21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Nov 2024 Download:Click Here Views: 9073 Downloads: 393

(8)-سلطان المشائخ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی

 

حیات و تعلیمات

 

صاحب زادہ سید محمد فرحان نظامی

سلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ  کی ولادت شہر بدایوں میں 27 صفر 636 ہجری میں ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کی مناسبت سے ” محمد “ رکھا گیا ،مگر دنیا میں آپ نے اپنے القابات سے شہرت پائی۔

نظام الدین اولیا،محبوبِ الٰہی، سلطان المشائخ، سلطان الاولیا،تاج المقربین، بدرالملت والدّین، ملکِ الفقراء والمساکین  سلطان العارفین،سلطان جی محبوبِ الٰہی وغیرہ ہیں۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ  نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں۔ سلسلہ نسب پندرہ واسطوں سے حضرت علی رضی اللہ علیہ اور خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا سے جا ملتا ہے۔حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ  کے دادا سید علی بخاری اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت سید عرب ۔آپ کے نانا دونوں بزرگ اپنے اپنے اہل وعیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوئے تھے۔ آپ کے نانا سید عرب کی صاحب زادی سیدہ زلیخا آپ کی والدہ ماجدہ جو زہد و تقویٰ میں کمال درجہ رکھتی تھیں۔ عبادت گزار اور شب بیدار تھیں۔  انھیں  اپنے وقت کی ”رابعہ بصری“  کہا جاتا تھا۔

آپ کے دادا سید علی بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے ناناسید عرب بخاری رحمۃ اللہ علیہ  دونوں بزرگ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے۔ دونوں بزرگوں نے باہمی مشورے سے اپنے خاندانی رشتے کو مضبوط کرتے ہوئے سید احمد علی کی شادی حضرت سیدہ زلیخا سے کردی۔ابھی حضرت نظام الدین اولیا محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ  بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہوگیا، لیکن آپ کی نیک دل، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔حضرت نظام الدین اولیا کی مادر گرامی بی بی زلیخا ایک امیر و کبیر بزرگ خواجہ عرب رحمۃ اللہ علیہ  کی صاحبزادی تھیں، لیکن آپ نے اپنے والد کی دولت کے ذخائر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔

انتہا یہ ہے کہ بیوگی کا لباس پہننے کے بعد اس دروازے کے جانب نگاہ نہ کی، جہاں آپ کا پورا بچپن اور جوانی کے ابتدائی چند سال گزرے تھے۔ آپ دن رات سوت کاتتیں اور پھر اسے ملازمہ کے ہاتھ بازار میں فروخت کرادیتیں۔اس طرح جو کچھ رقم حاصل ہوتی اس سے گزر اوقات کرتیں۔ یہ آمدنی اتنی قلیل ہوتی کہ معمولی غذا کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ شدید محنت کے باوجود ہفتے میں ایک فاقہ ضرور ہوجاتا۔

جس دن فاقہ ہوتا اور نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ  مادر گرامی سے کھانا مانگتے تو بی بی زلیخا بڑے خوشگوار انداز میں فرماتیں بابا نظام! آج ہم سب اللہ کے مہمان ہیں ، بی بی زلیخا  کا بیان ہے کہ میں جس روز ”سید محمد“ سے یہ کہتی کہ آج ہم لوگ اللہ کے مہمان ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے۔ سارا دن فاقے کی حالت میں گزر جاتا مگر وہ ایک بار بھی کھانے کی کوئی چیز طلب نہ کرتے اور اس طرح مطمئن رہتے کہ اللہ کی مہمانی کا سن کر انھیں دنیا کی ہر نعمت میسر آگئی ہو۔ پھر جب دوسرے روز کھانے کا انتظام ہوجاتا تو نظام الدین اولیا اپنی محترم والدہ کے حضور عرض کرتے، مادر گرامی اب ہم کس روز اللہ کے مہمان بنیں گے؟ والدہ محترمہ جواب دیتیں، بابا نظام! یہ تو اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر شے اس کی دست نگر ہے۔ وہ جب بھی چاہے گا تمہیں اپنا مہمان بنا لے گا۔ آپ مادر گرامی کی زبان سے یہ وضاحت سن کر چند لمحوں کے لیے خاموش ہوجاتے اور پھر نہایت سرشاری کے عالم میں یہ دعا مانگتے :اے اللہ! تو اپنے بندوں کو روزانہ اپنا مہمان بنا۔

پانچ سال کی عمر میں یہ دعا یہ خواہش اور یہ آرزو! اہلِ دنیا کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوگی ،مگر وہ جنھیں اس کائنات کا حقیقی شعور بخشا گیا اور جن کے دل و دماغ کو کشادہ کردیا گیا۔ وہ اس راز سے باخبر ہیں کیا ایسا کیوں ہوتا تھااور حضرت نظام الدین اولیارحمۃ اللہ علیہ  انتہائی کم سنی کے عالم میں اللہ کےمہمان بننے کی آرزو کیوں کیا کرتے تھے۔

آپ پر اللہ کا فضل و کرم تھا، اس لیے آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کرلیا ۔اس کے بعد آپ نے مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ  کے درس میں شرکت فرمائی۔آپ کے استاد محترم نے آپ کے ذوق کو دیکھتے ہوئے آپ پر خصوصی توجہ دی۔ابتدائی دینی تعلیم کے بعد فقی حنفی کی مشہور کتاب”قدوری“ ختم کی۔

حضرت بی بی زلیخا اپنے فرزند کی یہ بات سن کر بڑی خوش ہوئیں۔ پھر حضرت نظام الدین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ  کی زندگی کا وہ یادگار دن بھی آیا جب آپ نے فقہ حنفی کی اس عظیم کتاب کو ختم کرلیا۔ اس کے بعد حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہ نے کھانا تیار کرایا اور بدایوں کے جلیل القدر علما کو دعوت دی۔ جب بدایوں کے ممتاز جلیل القدر علما جمع ہو چکے تو مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد کے سر پر دستارِ فضیلت باندھی۔ حاضرین نے اس مجلسِ روحانی میں بڑا جاں فزا منظر دیکھا زمانِ حال کا عالم مستقبل کے عالم کو اپنے علم کی امانت منتقل کر رہا تھا۔

دستار بندی کے بعد مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ سے دعا کی درخواست کی۔ حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نظر نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ  کو دیکھا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ کی دعاؤں کا سلسلہ ختم ہوا اور دستار بندی کی رسم ادا ہو چکی تو حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ اپنی نشست سے اٹھے۔ سب سے پہلے آپ نے حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ کی دست بوسی کی کہ اس وقت بدایوں میں وہی ولایت کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ 

حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ کی دست بوسی کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ اپنے استاد گرامی کی طرف بڑھے اور مولانا علاءالدین اصولی علیہ الرحمہ کی دست بوسی سے شرف یاب ہوئے۔ مولانا اصولی علیہ الرحمہ نے بھی اپنے محبوب شاگرد کو اس طرح دعائیں دیں کہ شدت جذبات سے اہل مجلس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ پھر عام رسم دعا ادا کی گئی اور اس طرح تمام علماے بدایوں کی دعاؤں کے سائے میں حضرت نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ کے علم کے نئے سفر کا آغاز ہوا۔

دہلی میں حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ  کے قرب میں ہی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ کی رہائش گاہ تھی۔ آپ اکثر حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ  سے ملاقات فرماتے تھے۔حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کی زبانی حضرت بابا فرید الدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ کی فضیلت و مرتبہ کے بارے میں پتا چلتا رہتا تھا۔

حضرت نظام الدین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ  غائبانہ طور پر شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ  کے معتقد ہو گئے اور آپ کے دل میں یہ خواہش غلبہ پانے لگی کہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ  سے ملاقات کی جائے۔چنانچہ حضرت نظام الدین اولیا اپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہو کر پاک پتن شریف روانہ ہو گئے جب حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں پہنچے تو آپ کو دیکھ کر حضرت بابا فرید الدین گنج شکررحمۃ اللہ علیہ  نے یہ شعر پڑھا:

اے آتش فراغت دل با کباب کردہ

سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ

ترجمہ: تیری فرقت کی آگ نے قلوب کو کباب کر دیا اور تیرے شوق کے سیلاب نے جانوں کو برباد کر دیا۔

حضرت نظام الدین اولیارحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ  کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گئے۔آپ نے شیخ فرید الدین مسعود رحمۃ اللہ علیہ  کی بارگاہ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو گاہے بگا ہے ظاہری و باطنی علوم سے نوازا اور خصوصی شفقت فرمائی ۔ مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ  کے زیر سایہ حضرت نظام الدین اولیارحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کے چھ پارے تجوید و قرأت کے ساتھ پڑھے۔

ایک مدت کے بعد شیخ نظام الدین اولیارحمۃ اللہ علیہ  خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے مرتبہ کمال کو پہنچے تو بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ  نے آپ کو خلق خدا کی ہدایت و تکمیل کی اجازت دے کر 659 ہجری کو دہلی روانہ فرمایا۔ پیر و مرشد کے حکم پر ہی دہلی آکر محلہ غیاث پورہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ سلوک و معرفت کی تمام منزلیں حاصل کرنے کے باوجود آپ نے تیس سال تک نہایت ہی سخت مجاہدہ کیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب اور مقرب تھے۔ 

اسی دور میں سلطان وقت نے ایک گاؤں کی پیش کش کی۔ آپ نے صوفیانہ شانِ استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اور میرے خدمت گاروں کو تمہارے گاؤں کی چنداں ضرورت نہیں، خداوند قدوس بڑا کارساز ہے۔ پھر غیب سے آپ کی امداد ہوئی، مقبولیت کا ستارہ چمکا، یہاں تک کہ اس عسر کے بعد یسر کا دور آگیا۔ آپ مرجع عوام وخواص، شاہ وگدا بن گئے۔ لوگوں کا آپ کی طرف رجوع اس قدر ہوا کہ سلاطینِ دہلی کی عظمتیں ماند پڑگئیں۔ اب خانقاہی نظام سے دست گیری، غریب نوازی، انسان سازی کا کارنامہ انجام دیا جانے لگا۔ روزانہ لنگر خانے سے ہزاروں لوگ شکم سیر ہونے لگے مگر آپ کا حال یہ تھا کہ مسلسل روزے رکھتے اور سحری میں خاد م کھانا پیش کرتا تو اس خیال سے نہ کھاتے کہ نہ جانے اس وقت کتنے لوگ بھوکے پیاسے سورہے ہوں گے۔ خلق کی درد مندی کی ایسی انوکھی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔ یقیناً یہ ایک صاحب دل اور مرد حق آگاہ ہی کی صفت ہوسکتی ہے۔

آپ اپنی گفتگو میں قرآن و حدیث، سیرت و تاریخ، فقہ و تصوف اور لغت و ادب کے حوالے دیا کرتے تھے۔ آپ اپنے مریدوں کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی ہدایت فرماتے ۔آپ علوم القرآن پر دسترس رکھتے تھے۔ بعض اوقات کسی آیت مبارکہ کی تفسیر فرماتے اور اپنے سامعین کو قرآنی معارف سے آگاہ فرماتے۔ آپ کی برکات کے اثرات سے ہندوستان لبریز ہے۔ آپ جیسے اسرار طریقت و حقیقت میں اولیائےکامل و مکمل تھے ،ویسے ہی علوم فقہ و حدیث و تفسیر و صرف و نحو، منطق، معانی، ادب میں فاضل اجل عالم اکمل تھے۔

حضرت نظام الدین اولیارحمۃ اللہ علیہ  کو اللہ تعالیٰ نے بہت مقبولیت دی ۔ عام و خاص سب لوگ آپ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اس کے بعد دست غیب اور فتوحات کے دروازے آپ پر کھولے گئے اور ایک جہاں اللہ تعالیٰ کے احسان و انعام کی مدد سے آپ کے ذریعے فائدہ حاصل کرنے لگا۔ آپ کا اپنا حال یہ تھا کہ تمام اوقات ریاضت اور مجاہدہ میں گزارتے، ہمیشہ روزہ رکھتے اور افطار کے وقت تھوڑا سا پانی پی لیتے ، بوقت سحری عام طور پر کچھ نہ کھاتے۔ فیض باطنی کا یہ حال تھا کہ جو شخص صدق اعتقاد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا نظر کیمیا اثر کی تاثیر سے فیض باطنی سے ولی کامل ہو جاتا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو کمال جذب و فیض عطا فرمایا۔ اہلِ دہلی کو آپ کی بزرگی کا علم ہوا تو آپ کی زیارت اور فیض و برکت کے حصول کی خاطر گروہ در گروہ آنے لگے اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا ۔وقت کے بادشاہ اور امرا بھی آپ سے عقیدت کا اظہار کرتے لیکن آپ ان کی طرف التفات نہ فرماتے۔حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی طلب علم، عبادت و ریاضت، مجاہدہ اور لوگوں کی تربیت و اصلاح میں گزار دی، آپ نہایت متقی ، ایثار کرنے والے، دل جوئی کرنے والے، عفوو و درگزر سے کام لینے والے، حلیم و بردبار، حسن سلوک کے پیکر اور تارک دنیا تھے۔

وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نماز ظہر حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ  نے  شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  کو طلب کیا اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح کاسہ، چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکررحمۃ اللہ علیہ  سے پہنچے تھے۔ انھیں عنایت فرمائے اور دہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کو فیض پہنچانے کی تلقین کی اور انھیں اپنا نائب اور جانشین مقرر کیا۔

آپ کی تصانیف میں راحت القلوب، ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکررحمۃ اللہ علیہ ،افضل الفوائد: مرتبہ: حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ ۔فوائد الفواد: مرتبہ : حضرت امیر حسن علا سجزی، سیر الاولیا وغیرہ  شامل ہیں۔

94 برس  کی عمر میں 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان، رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیر تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا۔ آپ کا مزار پُر انوار دہلی میں لاکھوں دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہا ہے۔◘◘◘◘◘◘

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved