مفتی محمد اعظم مصباحی مبارکپوری
نام و نسب:حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلہ قریش کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔ جوانی ہی میں مشرف بہ اسلام ہوئے ،بہت بڑے عابد و زاہد تھے ،احادیث رسول کریم کی حفظ و کتابت کا خوب اہتمام فرماتے ۔آپ کے والد حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اسلام کے مشہور سپہ سالار اور فاتح مصر تھے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کے ساتھ فتح مصر کے تاریخی سفر میں بھی حصہ لیا والدہ کا نام ریطہ بنت منبہ تھا۔
سلسلہ نسب کچھ یوں ہے: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن معبدبن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لوی القرشی
قبول اسلام:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب صحابہ میں شامل ہیں جو نوجوانی میں اسلام کے نور سے منور ہو گئے۔ آپ اپنے والدِ بزرگوار حضرت عمرو بن عاص سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
طلب حدیث کا شوق:حضرت عبدااللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سے زیادہ احادیث یاد رکھنے کی کوشش کرتے اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر احادیث کو تحریر بھی کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کی روایت کردہ احادیث کا ذخیرہ بہت وسیع ہے۔ آپ کے علم کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، جو خود ایک بڑے محدث تھے، فرمایا کرتے تھے کہ لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکْثَرَ حَدِیْثاًمِنِّیْ اِلَّا مَاکَانَ مِنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو فَاِنَّہٗ یَکْتُبُ وَلَا اَکْتُبُ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس مجھ سے زیادہ احادیث کا ذخیرہ موجود ہے، کیونکہ وہ انہیں لکھ بھی لیتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔
ایک مرتبہ قریش کے چند بزرگوں نے ان کو اس سے منع کیا اور کہا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ غیظ و انبساط میں کیا کچھ فرماتے ہیں، آپ سب کو قلم بند نہ کیا کیجیے حضرت عبد اللہ بن عمرو نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں عرض کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ان دو ہونٹوں کے درمیان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا،لہٰذا تم لکھتے رہو۔
آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے آپ کے ارشادات اور ملفوظات کا ایک مجموعہ تیار کیا جس کا نام صادقہ رکھا۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اس مجموعہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔
چنانچہ حضر ت امام مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور تکیے کے نیچے سےایک کتاب نکال کر دیکھنے لگا تو انہوں نے منع کیا۔تو میں نے کہا آپ تو مجھ کو اپنی کسی کتاب اور کسی اور چیز سے منع نہ فرماتے تھے تو انہوں نے فرمایا:
إن هذه الصحيفة الصادقة التي سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بيني وبينه أحد۔
یہ وہ صحیفہ حق ہے جس کو میں نے تنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر جمع کیا تھا۔
علم و فضل:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص اپنے علم و فضل کے لحاظ سے طبقہ صحابہ میں خاص امتیاز رکھتے تھے، آپ نے اپنی مادری زبان کے علاوہ عبرانی میں بھی مخصوص دستگاہ حاصل کی تھی اور توریت و انجیل کا نہایت غور سے مطالعہ کیا تھا۔
روایات اور احادیث:آپ سے تقریباً 700 کے قریب احادیث مروی ہیں، جن میں سے کئی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں۔ آپ کی روایت کردہ احادیث فقہی اور اخلاقی مضامین پر مشتمل ہیں، جن سے امت مسلمہ نے بڑے پیمانے پر رہنمائی حاصل کی۔
جہاد اور فتوحات میں حصہ:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کئی جنگوں میں حصہ لیا اور اپنی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر مصر اور یرموک کی فتح میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ آپ کا تعلق ان عظیم صحابہ سے تھا جنہوں نے اسلامی خلافت کے دفاع اور فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
عبادت گزاری اور زہد:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ عبادات میں انتہائی محنتی تھے۔ آپ روزانہ قرآن کی تلاوت کرتے اور اکثر روزے رکھتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اعتدال کے ساتھ عبادت کرنے کی نصیحت فرمائی تاکہ آپ کی جسمانی اور معاشرتی زندگی بھی متوازن رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا:
"تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے، تمہارے گھر والوں کا بھی حق ہے، اور تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔ لہٰذا کبھی روزہ رکھو اور کبھی چھوڑ دو، اور ہر مہینے میں تین دن کے روزے کافی ہیں۔"
قرآن کریم کی تلاوت کا ذوق:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا قرآن سے گہرا تعلق تھا۔ وہ ایک مرتبہ ہر رات قرآن ختم کرنے کا معمول بنانا چاہتے تھے،انھوں نے حضور علیہ الصلاۃ و السلام سے اس سلسلے میں عرض کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اعتدال کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تین دن سے کم میں قرآن ختم نہ کیا کرو۔
تواضع اور انکساری:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ انتہائی متواضع انسان تھے۔ وہ مال و دولت اور دنیاوی عزت کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کے لباس اور رہن سہن میں سادگی نمایاں تھی۔
ایک مرتبہ کسی شخص نے ان سے سوال کیا کہ آپ اتنے علم و فضل کے باوجود سادگی میں کیوں زندگی بسر کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
"مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور سادہ طرزِ زندگی کو اپنانا سب سے زیادہ محبوب ہے۔"
حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی احادیث:حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا کردار احادیث کے تحفظ اور اشاعت میں بے مثال ہے۔ ان کی مرویات اسلامی تعلیمات کا ایک جامع مرقع ہیں اور آج بھی مسلمانوں کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ذیل میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی سے مروی کچھ احادیث مع عربی متن اور ترجمہ پیش کی جا رہی ہیں:
عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ.(صحیح مسلم: 1736)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، اور کہا جائے گا: یہ فلاں شخص کی خیانت ہے۔
عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَقُولُ: إِنَّ الله لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ.
(صحیح البخاری: 100)
ترجمہ:عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں کے سینوں سے اچانک نہیں نکالے گا، بلکہ علم علماکے اٹھا لیے جانے سے اٹھ جائے گا ۔
عَنْ عَبْدِ الله بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ الله ﷺ قَالَ: الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ.(سنن الترمذي: 1924)
ترجمہ:عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "رحم کرنے والوں پر رحمان رحم فرماتا ہے۔ زمین والوں پر رحم کرو، تم پر آسمانوں کا مالک رحم فرمائےگا۔"
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله ﷺ:إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا.(صحیح البخاری: 6094)
ترجمہ:عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے، اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی مسلسل سچ بولتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔
وفات :حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری عمر مدینہ منورہ اور بعد میں شام کے علاقے میں گزاری۔ آپ کی وفات 65 ہجری میں ہوئی، اور آپ کی تدفین شام میں ہوئی۔ آپ کی وفات سے امت ایک عظیم محدث، فقیہ، اور عبادت گزار شخصیت سے
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org