مہتاب پیامی
اسلام روس کے مذہبی ورثے کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ اس کے ساتھ اس کی تہذیب کی تعامل کا آغاز نویں صدی عیسوی میں ہوا اور یہ مختلف شکلوں میں آج تک جاری ہے۔ ہم یہاں انیسویں صدی کا ذکر کریں گے۔
اس مضمون میں ہم نے انیسویں صدی کے روسی ادب کا انتخاب کیا ہے سطورذیل میں قرآن کے روسی زبان میں ترجموں سے لے کر چند ممتاز روسی شاعروں اور ادیبوں کی تحریروں پر اسلامی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
۱۸ ویں صدی میں روس عرب ثقافتی تعلقات:
روسی ادب کے پروفیسر عین شمس یونیورسٹی کے سابق ڈین ڈاکٹر مکرم الغمری کی کتاب ”روسی ادب میں عربی اور اسلامی اثرات“ کے مطابق 18ویں صدی میں روس عرب ثقافت کے باہمی تعلقات کافی گہرے تھے، یہ تعلقات روس کے عظیم ترین حکمران پیٹر I (پیٹر دی گریٹ) کے زیر سایہ پروان چڑھے، جو 1682 سے 1725 تک روس کے حکمراں تھے۔ انہیں روسی تاریخ کے سب سے کامیاب حکمرانوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
پیٹر I کی سرپرستی میں، عربی زبان و ادب کی پرنٹنگ کے لیے پہلا پریس اینٹیوخ کینٹمر (1708-1744) نے قائم کیا، اینٹیوخ کینٹمر اپنے وقت کے سب سے مشہور مفکر اور سفارت کار مانے جاتے تھے۔ اس دور میں، روس کے ثقافتی حلقوں میں قرآن کے روسی زبان میں ترجمے کا آغاز ہوا، جس سے روسی ثقافت پر براہ راست اثرات مرتب ہونے لگے۔
ڈاکٹر مکرم الغمری نے وضاحت کی کہ قرآن کا پہلا ترجمہ روسی زبان میں 1716 میں سیزر پیٹر I کے دور حکومت میں شائع ہوا تھا۔ یہ ترجمہ دراصل فرانسیسی مستشرق ”دی یوری“کے 1674 میں فرانسیسی زبان میں کیے گئے ترجمہ کی بنیاد پر تھا۔
اس تناظر میں روسی ادب کی مصری پروفیسر ڈاکٹر دینا محمد عبدہ، نے مصری پبلشنگ ہاؤس کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ادبی ناول ”دی ناول“ میں ایک تحقیقی مقالے میں لکھا کہ اس ترجمے کے بعد قرآن کے کئی دیگر ترجمے بھی کیے گئے۔ ان ترجموں کے ذریعے ہی روس کے شہزادہ الیگزینڈر پوشکنؔ نے قرآن پر اظہار خیال کیا۔
اس پہلے ترجمے کے بعد مزید کئی ترجمے کیے گئے، جن میں 1972 میں الیکسی کولماکوف، 1864 میں نکولایوف، اور 1877 میں سابلوکوف کا ترجمہ شامل ہے۔ ان سب کے بعد روسی محقق کرشکوفسکی کا ترجمہ آیا، جو عربی سے براہ راست روسی زبان میں قرآن کا پہلا سائنسی ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔
اپنی کتاب " Notes in the Eastern Western Synthesis of Pushkin Poetry" میں سوویت نقاد برانگنسکی نے نوٹ کیا کہ قرآن دسمبر تحریک (1825) سے پہلے کے دور میں ہیروانہ خیالات، بہادری اور خود کو شکست دینے کی جدوجہد کا ایک ذریعہ بن چکا تھا۔
کتاب کے دوسرے حصے میں، جس میں ان کی تحریریں اور تقاریر شامل ہیں،ادیب و نقاد چادائیف نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت قومی تحریک کے عقل مند طبقے کے لیے ایک مثالی نمونہ بن گئی۔ انھوں نے حضرت محمد ﷺ کی عظمت کو بھی بیان کیا، جو نئی دعوت کا پرچم لے کر آئے، اور وضاحت کی کہ مشرق میں ”مذہبی جوش“کے ابھرنے کا سہرا انھی کے سر ہے۔
