21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Nov 2024 Download:Click Here Views: 9077 Downloads: 393

(9)- مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی علیہ الرحمہ

محمد ولی اللہ قادری

مشہور عالم دین اور شمالی بہار کا مرکزی  تعلیمی ادارہ، دار العلوم علیمیہ انوار العلوم دامودرپور مظفر پور کے سابق شیخ الحدیث اور صدر المدرسین حضرت علامہ مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی نمونہ اسلاف تھے جن کا وصال طویل علالت کے بعد مورخہ 14 صفر المظفر 1446ھ مطابق 20 اگست 2024 ء بروز منگل صبح چھے بجے دہلی کے ایک اسپتال میں ہوگیا اور اگلے دن بروز بدھ بعد نماز ظہر آبائی گاؤں رام ڈیہاں تھانہ کلیان پور ضلع مشرقی چمپارن میں پیر طریقت مولانا ضیاء المصطفے مصباحی سجادہ نشیں خانقاہ جنابیہ تیغیہ حسینی شریف مشرقی چمپارن بہار کی اقتدا میں جنازے کی نماز ادا کی گئی اور بستی کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیے گئے -جنازے میں بھارت بند ہونے کے باوجود بھی کثیر تعداد میں علما و مشائخ شریک ہوئے جن میں دار العلوم رضویہ چکیا مشرقی چمپارن کے پرنسپل مولانا مشتاق احمد برہانی مصباحی، مولانا لطیف الرحمن مصباحی، مولانا انیس الرحمن چشتی، مولانا الحاج رضاء الرحمن حیدری، مولانا محبوب عالم رضوی، مولانا منور، مولانا عادل حسین مصباحی، مولانا حشمت علی رحمانی، مولانا اجمیر عالم کے علاوہ دار العلوم علیمیہ انوار العلوم دامودرپور مظفر پور کے اساتذہ بھی شریک ہوئے - مصروفیات کی وجہ سے راقم الحروف جنازے میں شریک نہیں ہو سکا - حضرت کے وصال سے مجھے شدید غم ہوا ہے کہ خاکسار کا وطن حضرت کے علاقے میں ہی ہے - مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت غیر معمولی تھی وہ منکسرالمزاج اور خلیق بھی تھے  -   افسوس صد افسوس کہ حضرت عمر طبعی سے قبل ہی ہم سب سے جدا ہو گئے -

  مولانا اعجاز احمد برہانی کی  پیدائش بہ اعتبار سند 5 اپریل 1970 ء کو رام ڈیہا پوسٹ گوندرہ تھانہ چکیا ضلع مشرقی چمپارن بہار میں ہوئی - والد کا نام شیر علی ہے - ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب اور بستی کے مڈل اسکول تک ہوئی بعدہ  مدرسہ اسلامیہ حیدریہ ضیاء العلوم کلیان پور مشرقی چمپارن میں داخلہ ہوا وہاں سے ہی مدرسہ حنفیہ غوثیہ بجر ڈیہہ بنارس تشریف لے گئے - ایک سال دار العلوم تنویر الاسلام امر ڈوبھا ضلع بستی میں بھی تعلیم حاصل کی - اس کے بعد مرکز علم و فن جامعہ اشرفیہ مبارک پور  اعظم گڑھ  تشریف لے گئے اور وہاں کے اساتذہ سے خوب خوب فیض یاب ہونے کے بعد 1990 ء میں فراغت اور مصباحی سند حاصل کی - فراغت کے بعد دارالعلوم علیمیہ انوار العلوم دامودرپور مظفر پور  میں مدرس ہوئے پھر صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیں - علاوہ ازیں دار العلوم علیمیہ ضیاء العلوم حسینی شریف مشرقی چمپارن کے علاوہ مادرِ علمی مدرسہ اسلامیہ حیدریہ ضیاء العلوم کلیان پور مشرقی چمپارن میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں - ریاست بہار کے علاوہ ریاست آسام کی دارالحکومت کا مرکزی ادارہ مدرسہ ادارہ شرعیہ فیضان مصطفیٰ سات گاؤں گوہاٹی میں بھی خدمات انجام دیں - فی الحال دار العلوم مخدومیہ سیجو باڑی آسام میں خدمات انجام دے رہے تھے - حضرت متعدد امراض میں مبتلا بالخصوص دونوں کڈنی خراب ہو گئی تھی - حضرت نے اپنے پیچھے اہلیہ، چار بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں - میں تمام ورثا کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں اور ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں - مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی جس طرح باہر میں عزت و احترام سے یاد کیے جاتے تھے اسی طرح اپنے علاقے اور بستی میں بھی - میں حضرت کو پچیس سالوں سے جانتا ہوں لیکن آج تک ان کے حوالے سے عوام و خواص کسی سے بھی منفی تبصرہ نہیں سنا ایک بار ایک عام شخص کی زبان پر شکوہ کا لفظ سنا تو وہ بھی شریعت کی پاسداری کا معاملہ ہی نکلا

خطہ چمپارن میں دو شخصیات کے نام کے ساتھ ہی برہانی کا لاحقہ دیکھا، پڑھا اور سنا ان میں ایک مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی تھے جب کہ دوسری شخصیت مولانا مشتاق احمد  مصباحی پرنسپل دار العلوم رضویہ چکیا مشرقی چمپارن کی ہے- خلیفہ اعلی حضرت برہان ملت مولانا شاہ برہان الحق جبل پوری رحمت اللہ علیہ کے دست مبارک پر 12 مارچ 1982 مطابق 15 جمادی الاول1402 ھ میں مدرسہ اسلامیہ روناہی ضلع فیض آباد یوپی میں بیعت ہوئے تھے - افسوس کہ برہان ملت قدس سرہ کی ایک یادگار ہم سے رخصت ہو گئی اور دوسری یادگار کو اللہ سلامت رکھے آمین -حضرت مولانا برہانی نور اللہ مرقدہ طالب علمی کے زمانے سے نیک سیرت تھے چنانچہ ان کے ہم درس ساتھی ہی نہیں بلکہ ہم نوالہ و ہم پیالہ مولانا مشتاق احمد برہانی مصباحی لکھتے ہیں کہ 

" حضرت مولانا اعجاز احمد برہانی نہایت ہی شریف منکسر المزاج اور غریب پرور تھے - دوران طالب علمی میں بھی گھر سے اخراجات کے لیے جو رقم ملتی تھی اس میں سے بھی ضرورت مند طلبا کی مدد فرمایا کرتے تھے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے اس کی وجہ سے اساتذہ بھی انہیں بہت عزیز رکھتے تھے"-

پیش نظر اقتباس بالکل حقیقت پر مبنی ہے کیوں کہ حضرت کی منکسر المزاجی کا مشاہدہ راقم الحروف نے بھی کیا ہے حضرت ہر چند شریف النفس اور کم گو تھے لیکن تدریسی صلاحیت غیر معمولی تھی - اس سلسلے میں حضرت مفتی شمیم القادری قاضی شہر مظفر پور کا ارشاد اہمیت و افادیت کا حامل ہے حضرت نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا کہ :

”برہانی صاحب ایک با صلاحیت اور با وقار مدرس تھے - ان کے چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی - بارعب چہرہ، موہ لینے والی صورت، ہمیشہ مسکرانے والی ذات تھی - ان کی رحلت سے اہل سنت کا بڑا خسارہ ہوا ہے۔“

مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی کا انداز تدریس نہایت ہی نرالا تھا اس سلسلے میں ان کے ایک شاگرد رشید اور نبیرہ اعلیٰ حضرت حضرت علامہ قمر رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے خادم خاص مولانا مفتی عباس رضا مظفر پوری نے بتایا کہ :

” میں نے حضرت مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی رحمۃ اللہ علیہ سے اصول الشاسی، شرح جامی اور شرح وقایہ وغیرہ کتابیں پڑھیں- حضرت ہر فن کی کتابیں پڑھانے کی صلاحیت رکھتے تھے ان کے تدریس کا چرچا دار العلوم علیمیہ انوار العلوم دامودرپور مظفر پور میں خوب تھا - حضرت طلبا پر شفقت کا مظاہرہ خوب کیا کرتے تھے مفتی لیاقت علی رحمۃ اللہ علیہ، مفتی سراج الحق رضوی اور مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی کے مابین علمی گفتگو ہوتی، تو بہت اچھا لگتا تھا افسوس صد افسوس تینوں اساتذہ سے ہم محروم ہو گئے- حضرت طلبا کو اس طرح سے سبق سمجھاتے کہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی "- 

  مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی نور اللہ مرقدہ کی بستی اور خاک سار کے گاؤں کی دوری بہ مشکل چار پانچ کیلو میٹر ہوگی اس کے باوجود تفصیلی ملاقات دو چار بار ہی ہو سکی - اس کا سبب یہ کہ حضرت بھی وطن سے دور رہے اور راقم کا بھی وہی حال ہے یاد آتا ہے کہ چکیا بازار میں کبھی ملاقات ہوگئی اور علیک سلیک پر اکتفا - کبھی کبھار راقم سائیکل سے بازار گیا ادھر سے سائیکل سے حضرت لوٹ رہے ہیں درمیان میں ملاقات ہو گئی بعد کے دنوں میں موٹر سائیکل حضرت چلانے لگے حضرت کو میرے چھوٹے چچا سے تعلقات تھے کہ ان کی شیتل پور بازار پر پہلے دکان تھی ابھی بھی زیادہ وقت ان کا شیتل پور بازار پر ہی گزرتا ہے واضح رہے کہ شیتل پور بازار کے شمال میں خاک سار کی بستی الکھبنی ہے جب کہ جنوب میں رام ڈیہا - ایک دو بار دار العلوم رضویہ چکیا میں ملاقات ہوئی ہوگی - ایک تفصیلی ملاقات 2007 ء میں مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ میں ہوئی تھی اور متعدد موضوعات پر گفتگو ہوئی تھی - اللہ پاک جانے کہ چمپارن کے علمائے اہل سنت پر کس کی نظر بد لگ گئی ہے شاگرد ملک العلما حضرت مولانا سید عبد الحکیم نقش بندی کا وصال محض چوالیس سال کی عمر میں 1952 ء میں ہوگیا اسی طرح عہد حاضر کے درجن بھر علمائے کرام بھی عمر طبعی سے قبل ہی دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے جس سے چمپارن میں اہل سنت کا نا قابلِ تلافی خسارہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے بھی - ان میں استاد محترم مفتی عطاء الرحمان قادری مصباحی (متوفی 2011ء) ،مفتی سراج الدین رضوی سبق استاد دار العلوم علیمیہ انوار العلوم دامودرپور مظفر پور (متوفی 2012ء) اور مولانا محمد عظیم اللہ حیدری سبق استاد مدرسہ حیدریہ ضیاء العلوم منگلا پور کلیان پور مشرقی چمپارن (متوفی 2013 ء) قابل ذکر ہیں - اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پروردگار عالم چمپارن کے علمائے اہل سنت پر خاص فضل و کرم فرمائے تاکہ چمپارن بدعقیدگی سے پاک ہو جائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم - آخر میں اپنے  تمام احباب سے گزارش ہے کہ چمپارن کے گزرنے والے جملہ علمائے اہل سنت بالخصوص حضرت مولانا اعجاز احمد برہانی مصباحی نور اللہ مرقدہ کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کریں

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved