہیں کرے گی؟ اس کے علاوہ بہت سارے مواقع اور موڑ ایسے آتے ہیں جب شوہر طلاق دینے پر مجبور ہو جاتا ہے ،اور اگر طلاق دینے کی اجازت ان خراب حالات میں نہ دی جائے تو شوہر یا بیوی کسی ایک کی موت یقینی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ہی موت کے گھاٹ اتر جائیں ،جیسا کہ آئے دن اخباروں میں خبر چھپتی رہتی ہے ۔اس کو اور وضاحت سے سمجھنے کی لیے ہندستان کی پہلی پارلیمنٹ جب چنی گئی تو اس کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو منتخب ہوئے۔ پنڈت جی ہندستان کے پہلے وزیر اعظم، عظیم دانشور، تحریکِ غیر جانب دار کے عالمی رہنما ،دنیا کے حالات پر ان کی نظر اور تاریخ عالم پر ان کی نگاہ ،انہوں نے پہلی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہندستانیوں کے دستور زندگی میں طلاق کا کوئی قانون نہیں ہے ،لیکن اب دنیا کے حالات بہت بدل چکے ہیں ہندستان کی آبادی بہت بڑی ہے ہندو مذہب کے ماننے والے لاکھوں جوڑوں (میاں بیوی) میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے شوہر اور بیوی میں علاحدگی ہونا ضروری ہے اس لیے اسلام سے قانون طلاق مانگ کر ہندوؤں کے لیے ہندو کوڈ بل پارلیمنٹ سے پاس کرایا جاتا ہے تاکہ ضرورت کے وقت ہندو مذہب کے ماننے والے میاں اور بیوی ایک دوسرے سے اس قانون کی روشنی میں الگ ہو جائیں۔ غور طلب بات ہے کہ 1954ء کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں جس قانون طلاق کو ہندستان کے وزیر اعظم نے مسلمانوں سے مانگ کر ہندوؤں کے لیے نافذ کیا تھا آج اسی قانون طلاق کی کچھ خود ساختہ دانشور مذمت کر رہے ہیں ،اس سے بڑھ کر حیرت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟اب طلاق کا قانون دنیا کی ہر قوم میں رائج ہے پھر طلاق کے تعلق سے صرف مسلمانوں کو کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے ؟سب سے زیادہ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ فیصد کے اعتبار سے دنیا کی ہر قوم میں مسلمانوں سے زیادہ طلاق واقع ہوتی ہے ۔سروے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہر چھٹویں عورت طلاق یافتہ ہے ،یعنی سولہ فیصد سے زیادہ طلاق امریکہ میں دی گئی ۔جب کہ ہندستانی مسلمانوں میں اس کا فیصدنصف یعنی سو میں آدھا اور دو سو میں ایک ہے ۔میں پورے دعوے سے کہتا ہوں کہ دنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے مقابل مسلمانوں میں طلاق کی تعداد کم نہیں بلکہ بہت ہی کم ہے ،یہ تو میڈیا کے پروپیگنڈہ کا کمال ہے کہ مسلمانوں کا ایک طلاق دینے والے قوم کی حیثیت سے عالمی پیمانہ پر متعارف کرایا جا رہا ہے اور دوسری قوموں کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
اب آپ غور کریں کہ طلاق کی مختلف قسمیں ہیں، ان کی تفصیلات فقہی کتابوں میں ہیں۔ طلاق کے تعلق سے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے جب کہ سچ اور حق یہ ہے کہ مسلمانوں میں دیگر مذاہب کے مقابل سب سے کم طلاق دی جاتی ہے، جیسا کہ ابھی آپ نے صاحبِ کتاب کی تحریر میں پڑھا کہ امریکہ جیسے ملک میں ہر چھٹی عورت طلاق یافتہ ہے جب کہ مسلمانوں میں اس وقت کے سروے کے مطابق نصف فیصد اور دو سو میں سے ایک خاتون طلاق یافتہ ہے۔ یہی حال دیگر مذاہب کے افراد کا بھی ہے ، حالاں کہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ دنیا بھر میں طلاق کے حوالے سے مسلمانوں کو بد نام کرتے ہیں ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”اَبۡغَضَ الۡحَلَالِ اِلَی اللہ تعَالیٰ الطَّلَاقُ.“ یعنی حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے۔ (ابو داؤد ج:2، ص:370)
یہ توہم نے بر وقت ایک حدیث نقل کی ہے، اسلام میں طلاق کی قباحتوں پر کثیر مباحث ہیں اسی طرح جو عورتیں بلا ضرورت اپنے شوہروں سے خلع کراتی ہیں ان کے حوالے سے بھی سخت وعیدیں ہیں، نکاح محض لذت کے حصول کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا ایک مقصد نسل انسانی کا فروغ رہنا چاہیے ، رزق کی ذمے داری اللہ تعالیٰ نے لے لی ہے ، انسان کا کام رزق حلال کی کوشش اور بارگاہِ الٰہی میں دعا ہونا چاہیے۔
حاصل گفتگو یہ کہ مفکر ملت نائب ناظم جامعہ اشرفیہ مبارک پور بلند فکر اور وسیع النظر شخصیت کے مالک ہیں، دین و دانش کے بہت سے گوشوں پر باریک نگاہ رکھتے ہیں۔ معاملات کی الجھنوں میں آپ کو ملوث کرنا آسان نہیں، آپ کورٹ کچہری کے وکلا سے بھی گہرے مراسم رکھتے ہیں۔ نام نہاد مسلمانوں سے بھی آپ نے بڑے بڑے مقدمات میں فتح حاصل کی ہے ، بعض اپنوں نے بھی آپ کے خلاف مقدمات قائم کرائے ، مگر آپ عقل و نقل کے شواہد اور فکری ہنر مندیوں سے محفوظ رہے اور مخالفین پر ہی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔
آپ ایک متوازن اور فکر رسا خطیب ہیں ، بعض باتوں کی بنیاد پر آپ کی گرفتاری ہوئی اور مقدمات جاری ہوئے مگر آپ حق و انصاف پر تھے ، اپنے دلائل و شواہد سے بے لاگ چھوٹے اور شر انگیز مخالفین کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
یہ مجموعۂ فکر و دانش آپ کے فکر و قلم کا انمول خزانہ ہے ، جن جہتوں اور گوشوں پر آپ نے بر وقت قلم اٹھایا ہے قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیاہے ۔ مسلمانوں کے ماضی حال اور مستقبل کو بڑے ڈھنگ سے آئینہ دکھایا ہے ۔ آپ نے عالمِ اسلام پر سامراجیت اور صیہونیت کی چالبازیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ آپ نے بعض مسلم ممالک کے حکمرانوں کی جہالتوں اور عیاشیوں کو بھی نوکِ قلم سے بے پردہ کیا ہے۔
عزیز القدر مولانا سرور علی مصباحی منہداول سلّمہ ربّہ نے ان مضامین کو بڑی محنت اور محبت سے جمع کیا ہے ۔ آپ اس دوران مسلسل رابطے میں رہے ، ہم اپنی وسعت بھر خدمت کرتے رہے ۔ اس سے قبل حضرت مفکر ملت کے قسط وار مضامین کا مجموعہ ”تاریخ ہند کے گمشدہ اوراق“ مرتب کیے تھے ، یہ کتاب منظر عام پر آچکی ہے ، اب یہ وقیع مضامین آپ کے ہاتھوں میں ہیں۔ ان دونوں کے تعلق سے ہم مفکر ملت دامت برکاتہم العالیہ سے مسلسل گذارش کرتے رہے مگر ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔
برادرم مولانا سرور علی مصباحی سلّمہٗ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے با شعور اور محنتی درجۂ فضیلت کے طالب علم ہیں۔ درسی صلاحیتیں تو ماشاء اللہ تعالیٰ ہیں ہی مگر تحریر و قلم کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ مفہوم و معنیٰ کی پرکھ رکھتے ہیں اور جملوں کے استعمال پر بھی بھر پور نگاہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ امسال جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی بانی جامعہ اشرفیہ مبار پور کے گولڈن جبلی پچاسویں عرس کے زریں موقع پر آپ کی دستار فضیلت ہونے والی ہے ، یہ مسرت و شادمانی کا موقع ہے ہم انھیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں مولا تعالیٰ تو اپنے فضل و کرم سے آپ کو فاضلِ جلیل اور عالمِ با عمل بنا اور ان کی خدمات سے دین و سنیت کی روشنی جہاں در جہاں عام فرما۔
ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں مولا تو اپنے فضل و کرم سے ان تحریروں کو با فیض بنا اور مختلف زبانوں میں ان کی اشاعت کا غیب سے انتظام فرما، ہم دل کی گہرائیوں سے آرزو مند ہیں مولا تعالیٰ تو حضرت مصنف مفکر ملت مولانا محمد ادریس بستوی دامت برکاتہم العالیہ کو عمر خضر عطا فرما، آمین، بجاہ سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔◘
از : احقر مبارک حسین مصباحی عفی عنہ
خادم التدریس والصحافۃ، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
16 ربیع الثانی 1446ھ/ 20 اتوبر 2024ء
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org