مذکورہ کتاب " Notes in the Eastern Western Synthesis of Pushkin Poetry" میں روسی شعرا کی اسلام اور قرآن سے عقیدت کے بارے میں " A Holy Verse of the Qur'an ... A Manuscript in Gold" کے عنوان سے بھی ایک باب موجود ہے۔
گوردیکفؔ کے مطابق قرآن کی آیات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت انقلابی اور اخلاقی اقدار کی حامل تھیں جنہوں نے 19ویں صدی کے روسی شاعروں کو متاثر کیا۔
وکٹر بوکاڈیف نے اپنی تحقیق ” روس میں اسلام اور روسی اسلام“ (2012) میں ذکر کیا کہ پہلے روسی ادیب جنہوں نے اسلام کے بارے میں تحسینی کلمات کہے، شاعر جاوریلاؔ دیرژاوین (1743-1816) تھے، جن کا بچپن روس کے مسلم اکثریتی شہر قازان میں گزرا تھا۔ اگرچہ وہ اسلام کی گہری سمجھ بوجھ کا اظہار کرنے والے اولین افراد میں سے ایک تھے، لیکن سب سے زیادہ شہرت روس کے شہزادہ شاعر الیگزینڈر پوشکن کو ملی۔وہ روس کے نمائندہ شاعر مانے جاتے ہیں، اپنی حیات میں وہ قرآنی تعلیمات اور سیرتِ رسولِ اکرم ﷺ سے بے حد متاثر تھے۔
روسی ادب کا نقطۂ آغاز-الیگزینڈر پوشکن:
”تمام موجودہ ادیبوں کی کہکشاں پوشکن کی رہنمائی پر کام کرتی ہے، ان کے بعد ادب میں کچھ نیا نہیں ہوا۔ ادب کا آغاز انھی کے ساتھ ہوا، انھوں نے ہمیں راستہ دکھایا، اور ہم نے اس سے کم ہی کیا جو انھوں نے ہمیں سکھایا۔“
ڈاکٹر مکرم الغمری کا بھی یہی خیال ہے، وہ بھی یہی کہتے ہیں ، الیگزینڈر پوشکن روسی ادب کا چمک دار سورج اور اس کا نقطہ آغاز ہیں۔
پوشکن کے مشرق اور اسلام کے زیر اثر آنے کی کئی وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اس دور میں باحیات تھے جب روس میں مستشرقیت کا عروج تھا، انھں نے قرآن کو میخائیل ویریوفکن کے 1790 میں کیے گئے ترجمے کا مطالعہ کیا اور اس سے متاثر ہوئے۔ ایک دوسری وجہ اور بھی تھی اور وہ تھا ان کا نسبی تعلق جو کسی نہ کسی طرح ترکی کے ایک خاندان سے جا ملتاتھا، اس تعلق نے انھیں مشرق میں مزید گہرائی سے غوطہ لگانے کی تحریک دی۔
پوشکنؔ کے دادا ابراہیم ہانیبال کا تعلق ترکی سے تھا، وہ یتیم تھے اور غلام بنا کر بیچ دیے گئے تھے۔ چنانچہ ایک روسی سفیر نے انھیں خریدا اور زار روس پیٹر I کی خدمت میں پیش کیا، زار روس نے ابراہیم کو طبقۂ اشرافیہ کی روایت کے تحت اپنایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، پیٹر اول کا اعتماد ابراہیم ہانیبال گہرا ہوتا چلا گیا، ابراہیم کو کئی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں ۔ بالآخر اسے فوجی تربیت کے لیے فرانس بھیجا گیا ، جب وہ فرانس سے فوجی تربیت حاصل کر کے روس واپس آیا تو ابراہیم کو روسی فوج میں جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی ، اس نے اپنی جرأت و ہمت، بہادری اور حکمتِ عملی سے زار روس کی فوج کو کافی فائدہ پہنچایا جس کے عوض اسے ایسے ایسے تمغوں سے نوازا گیا جو پہلے کبھی کسی روسی شخص کو نہیں دیے گئے تھے۔ماہر بشریات انوچٹین نے 1990 کی دہائی میں پوشکنؔ کے نسب کو متعدد حوالوں سے ثابت کیا ہے۔
ڈاکٹر مکرم الغمری کے مطابق پوشکن ایک بار ” اودیسا“ میں کافی عرصہ مقیم رہے، جہاں ان کے تعلقات ایک مصری ملاح ”علی“ سے استوار ہو گئے ، یہ 1823 کی بات ہے، اور پوشکن نے اپنی تحریروں میں اس دور کو اپنی زندگی کا عہدِ زریں قرار دیا ہے۔” علی “ سے ان کو اس قدر محبت تھی کہ اکثر وہ کہتے؛کون جانتا ہے، شاید میرا دادا ابراہیمؔ علی کے دادا کا کسی طرح کوئی قریبی رشتہ دار رہا ہو۔علیؔ کی قربت نے بھی اسے اسلامی تعلیمات کی طرف بحسن و خوبی مائل کیا۔
پوشکن ؔنے روسی اور بین الاقوامی لائبریری کی پہلی اور دوسری کتابیں شائع کیں، جن کے عنوانات بالترتیب(Simulating the Qur'an) ”قرآن کی تقلید“ اور(The Prophet) ”نبی“ تھے۔ Simulating the Qur'an نامی کتاب 1824 میں لکھی گئی تھی اور " The Prophet " 1826 میں لکھی گئی۔
" The Prophet" نظم میں نبی اکرم ﷺ کو دعوت دین کی شروعات میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ نظم پوشکنؔ کے اپنے خود انقلابی احساسات سے ہم آہنگ ہے، جس میں غار حرا میں پیش آنے والے واقعے اور لیلۃ القدر کی شاعرانہ اور رومانوی انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ کیا۔
جب پوشکنؔ نے ہمارے نبی محمد ﷺ کے بارے میں لکھا تو انھوں نے ان کے عظیم اخلاقی پیغامات کو روس تک پہنچانے کا ذریعہ سمجھا۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کی عسکری قیادت کے اوصاف میں ایک ایسی خاصیت دیکھی جو ان کے دادا ابراہیم ہانیبال کی حیات سے مطابقت رکھتی تھی، ان کے دادا ابراہیمؔ یتیم ہونے کے باوجود روسی زار کی فوج کے ایک عظیم ترین فوجی کمانڈر بننے کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور بالآخر اس میں کامیاب ہوئے۔
” Simulating the Qur'an “کے عنوان والی نظم پر کافی بحثیں بھی ہوئیں ، خاص طور پر نظم کے عنوان کے ترجمے کے حوالے سے۔ ایک انٹرویو میں روسی ادب کے پروفیسر، ڈاکٹر محمد جبالی نے پوشکنؔ کی نظم کے عنوان کے ترجمے پر یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ درست ترجمہ ”قرآن کی تقلید“ہے، نہ کہ صرف ”قرآن“۔ڈاکٹر مکرم الغمری کا کہنا ہے کہ اپنی کتاب ”روسی ادب میں عربی اور اسلامی اثرات“ میں انھوں نے پوشکن کی نظم کا عنوان ”قرآن کی بوسے“ کے طور پر استعمال کیا، جب کہ تصدیق کی کہ لفظی ترجمہ”قرآن کی تقلید“ ہی ہے ۔
یہ مجموعہ نو نظموں پر مشتمل ہے، پوشکن نے نظموں کے لیے عنوانات کا اہتمام نہیں کیا ہے بلکہ صرف نمبرنگ پر انحصار کیا۔ الغمری نے نشاندہی کی ہے کہ اشعار براہ راست قرآن سے متاثر ہیں، جیسا کہ ڈاکٹر ممدوح ابو لوی نے اپنی تحقیق ” influences of Arabic literature in Pushkin literature “ میں ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر، پوشکن نے پانچویں نظم میں سورہ لقمان، چھٹی نظم میں سورہ الفتح، اور نویں نظم میں سورہ البقرہ کے مضامین نظم کیے ہیں۔
اس مجموعہ کی دوسری نظم میں عورت کی پاک دامنی اور قرآن میں خواتین کی تقدیس کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں حجاب اور اس کے آداب کا ذکر سورہ احزاب کی روشنی میں کیا گیا ہےاور پہلے زمانے کی جاہلیت سے بچنے کا مشورہ دیا گیا۔پروفیسر الغمریؔ کا خیال ہے کہ یہ اس کے اشرافیہ طبقے کی چمک دمک سے انکار اور اسلامی ماڈل کی طرف مائل ہونے کا مظہر تھا۔
دستوئیفسکی نے اس نظم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا : ”کیا ہم اسے(پوشکن کو) ایک مسلم مصنف کے طور پر نہیں دیکھتے؟ کیا ہم قرآن کی حقیقی روح، تلوار، عظمت، طاقت اور مضبوط ایمان کو نہیں پہچانتے؟“
پوشکن کی موت ایک ڈوئل کے دوران ہوئی۔
مخائل لیرمنٹوف کا اسلام سے رشتۂ محبت:
مخائل لیرمنٹوف، جو پوشکنؔ کے جانشین تھے، ان کا بھی اسلام سے محبت کا رشتہ تھا۔
مخائل لیرمنٹوف کو الیگزینڈر پوشکنؔ کے بعد دوسرا عظیم روسی شاعر سمجھا جاتا ہے۔ نقادوں کے مطابق وہ روسی شاعری میں پوشکن کے جانشین سمجھے جاتے ہیں۔ روسی ادب کے پروفیسر محمد الجبلی نے ذکر کیا کہ لیرمنٹوف اس لیے اسلام سے متاثر تھے، کہ قفقاز کی مسلم آبادی سے ان کا گہرا تعلق تھا۔لیرمنٹوف کئی بار علاج کے سلسلے میں قفقاز گئے۔
پروفیسر الغمری کہتے ہیں کہ لیرمنٹوفؔ کا اسلام کے ساتھ ایک روحانی تعلق تھا، وہ یہودی ہوتے ہوئے بھی اسلام سے اس قدر متاثر تھے کہ اپنے دوست کرائیوسکی کے نام لکھے گئے خطوط میں مکہ، نبی کریم ﷺ کے گھر اور اسلام کے گہوارے مدینہ منورہ کا سفر کرنے کی خواہش کا بار بار اظہار کیا۔لانھوں نے اسلام اور قرآن سے متاثر ہو کر کئی نظمیں کہیں، جن میں ان کی مشہور زمانہ نظم ”تین کھجوریں“ (Three palms)بھی شامل ہے، جس میں ناقدین کو پوشکن کی نظم Simulating the Qur'an کی جھلک نظر آتی ہے۔
پروفیسر دینا محمد عبدہ نے نشاندہی کی ہے کہ لیرمنٹوفؔ کی متعدد نظموں مثلاً Valerik, The Apostle, Iblis, Turkish Gifts وغیرہ میں اسلامی اثرات جھلکتے ہیں۔ الغمری کہتے ہیں کہ Turkish Gifts میں احترامِ قرآن کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکت ہے۔
لیرمنٹوفؔ کی نظموں اور ان کے گرد موجود سماجی حالات کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ پوشکنؔ کی طرح، انھوں نے بھی اسلام اور مشرق کی ان اخلاقی اقدار کو نظم کیا جو آفاقیت کی علامت تھیں۔ انھیں اسلام میں ایسا خالص روحانی حسن ملا ، جس نے انھیں حقیقت پسندی پر مبنی ایسا ادب تخلیق کرنے میں مدد کی جو ان کے معاشرے کے حالات سے ہم آہنگ تھا۔
لیرمنٹوف کا انجام بھی ان کے استاد کی طرح ہوا؛ وہ بھی ایک ڈوئل میں مارے گئے، اس وقت ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔
لیو ٹالسٹائی- نبی اکرم ﷺ کے حضور ایک انسانی وجود:
لیو ٹالسٹائی کو ”انسانی وجود“ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کی تحریروں میں ایسی خاص روحانی کشش ہے جو ہر پڑھنے والے کے دل کو کھینچ لیتی ہے، چاہے اس کا مذہب یا فکری رجحان کچھ بھی ہو۔ انہیں عربی زبان میں گہری دلچسپی تھی اور اپنے ابتدائی دور میں وہ عربی اور ترکی زبان کے مطالعہ میں مصروف رہا کرتے تھے۔ انہوں نے " Tale of the Moon of Time" اور دیگر کتابیں لکھیں۔ پروفیسر دینا محمد عبدہ کہتے ہیں کہ ٹالسٹائی کا عربی ادب سے تعلق 1882 سے شروع ہوا، جب انہوں نے اپنے تعلیمی میگزین Ya Sanya Baliana کی ضمنی اشاعت میں کچھ عربی عوامی کہانیاں شائع کیں۔
ٹالسٹائی نے مشرق کو ایک ایسی جگہ کے طور پر دیکھا اور محسوس کیا جہاں اخلاقی قدریں آسمانی تعلقات کے ساتھ موجود تھیں، اور وہ اخلاقی قدریں ان کے اپنے معاشرے میں مفقود تھیں۔ انھوں نے اس اخلاقی بحران کا بچشم خودمشاہدی کیا تھا جس کا سامنا اس وقت کا روس کر رہا تھا۔ ٹالسٹائی کی تحریروں سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہےکہ وہ اس زمانے میں وہ بدھ مت، حضرت محمد ﷺ رسالت اور عیسائیت کا مطالعہ کر رہے تھے، اور ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے کوشاں تھے۔
پروفیسر الغمری کے مطابق ٹالسٹائی کو نبی کریم ﷺ کی احادیث میں اپنے ان خیالات کی بازگشت سنائی دی، جن پر وہ ایمان رکھتے تھے اور جن کی وہ دعوت دیتے تھے۔ ان احادیث کا انھوں نے روسی زبان میں ترجمہ کیا، نظر ثانی کی، اور انہیں اپنے قارئین کے لیے پیش کیا۔ ٹالسٹائی نے ذکر کیا کہ احادیث کا یہ مجموعہ عبداللہ السہروردی کی کتاب کے انگریزی ترجمہ سے ماخوذ ہے۔
اپنی کتاب ”روسی ادب میں عربی اور اسلامی اثرات“ میں پروفیسر الغمری یہ ثابت کرتے ہیں کہ ٹالسٹائی نے عبادات کے طریقوں کے بارے میں بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور صرف ان احادیث کو پیش کیا جو اسلام کی اخلاقی فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں، جن میں انصاف، محنت، معافی، اور پاک دامنی شامل ہیں۔
”روسی ادب پر اسلامی اثرات “ بہر کافی تفصیل طلب عنوان ہے ، ہم نے درج بالا سطور میں چند شعرا اور مصنفین اور ان کی ادبی خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کیا ، اس وجہ یہ ہے کہ ہمارا واسطہ کبھی روسی زبان اور اس کے ادب سے رہا ہی نہیں، ہم خالص اردو کے بندے ہیں، یہ چند باتیں جو ہم نے درج کیں یہ مختلف انگریزوں ویب سائٹوں کے مختصر مضامین کا نچوڑ ہیں جنھیں ہم نے اپنے الفاظ میں قارئین کے حوالے کر دیا۔اس عنوان پر ہمارے ان قلم کاروں کو لکھنے کی ضرورت ہے جو روسی زبان سے واقف ہوں اور اسلامی ادب پر ان کی گہری نگاہ ہو۔◘◘◘◘◘◘
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org