21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Nov 2024 Download:Click Here Views: 9087 Downloads: 393

(12)-ہندوستان میں اسلامی ثقافت اور ورثے کا تحفظ

بزمِ دانش میں آپ ہر ماہ بدلتے حالات اور ابھرتے مسائل پر فکر و بصیرت سے لبریز نگارشات پڑھ رہے ہیں۔ ہم اربابِ قلم اور علماے اسلام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ دیے گئے موضوعات پر اپنی گراں قدر اور جامع تحریریں ارسال فرمائیں۔ غیر معیاری اور تاخیر سے موصول ہونے والی تحریروں کی اشاعت سے ہم قبل از وقت معذرت خواہ ہیں۔    از :مبارک حسین مصباحی

* دسمبر 2024 کا عنوان— لفظ امی کی توضیح و تشریح

*جنوری 2025 کا عنوان— جدید دنیا میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ اور اس کے چیلنجز

اسلامی ثقافت کا تحفظ سہ جہاتی فرمولا پر مبنی

مدارس ، اسکول اور قانونی پینل

مولانا عابد چشتی

 

ہندوستان کی معلوم تاریخ کا مطالعہ اس بات کی دستاویزی شہادت دیتا ہے کہ یہ ملک ہمیشہ متنوع تہذیب ، ثقافتوں، رنگا رنگ افکار و نظریات ، مختلف مذاہب اور عقیدوں کا گہوارہ رہا ہے ،یہاں عہد بہ عہد مختلف حکومتیں اور سلطنتیں تو وجود میں آئیں مگر کوئی حکومت ہندوستان کی تنوع مزاجی پر حاوی ہو کر اس کی تکثیری ثقافت پر اثر انداز نہ ہو سکی اور آج یہی تہذیبی تنوع ہندوستان کی عالمی شناخت کا سب سے معتبر حوالہ بن چکا ہے جو اسے دیگر ممالک کی فہرست میں امتیازی شان عطا کرتا ہے۔یہ پہلو ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے مگر اسی کے ساتھ اب حالات کا تجزیہ اس بات کے بھی واضح اشارے دے رہا ہے کہ ہندوستان کی اس امتیازی شناخت کو حرف غلط کی طرح مٹا کر یہاں کے تہذیبی تنوع کو ختم کرنے کی پوری منظم کوشش کی جا رہی ہے جس میں خاص طور سے اسلامی ثقافت اور مسلم وراثت کج فکروں کے نشانے پر ہے۔

ہر چند کے آزادی سے پہلے ہی شر پسندوں کی آنکھوں میں نہ صرف اسلامی تہذیب کے روحانی مظاہر خود مسلم وجود کی طرح کھٹکتی رہی ہیں،  تاہم حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں جو پیش رفت کی گئی اس کی رفتار مجبوراً  سست رہی یہ اور بات ہے کہ  درپردہ اس فکری زاویے کو مضبوط کیا جاتا رہا۔ مگر جب سے اقتدار کی باگ ڈور موجودہ حکومت کے ہاتھوں میں آئی  ہے بغض و عناد سے بھرے سینے ابل پڑے اور ہر سطح پر مسلمانوں اور ان کی مذہبی شناخت کی تضحیک ہونے لگی ، برقع ، ٹوپی ، داڑھی اور اسلامی ثقافت کے دیگر مظاہر پر نفرت کا برتاؤ کیا جانے لگا اور اب  نہ صرف مسلمانوں کے داخلی مسائل اور ان کی اسلامی تہذیب کے خلاف کھل کر بولا اور لکھا جا رہا ہے بلکہ ان مراکز کو بھی شک کے دائرے میں لانے کی ناپاک سازشیں رچی جا رہی ہیں جہاں سے اسلامی تہذیب کو نئی حیات ملتی ہے۔

دوسری طرف صدیوں سے مسلمانوں کی چلی آ رہی وراثت جو اوقاف کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں موجود ہے جو خالص مسلمانوں کی ملکیت ہے جسے کبھی دین کا در رکھنے والے مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات اور اہل ایمان کی ملی، سماجی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے اپنی ملکیت سے خدا کی ملکیت میں وقف کیا تھا’’ اوقاف ترمیمی بل‘‘  لا کر ان وراثتوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے جس کو لے کر حکومت کی نیت صاف دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ وہ زمینیں جو مسلمانوں کی ہیں اور مسلمانوں ہی کے نام پر وقف کی گئی ہیں ان زمینوں کے استعمال اور عدم استعمال کا معاملہ ہو یا پھر ان اراضی  اور وراثتوں کے نظم و نسق کو لے کر تشکیل پانے والی تنظیموں اور بورڈ کا ، بہر حال ان سب کا اختیار مسلمانوں کا اپنا داخلی معاملہ ہے جس میں حکومت کی در اندازی یا پھر ان اوقات کو لے کر قوانین میں ناقابل قبول ترمیمات کا اختیار کسی جہت سے  حکومت  کو  نہیں ہے خاص طور سے ان وراثتوں کی تنظیمی ڈھانچوں میں کسی غیر مسلم فرد  کی شمولیت کا تو جواز ہی فراہم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بہرحال اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کو جن حالات سے نبر آزما ہونا پڑ رہا ہے وہ اچھے مستقبل کا اشاریہ نہیں دے رہے ہیں، ایک طرف اسلامی نظریات اور ثقافت کو لے کر سازشیں انجام دی جا رہی ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی قدیم وراثتوں سے انہیں دستبردار کرنے کی ناپاک کوشش بھی شروع کر دی گئی ہے ان حالات میں اسلامی ثقافت اور وراثت کے تحفظ کی فکر اور گہری ہو جاتی ہے جس سے نہ صرف ہمارا حال بلکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤں پر لگا ہے اور اگر بروقت مناسب پیش رفت نہ کی گئی تو آنے والی نسلوں میں اسلامی ثقافت کو منتقل کرنا ایک خواب بن کر رہ جائے گا جس کی تعبیر مشکل سے ملے گی۔اس پورے منظر نامے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ  بھی ہے کہ اب بات  اسلامی ثقافت کے تحفظ سے ایک قدم آگے بڑھ کر اسلامی عقائد و نظریات اور مذہبی تشخص کے خطرناک زوال تک آ چکی ہے اور اس وقت جس انداز میں غیروں نے حکومتی سرپرستی میں اپنے ملحدانہ تہذیب کو مسلم نسلوں میں منتقل کرنے کے تانے بانے بنے ہیں اس میں بہت حد تک غیروں کو  کامیابی کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر ان حالات سے آج چشم پوشی کی گئی تو پھر ہم آگے چل کر ایک ایسے اسلام سے متعارف ہوں گے جہاں توحید و شرک آپس میں گلے ملتے نظر آئیں گے اور اگر اس بات کا  یقین نہ ہو تو یونیوسٹیز  اور کالجوں میں پڑھنے والے مسلم بچوں کا رویہ دیکھیے جو عید  بھی مناتے ہیں اور دوسری طرف  ہولی بھی کھیلنے لگے  ہیں ۔ اس سلسلے میں ہمیں سب سے زیادہ تین محاذ پر اپنی توانائی  کا ارتکاز جتنی جلدی ہو سکے کرنا ہوگا:  مدارس،اسکول اور مضبوط قانونی پینل۔

مدارس : شرپسندوں کو  اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اسلامی مدارس اور مکاتب ہی وہ واحد اور آخری ذریعہ ہے جہاں سے اسلامی ثقافت کے نہ صرف تحفظ کا فریضہ انجام  دیا جاتا ہے بلکہ اسلامی تہذیب کے داخلی اور خارجی سطح پر فروغ و استحکام اور اس کی اشاعت و تبلیغ کا مستحکم ذریعہ یہی مدارس ہیں، جو بے سروسامانی کے باوجود اسلامی تہذیب و تمدن اور مذہبی شناخت کی بقا کے چراغوں کو تیل فراہم کر رہے ہیں۔اسلامی ثقافت کی بو قلمونیاں  انہی ٹوٹے پھوٹے مدارس اور ان میں پڑھنے والے ان نونہالوں کی مرہون منت ہے جنہوں نے دنیا کی رنگینیوں سے اپنے دلوں کو کنارہ کش کر لیا اور جس دور میں ہر شخص محض دولت کی فراوانی پر فریفتہ ہو کر ایک پر تعیش زندگی کی تگ و دو میں لگا ہے، یہ طلبہ اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود کہ اس راہ میں مالی مشکلات جزو لا ینفک  کا درجہ رکھتی ہیں، پھر بھی خود کو دین کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور ’’اجرت‘‘ کے بجائے’’ اجر‘‘  کی مضبوط امیدوں کے سہارے وہ اسلامی افکار و نظریات ،مذہبی تہذیب و تمدن اور ملی ثقافت و شناخت کے سورج اگا رہے ہیں۔

یہ بات اب اسلام دشمن عناصر کو پتہ چل چکی ہے اور سالہا سال کی شیطانی تحقیق کے بعد یہ عقدہ ان پر بھی کھل چکا ہے کہ اسلام کے فکری اور اعتقادی نظام سے مسلم معاشرے کو کاٹنے یا ان کے تئیں نرم گوشے پیدا کرنے کے لیے مدارس پر قدغن لگانا ضروری ہے ،جہاں سے اسلامی تہذیب کے علمبرداروں کی جماعتیں مسلم معاشرے کو اسلام سے جوڑے رکھنے میں مضبوط اور واحد رابطہ اور پل کا کام کر رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ پورے ہندوستان میں اسلامی مدارس اور مکاتب کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور قانونی داؤ پیچ کا سہارا لے کر مدارس کو بند کرنے یا ان کے داخلی نظام کو تبدیل کر کے اسکول بنا دینے کا کام پوری ڈھٹائی کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے جس کے لیے ہم آسام حکومت کو بطور مثال پیش کر سکتے ہیں جہاں بیک جنبش قلم سینکڑوں مدارس کی شناخت کو ختم کر کے انہیں اسکول میں ضم کر دیا گیا اور یوں اسلامی علوم و نظریات اور مذہبی تہذیب کے یہ مراکز تعصب عناد کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ گئے۔

اسلامی تہذیب و روایات اور مذہبی اقدار کو جہاں سے آکسیجن فراہم ہوتی ہے وہ مدارس کی پرنور فضائیں ہیں جہاں مسلمانوں کی امداد سے نونہالوں کو دین کے انمول علم سے آراستہ  کر کے قوم کے درمیان دعوت و تبلیغ کے لیے تیار کیا جاتا ہے ۔بلاشبہ آج  مسلم معاشرے میں جو کچھ اسلامی اقدار کی رمق باقی ہے وہ انہی مدارس کی مرہون منت ہے اب اگر اسلامی تہذیب کا تحفظ کرنا ہے تو  اس کے لیے مدارس کا  تحفظ ناگزیر اور فرض ہے جس کے لیے تمام فرقوں کو مدارس کے حق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آ کر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور قانونی پیچیدگیوں سے مدارس کو بچا کر ان کے تحفظ اور مستقبل میں ان کی بنیادی حیثیت کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی ۔اس کے لیے طویل قانونی لڑائی بھی لڑنی ہوگی جس کے ذریعے ہم اس بات کو یقینی بنانے پر زور دیں کہ مسلم بچوں کو ان کے والدین کی مرضی کے مطابق دینی اور مذہبی تعلیم کے حصول کی مکمل آزادی ہو اور اس سلسلے میں ’’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘‘ یعنی ’’ حق تعلیم‘‘  کے نام پر روڑے ڈالنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس پر مدارس کے ارباب حل و عقد کو اپنے داخلی نظام درس میں جزوی ترمیمات کی ایسی راہ نکالنی ہوگی جس سے مدارس کا  بنیادی ڈھانچہ متاثر نہ ہو اور شر پسندوں کو ان شوشوں کے ذریعے مدارس کو نشانہ بنانے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔اس لیے کہ انہیں حق تعلیم کا درد صرف مدارس کے طلبہ کے لیے اٹھتا ہے بقیہ 98 ؍ فیصد مسلم بچے جو سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دلتوں سے بدتر حالات سے گزر رہے ہیں اور تعلیم سے دور دو وقت کی روٹی کے لیے  محنت و مزدوری کی تپش میں اپنا پھول سا بچپن جھلسا رہے ہیں انہیں قوم کے یہ بچے اور قوم کی یہ حالت دکھائی نہیں دیتی۔ اس رویے سے ان کی منصوبوں کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ لہذا اہل مدارس کو خود ہر اعتبار سے منظم ہونا  ہوگا ،مدارس کے معیار پر دھیان دینا ہوگ،ا قانون کی رو سے خامیوں کو دور کر کے علم دین کے اس کارواں کو آگے بڑھانا ہوگا ورنہ خدانخواستہ اگر مدارس پر آنچ آتی  ہےتو پھر اسلامی ثقافت کو گہن میں آنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

اسکول : اس وقت عصری تعلیم گاہوں میں جس طرح بھگوا ذہنیت کو دانستہ فروغ دیا جا رہا ہے اور پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا  نہیں ہے۔ ایک طرف اسکول میں مسلم بچیوں کے حجاب پر اس لیے اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ خاص مذہبی علامت ہے جسے اسکول کی چہار دیواری میں برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ اسکولوں میں آپ کو سیکولر رہنا ہوگا مگر دوسری طرف جب ہندو تہوار آتے ہیں خواہ دیوالی ہو یا  گنیش چترتھی  وغیرہ تو اسکولوں میں کھلے عام مورتی پوجا اور آرتی  کا اہتمام کیا جاتا ہے ، بھجن بجائے جاتے ہیں جبکہ ان اسکولوں میں ہندو بچوں کے ساتھ مسلم بچے بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں ،اس وقت اسکول انتظامیہ کا سیکولرزم اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اسکولوں کی اس روش کی وجہ سے مسلم بچوں کے اندر شرکیہ مراسم کے تئیں سختی کے بجائے نرمی دیکھنے کو مل رہی ہے بلکہ کچھ مسلم مفکرین نے ان اسکولوں کا تجزیاتی مشاہدہ کیا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ اسکولوں کے پروگراموں میں مسلم بچے ’’رام‘‘،’’ سیتا‘‘، ’’ہنومان‘‘  اور دیگر مشرکانہ کرداروں کو خوشی خوشی ادا کرتے ہیں جبکہ حیرت اور سر پیٹ  لینے والی بات یہ ہے کہ اس موقع پر ان بچوں کے والدین بھی سامنے بیٹھ کر اپنے بچوں کے ان کارناموں  پر کانپ جانے اور خود کو  خدا کے حضور مجرم محسوس کرنے کے بجائے تالیاں بجا کر حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں جبکہ  ان والدین میں ان دینداروں کی تعداد بھی ہوتی ہے جو مشرع اور ’’صاحبان حج و عمرہ ‘‘ کہلاتے ہیں۔بچپن سے اس ماحول کی پرورش کا نتیجہ یہ یہ بھی نکل کر سامنے آرہا ہے کہ اب مسلم بچیوں کے اندر غیر مسلموں سے شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا ہے، انہیں اپنی اسلامی شناخت محض ایک سماجی دباؤ معلوم ہونے لگی ہے ،جسے ڈھوتے رہنے میں اب ان کی طبیعت سراپا  احتجاج نظر آ رہی  ہے اور یوں کالجوں ،اسکولوں اور یونیورسٹیز کے مخلوط اور ملحدانہ ماحول اور مسلم مخالف ذہنیت کے منظم منصوبوں سے ارتداد کا ماحول دھیرے دھیرے اسلامی ثقافت کے ساتھ اسلامی نظریات اور مذہبی تشخص کو بھی نگلتا جا رہا ہے۔

اسکولوں کے ذریعے چلائی جانے والی اس مہم کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے خود کے اسکولوں کی بنیاد ڈالیں جہاں ہماری نسلیں غیر شرکیہ ماحول میں عصری تعلیم حاصل کر سکیں اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نظر نہیں آتا ۔  دعوت اسلامی نے اس سلسلے میں جو پیش رفت کی ہے اور عصری اسکول کھولنے کا سنہری سلسلہ شروع کیا ہے وہ ہم سب کے لیے لائق تقلید ہے جس کے لیے پوری ملت ان کی مرہون منت رہے گی۔ اگر یہ اقدام اور بڑے پیمانے پر کیا جائے یا پھر مسلمانوں کا سرمایہ دار طبقہ نام و نمود کے بجائے دین اور ملت کی طرف توجہ کرے تو دعوت اسلامی اور ان جیسی  دیگر تنظیموں کے تحت ہر قصبہ اور علاقے میں اپنا ایک اسکول قائم کر کے ہم دین و مذہب کے تحفظ کا فریضہ انعام دے سکتے ہیں اور اپنی قوم کو اسلامی ماحول میں عصری علوم سے وابستہ کر کے انہیں دیگر اقوام کی دوڑ میں شانہ بشانہ کھڑا کر سکتے ہیں۔مگر لمحۂ  فکریہ ہے کہ اس طرف نہ ہمارے سرمایہ دار طبقے کو توجہ ہے نہ پیران حرم ہی اپنے حلقوں میں کوئی مہم چلاتے ہیں اور نہ عوامی قائدین کچھ اقدام کرنے کو تیار ہیں، سب زبانی افسوس میں لگے ہیں۔

قانونی پینل :8 سو سالہ مسلم حکومت اس ہندوستان کی تاریخ کا انمٹ باب ہے جسے صرف نصاب میں تبدیلیوں سے محو نہیں کیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ ہندوستان کے طول و عرض  میں موجود پر شکوہ  وراثتیں مسلم دور حکومت کی گواہ اور اس سنہرے دور کی یادگار ہیں جب ہندوستان میں اسلامی عدل انصاف کی بہاروں سے یہاں کا ہر طبقہ بہرہ ور  ہو رہا تھا ۔یہاں کی قدیم درگاہیں، مساجد، عیدگاہیں اور تاریخی عمارتیں ہمیشہ ہمیں اپنے سنہرے ماضی سے جوڑے رکھتی ہیں اور فخر کا احساس دلاتی ہیں مگر اب ان وراثتوں پر تعصب زدہ ذہنیت کی نگاہیں اٹھنے لگی ہیں اور وقف ترمیمی بل کے ذریعے ان وراثتوں میں سیندھ لگانے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے۔پچھلے 60 /70 سالوں کے درمیان ان وراثتوں کو محفوظ تصور کیا جا رہا تھا مگر اب ان کے تحفظ کا بھی مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے اور اگر وقف ترمیمی بل پاس ہوتا ہے تو پھر ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ہی اپنی وراثتوں کا شیش محل زمین دوز ہوتے دیکھیں گے ۔سر دست  اس سلسلے میں جو   اقدام کیا جا سکتا ہے وہ صرف یہ کہ جذبات سے پرے ہمیں ایک مضبوط قانونی  پینل تشکیل دینا ہوگا جس میں تمام مسالک اور مشارب کی شمولیت رہے، یہ قانونی پینل حکومت کی پالیسیوں کے خلاف قانونی سطح پر مضبوط آواز اٹھائے اور دستور ہند اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کی ناک میں نکیل کسنے کا کام کرے ،اس لیے کہ ہماری داخلی حالت اور شرپسندوں کی منصوبہ بند سازشوں سے نپٹنے کے لیے ایک جمہوری ملک میں قانونی چارہ جوئی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس قانونی پینل میں ملک کے سیکولر ذہنت رکھنے والے وکلا کی خدمات لی جائیں اور خود مسلم وکلا کی جماعت تیار کرنے پر بھی زور دیا جائے  اور وہ بچے جو قانون کی پڑھائی کر رہے ہیں ان کی امداد کی جائے اور مالی تعاون کے ذریعے انہیں اعلیٰ قانونی پڑھائی کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ مستقبل میں وہ اسلامی وراثت سے لے کر مسلمانوں کے دیگر معاملات میں غیروں کی در اندازی کے محاذ پر ڈٹ کر قانونی لڑائی لڑ سکیں۔

حاصل کلام یہ  کہ کہنے اور کرنے کی بہت چیزیں ہیں اگر آج کر لی جائیں تو خوشگوار نتائج کی امید کی جا سکتی ہے اور اگر آج شیرازہ بندی نہ کی گئی اور منظم انداز میں قومی مفادات کو آگے کر کے مستقبل سازی نہ کی گئی تو ہم تو قبروں میں ہوں گے اور ہماری نسلیں یا تو ہمیں کوس رہی ہوں گی یا پھر ارتداد  کی راہ چل کر اپنے دنیاوی تحفظ کا سامان کر رہی ہوں گی ۔اللہ تعالی جلد اس قوم کو بیداری عطا فرمائے۔

◘◘◘◘◘

 

 بھارت میں مسلم ورثے کا تحفظ انسانی حقوق کا مسئلہ

مہتاب پیامی

 

 

 

ہندوستان میں مسلم ثقافتی ورثے کی خاموش نسل کشی:

ہندوستان میں مسلم ورثے کی خاموش نسل کشی ایک جامع مسئلہ ہے جس میں مسلم ثقافت اور ورثے کی تباہی، نظراندازی اور پسماندگی شامل ہے۔ اس مسئلے کو خاص طور پر ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کے عروج کے ساتھ حالیہ برسوں میں کافی توجہ ملی ہے۔یہ مسئلہ ہندو قوم پرستی، سیاسی تنازعات اور تاریخی تعصب کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو مسلم حکمرانی کے خلاف ہے۔

مسلمانوں نے ہندوستانی ثقافت اور تاریخ میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر فن اور تعمیرات کے میدان میں۔ مغلوں نے یہاں بہت سے یادگاروں  کی تعمیر کی اور انتہائی اہم ورثہ چھوڑا، جیسے تاج محل، لال قلعہ، اور جامع مسجد۔ انھوں نے یہاں نئے خیالات اور طریقے اپنا ئے اور  اپنے وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی متعارف کرائی، جو ملک کی ثقافتی تنوع میں اضافہ کا باعث بنی۔

ہندو قوم پرستی بھارت میں مسلم ورثے کو مٹانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تحریک ہندو ثقافت کو فروغ دیتی ہے جبکہ دیگر مذہبی گروہوں، خاص طور پر مسلمانوں کو نظر انداز کرتی ہے۔

ہندوستان  میں مسلمانوں کے ورثے کا مٹایا جانا نہ صرف علامتی طور پر نقصان دہ ہے بلکہ یہ ان یادگاروں کے تحفظ اور ان کی تاریخی اہمیت کے اعتراف پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی جڑوں کو مٹانے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی تناؤ نے بھی اثر ڈالا ہے۔ دونوں ممالک کافی عرصے سے متنازعہ صوبہ کشمیر پر اختلافات کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں  ماضی میں کئی جنگیں ہو چکی  ہیں۔ اس کی وجہ سے یہاں مسلمانوں کو عام طور پر پاکستان سے منسوب کیا جاتا ہے اور انھیں ہندوستانی سکیورٹی اور وحدت کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہاں تاریخی تعصب بھی کارفرما ہے۔ بھارت میں مسلم دورِ حکومت کو اکثر ظلم و ستم کا دور قرار دیا جاتا ہے، جب کہ مسلم حکمرانوں اور علما کی خدمات کو یا تومکمل طور پر  نظر انداز کیا جاتا ہے یا گھٹا کرکے پیش کیا جاتا ہے۔

۴۶؍ ویں ورلڈ ہیریٹیج  کمیٹی میٹنگ کا انعقاد:

ہندوستان میں ۴۶؍ ویں ورلڈ ہیریٹیج  کمیٹی میٹنگ کا انعقاد 21 سے 31 جولائی 2024  کے درمیان ہوا۔ اس ایونٹ کی ویب سائٹ پر تاج محل کی تصویر انتہائی فخریہ انداز میں  دکھائی گئی ہے، جو ہمارے کے شاندار ماضی کی علامت ہے۔ تاہم، اس یادگار کو بھارت کے ورثے کی نمائش کے لیے استعمال کرنا ایک طرف تو طنز ہے اور دوسری طرف انتہائی تکلیف دہ ۔  ایک طرف  تو تاج محل کو، جو بھارت کی فن تعمیر کی عظمت اور مغلیہ دور (1526-1857) کے شاندار ثقافتی ورثے کی گواہی دیتا ہے، اسے پیش کیا جا رہا ہے ، اور دوسری طرف مسلم ورثے کے منظم خاتمے کا عمل جاری ہے۔ یہ تضاد تشویش ناک ہے۔ ایک طرف تاج محل کو عالمی سطح پر بھارت کے حسن کی علامت کے طور پر سراہا جا رہا ہے، اور دوسری طرف حکومت اور عوام کے کچھ حلقے مسلمانوں کی تاریخی اور ثقافتی موجودگی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ثقافتی مقامات پر حملے:

ثقافتی مقامات پر حملوں کا دور 1992 میں بابری مسجد کی تباہی سے شروع ہوا ۔6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو ہندو کار سیوکوں نے، جو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)  اور آر ایس ایس سے وابستہ تھے، منہدم کر دیا۔ اس ہجوم کی قیادت ایل کے اڈوانی کر رہے تھے، جو ایک ممتاز بی جے پی رہنما تھے۔ انھوں نے منصوبہ بند سازش کے تحت 400 سال سے زیادہ پرانی مسجد کو گرا دیا مگر انتہائی افسوس کہ  دنیا نے اس منظم تباہی کی طرف زیادہ توجہ نہیں نہیں دی، غالباً اسے ہندو مسلم فسادات کی محض ایک  کڑی سمجھا گیا، لیکن  سچ تو یہ ہے کہ یہ صرف فساد نہیں تھا۔ بابری مسجد کی تباہی مسلمانوں کے خلاف ایک سیاسی اور وجودی کارروائی تھی، جس نے ان کی ہندوستانی شناخت کو سوالیہ نشان بنا دیا۔ تب سے تا حال مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی شناخت کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس سے سیکولر قومی تشخص بکھر رہا ہے۔

ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی  کے شعبۂ تاریخ اور مطالعاتِ امن کی پروفیسر محترمہ یاسمین سائیکا لکھتی ہیں:

”میں نے بابری مسجد کی تباہی کے بعد کے حالات کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا۔ 8 دسمبر کی صبح جب میں امریکہ سے نئی دہلی پہنچی تو مجھے ایک عجیب خاموشی کا سامنا کرنا پڑا۔ پروازیں منسوخ ہو چکی تھیں، اور ہوائی اڈے کا عملہ میری کسی قسم کی مدد کرنے سے انکاری تھا، خاص طور پر جب انہوں نے میرا پاسپورٹ چیک کر کے پہچان لیا کہ میں مسلمان ہوں تو میری کسی بھی قسم کی مدد نہیں کی گئی۔ وہاں سے باہر نکلنا بھی ممکن نہیں تھا،  دہلی کرفیو کی زد میں تھا۔ میں ٹرمینل میں بیٹھی تھی، جہاں موت جیسی خاموشی تھی، اور مجھے اپنی سلامتی کے بارے میں شدید تشویش لاحق تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا وطن، جسے میں جانتی تھی ایک زبردست تبدیلی سے گزر چکا ہے۔ اس تباہی نے واضح کر دیا کہ مسلمانوں اور ان کی تاریخ کو اب ”باہر والی“ سمجھا جا رہا ہے، اور ان کی ہزار سالہ وراثت کو مذہبی قوم پرست سیاست کے ذریعے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب مذہب ایک ذاتی معاملہ نہیں رہا تھا؛ بلکہ اسے عوامی مباحثے اور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ بھارت میں مسلمانوں، جو دنیا کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں، کو اپنی بقا کا شدید خطرہ لاحق تھا۔ بابری مسجد کی تباہی مسلمانوں کو بھارت کی سرزمین سے مٹانے کی ابتدا تھی، اور مسلمانوں کی تاریخی موجودگی کو مٹانے کی یہ مہم جاری ہے۔“

بابری مسجد کی تباہی کے بعد کے برسوں میں، متعدد دیگر مسلم ورثہ مقامات، بشمول مساجد، صوفی خانقاہیں، لائبریریاں، کمیونٹی مراکز، اور نجی مکانات کو بھی اسی قسم کی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کی تاریخ کو مٹانے کی یہ منظم اور منصوبہ بند کوشش  آج بھی فخریہ پیش کی جاتی ہے۔ ہر مسجد کے انہدام کو ایک عوامی تقریب میں تبدیل کیا جاتا ہے، جہاں لوگ ہتھیاروں کے ساتھ ان مقامات کو گراتے ہیں، اور ریاست کی خاموش تائید کے ساتھ یہ تماشا چلتا ہے۔ اور ہزاروں لاکھوں لوگ وحشت و بربریت کا یہ ننگا ناچ دیکھ دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔

 عمارتیں محض اینٹ اور پتھر سے نہیں بنی ہوتیں؛ وہ ماضی کی یادیں اور ان گنت نسلوں کی قربانیوں، خوابوں، روزمرہ کی زندگیوں، جذبات اور احساسات کی علامت ہوتی ہیں۔ مگر ان مسمار کرنے والوں کے لیے ماضی کی ان عمارتوں میں موجود احساسات اور جذبات کی کوئی قدر نہیں؛ ان کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کو ماضی سے کاٹ دینا اور انہیں ہندوستان کے مستقبل سے خارج کرنا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ  ورلڈ ہیریٹیج کمیٹی کے 46ویں اجلاس میں بھارت میں مسلم تاریخ کے خاتمے کا نوٹس تک نہیں لیا گیا۔

محترمہ یاسمین سائیکا لکھتی ہیں:

”ایک ہندوستانی مورخ کی حیثیت سے، میں اس درد سے بخوبی واقف ہوں جو مجھے بابری مسجد کی تباہی پر محسوس ہوا تھا۔ میں عالمی ورثہ کمیٹی کے رہنماؤں سے سوال کرتی ہوں کہ کیا وہ ان مسلمانوں کا درد محسوس کرتے ہیں جن سے  ان کا ورثہ اس لیے چھینا جا رہا ہے  کہ وہ صرف مسلمان ہیں؟ کیا تاریخ کو مٹایا جا سکتا ہے؟ کیا تاریخ صرف اکثریتی طبقے کی مرضی اور تشدد سے ختم کی جا سکتی ہے؟ “

تباہ شدہ عمارتوں کا ماتم:

مسلم مقامات کی تباہی کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا مکمل مطالعہ کرنا ممکن نہیں؛ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اس خوفناک اور تباہ کن منظر نامے میں، کسی چیز کو بخشا نہیں جا رہا ، تاریخی مساجد سے لے کر نئی تعمیر شدہ اور منظور شدہ مساجد، ان صوفیوں کے مزار جو بقاے باہمی اور رواداری کا درس دیتے تھے، عوامی کتب خانے، مدارس، قبرستان، عوامی مقامات، اور اسی طرح دیگر مقامات آئے دن تباہ کیے جا رہے ہیں یا جان بوجھ کر نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ اس تباہی کو مسلمانوں کی جانب سے ماضی میں مبینہ طور پر 880 ہندو مقامات کی تباہی کا بدلہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ مورخین کی تفصیلی مطالعاتی تحقیق سے ان دعوؤں کا جھوٹ پر کھل کر سامنے آچکا ہے۔ ان مقامات کو طاقت کے زور پر دوبارہ حاصل کرنے کا مقصد بی جے پی کے رہنما اور ان کے حامیوں کے مطابق بھارت کو ثقافتی اور جغرافیائی طور پر پاک کرنا اور بھارت کے حقیقی مالکین کے طور پر ہندوؤں کا دعویٰ مضبوط کرنا ہے۔

مسلم مقامات کی بڑے پیمانے پر تباہی کا آغاز 2002 میں گجرات میں گودھرا نسل کشی کے دوران ہوا۔اس وقت  گجرات کے خلد آباد میں 230 منفرد عمارتیں تباہ ہوئیں، جن میں ایک 400 سال پرانی مسجد اور صوفی ولی گجراتی کا مزار شامل تھے، اس دہشت گردی میں قرآن  مجید کے ایک قدیم ترین تاریخی نسخے کو نذرِ آتش بھی کیا گیا ۔ مورخین اور ماہرین  اس تباہی کا موازنہ افغانستان میں بامیان کے بدھ مجسموں کی تباہی یا ماؤسٹ ریڈ گارڈز کے ہاتھوں تبتی خانقاہوں کی بربادی سے کرتے ہیں۔

تب سے آج تک  مذہبی قوم پرستوں نے دہلی اور بھارت بھر میں بے شمار مساجد اور مزارات کو منہدم کیا ہے۔ صرف دہلی میں، ہزار سال پرانا صوفی بزرگ بابا حاجی روزبہ کا مزار مسمار کر دیا گیا، 700 سال پرانی آخوندجی مسجد، مشہور جنۃ الفردوس مسجد ، سرائے کالا خان مسجد اور مدرسہ کو زمین بوس کر دیا گیا۔ 2020 کے دہلی فسادات میں 16 مساجد کو تباہ کیا گیا۔ (الٰہ آباد) پریاگ راج شہر کی شاہی مسجد اور مظفر نگر کی 300 سال پرانی تاریخی مسجد کو حال ہی میں سڑکوں کی توسیع کے بہانے مسمار کر دیا گیا۔ اسی طرح  کے حالات گجرات، حیدرآباد، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں بھی پیدا ہوئے۔ تا دَمِ تحریر  دہلی کی تاریخی سنہری مسجد، بدایوں کی 800 سال قدیم شمس مسجد، وارانسی کی گیان واپی مسجد کمپلیکس، متھرا کی شاہی عیدگاہ ، حیدرآباد میں مومن چپ کا مزار، گیا کی شاہی مسجد، مغربی بنگال کی چھوٹی سونا مسجد، اور دہلی کے نواح میں قطب مینار کمپلیکس کی مسجد سمیت دیگر  کئی مقامات خطرے کی زد  میں ہیں۔

مسلمانوں کے ماضی کی تباہی صرف مساجد تک محدود نہیں ہے۔ 2023 میں ہریانہ کے نوح میں 300 سے زائد مسلم گھروں کو تباہ کر دیا گیا، جولائی 2024 میں  دائیں بازو کے ہندو گروہوں نے مسلم گاؤں گاجا پور کو تباہ کر دیا۔ بہار کے سو سالہ قدیم عزیزیہ مدرسہ پر حملہ کیا گیا اور اس کی 4500 نایاب کتابیں جلا کر قبرستان میں پھینک دی گئیں۔

تاریخی مقامات کے ناموں کی تبدیلی:

اسلام اور مسلمانوں سے منسوب تاریخی ورثے کی تباہی کے ساتھ ساتھ  اسلام اور مسلمانوں  سے منسوب مقامات کے نام بھی تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2018 میں الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دیا گیا تاکہ اس کے مغل ماضی سے فاصلہ رکھا جا سکے۔ اسی طرح، فیض آباد کا نام تبدیل کر کے ایودھیا رکھ دیا گیا ۔ یہاں تک کہ مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر دین دیال اپادھیائے جنکشن رکھا گیا، جو بی جے پی کے پیش رو تنظیم بھارتیہ جن سنگھ کے ایک رہنما تھے۔ ہندو قوم پرستوں کا مطالبہ ہے کہ قطب مینار وشنو ستمبھ اور مشہور مغل عمارت، تاج محل کو ”تیجو مہالیہ“کا نام دے کر اسے ہندو شیو مندر قرار دیا جائے۔

ہم کسی عمارت کے ڈھانچے کے نقصان پر افسوس نہیں کر رہے ہیں، یہ ہماری سیکولر روح کے نقصان کا معاملہ ہے۔ مشہور مورخ آنند پٹوردھن“ کہتے ہیں:

”بابری مسجد اور دیگر مساجد کی تباہی نے نہ صرف بھارت کی سیکولر روح کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ہماری صلاحیت کو بھی کم کر دیا ہے کہ ہم ان عمارتوں میں مضمر خوبصورتی، جذبات، احساسات، قربانیوں، ہنر، فن، اور محنت کو سراہ سکیں۔ یہ عمارتیں انسانیت کے منصوبے کی گواہی دیتی ہیں۔ ان کو تباہ کرنا اس بات کے مترادف ہے کہ ہم اپنے ماضی کے لوگوں کو اس طرح نظرانداز کریں گویا وہ انسان  ہی  نہیں تھے ۔ یہ وہ چیز ہے جس کا ہمیں، انسانوں کے ایک اجتماعی گروہ کے طور پر، ماتم کرنا چاہیے ۔

ورثہ کیوں اہم ہے؟

ثقافتی ورثہ محض ایک عمارت نہیں ہے اور نہ ہی صرف ایک ایسا وسیلہ جسے محفوظ رکھا جائے، یہ ان کہانیوں کا ایک مرکزی عنصر ہے جو معاشرہ اپنے بارے میں بیان کرتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کا ماضی کسی غیر ملکی قوم کا نہیں ہے جو یہاں حملہ آور ہوئی، لوٹ مار کی اور تباہی پھیلائی۔ نہ ہی مسلمانوں کے لیے بھارت محض معاشی یا جغرافیائی توسیع کا مقام تھا، جہاں لوگ ذاتی فائدے کے لیے آئے تھے، حالانکہ یہی وہ بیانیہ ہے جو آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے بانیوں میں سے ایک، ایم ایس گولوالکر نے اپنی کتاب  میں مسلمانوں کی بھارت میں دلچسپی کو بیان کرتے ہوئے پیش کیا۔

جیسا کہ معروف مؤرخ باربرا مٹکاف نے 1995 میں ایسوسی ایشن فار ایشین اسٹڈیز کے صدارتی خطاب میں مؤثر انداز میں بیان کیا:

”بھارت مسلمانوں کے لیے ان کا مادر وطن ہے اور ”فرشتوں کا آرام گاہ“ ہے۔ مسلمانوں کے بھارت سے اس گہرے تعلق کو نظر انداز کرنا اور ان کی تخلیق کردہ تاریخ کو ایک اسٹریٹجک حربے کے طور پر استعمال کرنا تاکہ ایک یکساں ہندو قومی شناخت کی تعمیر کی جا سکے، قطعی نامناسب ہے۔“

مسلمانوں کے ورثے کے مقامات کی تباہی مسلمانوں کی تاریخی معلومات اور ان کی قومی تاریخ کے اہم حصے کے طور پر تسلسل کو توڑ دیتی ہے۔ یہ دانستہ تباہی مسلم برادری کے مقام اور تعلق کے احساس کو متاثر کرتی ہے؛ یہ ایک منظم ”ثقافت کشی“ کا عمل ہے۔ جنگ کی صورت میں ثقافتی جائیداد کے تحفظ کے لیے دی ہیگ کنونشن (1954) کے مطابق  ممالک کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ  تاریخی ورثہ نقصان یا غلط استعمال سے بچا رہے۔ لیکن عام حالات میں ورثے کی عمارتوں کی تباہی کا کیا ہوگا؟

مسلم ورثے کا تحفظ انسانی حقوق کا مسئلہ :

بھارت میں مسلم ورثے کا تحفظ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، جو اظہار رائے، سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت میں مسلم ورثے کی حفاظت کو اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک موقع تھا جب دہلی میں ۴۶؍ ویں ورلڈ ہیریٹیج  کمیٹی میٹنگ میں عالمی  رہنماؤں کو اس موضوع پر گفتگو کرنے کی ضرورت تھی ، مگر یہ اجلاس بھی ماضی کی طرح ”نشستن، گفتن، برخاستن“ کے تکون میں سمٹ کر رہ گیا ، حالاں کہ یہ اجلاس ورثے کی اہمیت پر غور و فکر کر کے نہ صرف عمارتوں بلکہ ان لوگوں کے خلاف مستقبل میں ہونے والے تشدد کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا جن کی سلامتی کو سب سے زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے۔  ◘◘◘

 

اسلامی ثقافت کا فلسفیانہ اور روحانی پہلو مٹتا جا رہا ہے

 محمد شاہد رضا نعمانی، مشرقی چمپارن

 

جب وقت کی آندھیاں تہذیبوں کے دامن کو الجھا دیتی ہیں اور تاریخ کی گرد گزرے ہوئے زمانوں کی رونقوں کو ماند کر دیتی ہے، تب ایک قوم کی بقا کا انحصار اس کے ثقافتی ورثے کی حفاظت پر ہوتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین پر اسلامی ثقافت کی مانند ایک شجرِ سایہ دار اُگا تھا، جس کی شاخیں علم و عرفان سے پھوٹیں اور جس کے پھلوں نے معاشرت، سیاست، اخلاق اور روحانیت کے میٹھے ذائقے بخشے۔ مگر آج کا دور، جو کہ تیزرفتار زندگی، مغربی مادیت اور فکری بے سمتی کا دور ہے، اسلامی ورثے کو ایک خوابیدہ حقیقت بنا دینے پر مصر ہے۔ یہ ورثہ اب محض کتب خانوں میں دبے پرانے اوراق کی شکل میں یا ان گلی کوچوں میں معدوم یادگاروں کی صورت میں رہ گیا ہے جہاں کبھی وقت کے ولیوں کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی تھی۔

آج، جب کہ ہندوستان کی فضا میں اسلام کی روحانی مہک مدھم ہو رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ورثے کو محض عمارتوں کی مرمت اور کتابوں کے تحفظ تک محدود نہ کیا جائے، بلکہ اسے دلوں کی دنیا میں پھر سے زندہ کیا جائے۔ یہ ورثہ ایک خزینۂ نایاب ہے، جس کی ہر چمک تاریخ کے ان سنہرے لمحات کو یاد دلاتی ہے جب انسانیت، فلسفے اور اخلاق کے بلند ترین معیاروں پر قائم تھی۔ یہ وہ روشنی ہے جو ہر اندھیرے میں امید کی کرن تھی، ہر طوفان میں سکون کا ساحل تھی۔

مگر آج کے اس بے رحم ماحول میں، جہاں ہر چیز کو معاشی فائدے کے ترازو میں تولا جاتا ہے، اسلامی ثقافت کا فلسفی اور روحانی پہلو مٹتا جا رہا ہے۔ وہ منارِ نور، جو علم و معرفت کا سرچشمہ تھا، اب مٹی کی بوجھل تہوں تلے دفن ہوتا جا رہا ہے۔ وقت کی اس زبردست آندھی کا مقابلہ صرف وہی قوم کر سکتی ہے جس کی جڑیں اپنے ثقافتی ورثے میں پیوست ہوں، اور یہ ورثہ محض ایک عمارت نہیں، بلکہ وہ نظریہ ہے جو دلوں کو منور کرتا ہے، روحوں کو سکون بخشتا ہے، اور زندگی کی حقیقی معنویت کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔

اسلامی ثقافت ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی قندیل رہی ہے، جس کی روشنی نے صدیوں تک نہ صرف اس خطے کو منور کیا بلکہ دنیا بھر کے علوم و فنون کو ایک نیا رخ دیا۔ یہ ثقافت محض مذہبی عقائد کا مجموعہ نہیں تھی، بلکہ ایک ہمہ جہت تہذیب تھی، جس میں انسان کی روحانی تربیت، اخلاقی پختگی، علمی ترقی، اور فکری آزادی کو اولین حیثیت حاصل تھی۔ اسلامی ورثے کا سب سے عظیم پہلو اس کا وہ فلسفیانہ نظام ہے، جس نے انسان کو مادیت کی گہری کھائیوں سے نکال کر اخلاقی و روحانی بلندیوں تک پہنچایا۔ آج جب ہر طرف مادیت اور فکری زوال کی چادر تنی ہوئی ہے، یہ ورثہ اپنی حفاظت کے لیے آواز دے رہا ہے۔

اسلامی ثقافت کی جڑیں ہندوستان کی مٹی میں اتنی گہری پیوست تھیں کہ اس نے یہاں کی ہر چیز کو اپنی معنویت سے مالا مال کر دیا۔ تاج محل سے لے کر جامع مسجد تک، دہلی کی گلیوں سے لے کر لکھنؤ کے مدرسوں تک، اسلامی ورثے نے نہ صرف عمارتیں تعمیر کیں، بلکہ دلوں میں اخلاق، علم اور حکمت کے مینار کھڑے کیے۔ وہ صوفی درویش، جنہوں نے اپنی چادر کو علم و عرفان کے نور سے مزین کیا، وہ علماء جن کی زبانوں سے فلسفہ بہتا تھا، اور وہ مصلحین جنہوں نے فکر و عمل کی راہوں کو روشن کیا، سبھی اس تہذیب کے عظیم معمار تھے۔

مگر آج، جب کہ ہر طرف جدیدیت کے نام پر ایک فکری خلا پیدا ہو چکا ہے، اسلامی ورثہ محض ایک یادگار بن کر رہ گیا ہے۔ وہ مدرسے جہاں کبھی فلسفہ، منطق، تصوف اور اخلاقیات کی درس گاہیں ہوا کرتی تھیں، آج اپنی اہمیت کھو رہے ہیں۔ وہ کتابیں جو کبھی فکری آسمانوں کی بلندیوں تک لے جاتی تھیں، آج کے نوجوانوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وقت کی دھول نے ان روشن ستاروں کو ڈھانپ دیا ہو، اور ہم اندھیرے میں کسی روشنی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

یہ فکری زوال صرف عمارتوں یا کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے دلوں اور ذہنوں میں سرایت کر چکا ہے۔ اسلامی ورثہ، جو کہ ایک زندہ تہذیب تھی، آج محض ایک تاریخی داستان بن کر رہ گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ورثے کو زندہ کیا جائے، اسے دلوں میں جگہ دی جائے، اور اسے ایک نظریہ کے طور پر فروغ دیا جائے۔ یہ ورثہ محض ماضی کی داستان نہیں، بلکہ ہمارے حال اور مستقبل کی بنیاد ہے۔

ہندوستان میں اسلامی ثقافت کی بقا صرف عمارتوں کے تحفظ سے ممکن نہیں، بلکہ ہمیں اس تہذیب کی روح کو سمجھنا ہوگا۔ وہ اخلاقی اصول جو اسلامی ورثے کا مرکز تھے، آج کے دور میں بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے صدیوں پہلے تھے۔ یہ اصول ہمیں مادیت کی جکڑ بندیوں سے آزاد کر کے روحانیت، محبت، بھائی چارے، اور اخلاقی بلندی کی جانب لے جاتے ہیں۔ اسلامی فلسفے کی یہ وہ روشنی ہے جسے آج کے تاریک دور میں دوبارہ زندہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

آج جب دنیا سرمایہ دارانہ نظام اور مادہ پرستی کے جال میں پھنسی ہوئی ہے، اسلامی ورثے کی وہ فکری بنیادیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کا مقصد محض مال و دولت کا حصول نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ اخلاقی اور روحانی زندگی کا قیام ہے۔ اسلامی ثقافت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے، مگر انسان کا کردار، اس کا اخلاق اور اس کی روحانی بلندیاں اسے دائمی بناتی ہیں۔ اس ورثے کا تحفظ محض عمارتوں کو محفوظ کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں اپنے دلوں میں اس کے اصولوں کو زندہ کرنا ہوگا۔

اسلامی ورثہ دراصل ایک دریا ہے، جس کی ہر موج میں حکمت، معرفت اور محبت کا پیغام ہے۔ اس دریا کو خشک ہونے سے بچانے کے لیے ہمیں نہ صرف اس کے مادی پہلوؤں کی حفاظت کرنی ہوگی، بلکہ اس کے فلسفی اور روحانی پہلوؤں کو بھی فروغ دینا ہوگا۔

الحاصل اسلامی ثقافت کا ورثہ محض ایک تاریخ کی کہانی نہیں، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے، جو آج بھی وقت کی گرداب میں اپنی جگہ بنائے رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر ہم نے اس کی آواز کو نہ سنا، اس کے پیغام کو نہ سمجھا، تو ہم صرف اپنے ماضی کو کھوئیں گے، بلکہ اپنی شناخت اور مستقبل کی روشنی کو بھی مدھم کر دیں گے۔ وہ تہذیب جو کبھی زمانے کی قیادت کرتی تھی، آج ایک چوراہے پر کھڑی ہے، جہاں سے ہر راہ اسے مزید اندھیروں کی طرف لے جاتی ہے، سوائے اس ایک راہ کے، جو اس کے اصل ورثے کی طرف پلٹنے کا تقاضا کرتی ہے۔

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اس ورثے کو صرف ماضی کے طلسماتی خوابوں میں دفن کر دیں گے؟ یا پھر ہم اس کی چنگاری کو دوبارہ دہکائیں گے تاکہ یہ ہماری نسلوں کے دلوں میں روشنی بن کر جلتی رہے؟ آج کا دور، جو کہ مادیت، نفس پرستی اور خودغرضی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، اسلامی فلسفے اور ثقافت کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ورثہ ہمیں اپنے نفس کو بلند کرنے، دلوں میں محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے اور علم کی حقیقی پیاس بجھانے کا درس دیتا ہے۔

یہ سوچنے کا لمحہ ہے کہ کیا ہم اس ورثے کو محض ایک قدیم داستان سمجھ کر بھلا دیں گے، یا پھر اس کی روحانی اور فکری چمک کو اپنے دلوں میں زندہ کریں گے؟ اگر ہم نے اس چراغ کو بجھنے دیا تو شاید زمانے کی آندھیاں ہماری شناخت اور ہمارے اخلاق کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں گی، اور ہم صرف ماضی کے بھٹکے ہوئے مسافر بن کر رہ جائیں گے۔

لہٰذا، وقت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف اسلامی ورثے کو محفوظ کریں، بلکہ اسے اپنے طرزِ زندگی، اپنے سوچنے کے انداز، اور اپنے معاشرتی ڈھانچے میں دوبارہ شامل کریں۔ ورنہ وقت کا سیلاب اس قیمتی ورثے کو یوں بہا لے جائے گا جیسے کبھی یہ تھا ہی نہیں، اور ہم کھڑے، اپنی شناخت اور روح کی تلاش میں، محض ماضی کی خاک پر دستک دے رہے ہوں گے۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved