اسلام مثبت طرزِ فکر کا داعی
\حافظ افتخار احمد قادری
مذہب اسلام ایک منفرد اور اخلاقی قدروں کا حد درجہ متحمل مذہب ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے تمام دیگر آسمانی اور غیر آسمانی مذاہب میں ممتاز ہے۔ اس کی قدریں بہت وسیع ہیں۔ ہمدردی، رواداری، اخوت، مساوات، اخلاقی اقدار، نرمی، دل جوئی، احترام اور شفقت و مروت جیسے عناصر اس کے محرکات ہیں۔ اسلام شخصی اور اجتماعی دونوں اصلاحات چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ بظاہر چھوٹے چھوٹے امور جن کو نظر انداز کر دینا عموماً لوگوں کی عادت ہوتی ہے اسلام ان امور کو بھی بڑی اہمیت دیتا ہے۔ اسلام ہمیشہ مثبت طرزِ فکر کا داعی ہے جس کا لازمی نتیجہ کامیابی ہی کامیابی ہوتا ہے۔ ہاں! اصلاح کے دائرہ عمل میں کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر اسلامی تداعی منفی ہیں مگر جب اس امر کی گہرائی میں اتر کر غور و خوض کیا جاتا ہے تو وہاں بھی مثبت پہلو ہی کار فرما نظر آتا ہے اور اس کی تہوں میں اصلاح کے جواہر پاروں کا انبار ملتا ہے۔ قارئین چند اقدار کا سر سری تذکرہ ملاحظہ فرمائیں:
سلام کرنا: یہ اسلامی اخلاقی اقدار کا وہ جامع پہلو ہے جس سے بے گانوں کو بھی اپنا بنایا جاسکتا ہے مگر اسی کے ضمن میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مغرور، متکبر اور نخوت میں ڈوبے ہوئے انسان کو اگر سلام کرنے سے اس کا غرور ترقی کرے گا تو احتیاط کا حکم بھی دیتا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام کا جو مخصوص طرزِ سلام ہے صرف اسی کا حکم دیتا ہے اور غیر اسلامی روش کو اسلام قبول نہیں کرتا نہ ہی کسی سیاسی نہج پر کسی غیر مسلم کو سلام کرنے کی اجازت دیتا ہے کیوں کہ سلامتی صرف صاحب ایمان کا خاصہ ہے۔ ایسی صورت میں اگر کسی سیاسی ضرورت کے پیشِ نظر کسی غیر مسلم کو کوئی سلام کرتا ہے تو اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ ایسا سلام اسلامی روایات و اقدار کی مطابقت نہیں کرتا۔
ہمدردی و رواداری:اسلام ہمدردی و رواداری کو بہت فروغ دیتا ہے۔حتیٰ کہ انسان تو انسان کیڑے مکوڑے اور چوپایوں تک سے ہمدردی کا حکم دیتا ہے۔مگر اسی ضمن میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جہاں سے فتنے بپا ہوں یا جو فتنوں کو ہوا دے اس کے ساتھ کسی بھی رواداری کا قائل نہیں۔کیوں کہ ایسا کوئی بھی فرد جو معاشرے کے اطمینان وسکون کو یا فرد کے اطمینان وسکون کو غارت کرے وہ کسی بھی طرح ہمدردی کے لائق نہیں۔
اخوت و بھائی چارگی: اسلام کا وہ آفاقی دستور ہے جو دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتاہے۔اس میں نسل و رنگ، اونچ نیچ، کالا گورا اور اپنا پرایا نہیں دیکھتا۔استحقاق اور ضرورت جہاں بھی سر ابھارے وہاں مرہم زخم جگر پہنچانے کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات پر اتنا ہماگیر محسوس ہونے لگتا ہے کہ غیر کے احساسات فنا ہو جاتے ہیں۔یہ اس لئے کہ نسل بنی آدم کا محور و مرکز ایک نقطہ پر منتہی ہوتا ہے اور سارے انسان ایک اسٹرکچر کی طرح ہیں کہ اگر ایک عضو کو درد لاحق ہوتا ہے تو سارا بدن متاثر ہو جاتاہے۔اسی طرح درد کی یکسانیت اور تکلیف کی کسک کا درجہ بھی مساوی ہوتا ہے۔اگر اس نقطہ نظر سے کسی مسلمان کی ہم آہنگی نہیں تو اسلام بصورتِ دیگر دوسرے اعتبارات کو ہرگز قبول نہیں کرتا۔ اسلام کی نظر میں ہر چھوٹا بڑا برابر ہے۔ ہاں!برتری ہے تو صرف تقویٰ کی۔ اس کے ساتھ اگر کسی ایسے مقام پر جہاں اس حکمتِ عملی کا نفاذ کسی بھی نہج سے مضر ثابت ہو تو اسلام اس سے باز رکھتا ہے مثلاً کسی چور، زانی، شرابی، قاتل اور فسادی سے بھائی چارگی یا اخوت کا حکم اٹھا دیتا ہے کیونکہ یہ معاشرے کی غارتگری اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ اگر ان سے نرمی کی جائے گی تو مظلوموں کا حق مارا جائے گا۔
امداد باہمی: اسلام اس سے ایک مربوط معاشرہ تشکیل دیتا ہے تاکہ ایک اچھی اور صالح سوسائٹی کے عوامل بھرپور فائدہ حاصل کرسکیں۔اسلام کا نعرہ ہے کہ جب تک مومن اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا رہتا ہے۔ یہ امداد کسی بھی طرح ہو سکتی ہے۔ لسانی، عملی، مالی، اخلاقی اور ذاتی گویا ہر طرح کی امداد کو پروان چڑھا کر معاشرہ کو مستحکم اور مضبوط بنانے کی حکمت عملی پیش کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے افراد یا عناصر جن سے معاشرے میں بدامنی، بد اخلاقی، بدچلنی یا انحطاط لازم آئے ان کا مقاطعہ بائیکاٹ بھی کرتا ہے۔ کیوں کہ پاکیزہ معاشرے کے لئے فاسدہ عناصر کو الگ کر دینا ضروری ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسا کوئی بھی امر جس سے دینی کام کو نقصان ہو اس کی کبھی بھی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی ایسے افراد کی موافقت کرتا ہے۔
ایثار و قربانی: اسلام کا وہ خاصہ ہے جس نے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کو ایک نقطہ پر مرتکز کر دیا ہے۔ یہی وہ جذبہ صادقہ ہے جس نے مردہ دل اور مردہ قوم میں جان اور روح ڈالی ہے۔ اسلام اس امر کا بے حد تحفظ کرتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو ایسے معتدل اور مستقیم راستہ پر ڈالتا ہے جس سے سماجی فساد خود بخود فنا ہو جائے۔ چناچہ ایک جنگ کا واقعہ ہے کہ ایک زخمی مجاہد کو جب پیاس کے غلبہ پر پانی کا پیالہ پیش کیا گیا اور اس مرد مجاہد نے ہونٹوں سے لگاتے ہی کسی دوسرے زخمی مجاہد کی کراہ اور پیاس کی آواز سنی تو ہونٹوں سے لگا ہوا پیالہ اپنے مجاہد بھائی کو پیش کردیا۔ اس طرح پانی کا وہ پیالہ سات مجاہدین پر گردش کرتا ہوا جب پہلے مجاہد کے پاس پہنچا تو اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ لیکن اتنی اہمیت کے باوجود تحفظات کے سرکش عناصر کا قلع قمع بھی کرتاہے۔ ایثار وقربانی کے جذبے ہی کے تحت انسان ایک دوسرے کے قریب ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ ایثار و قربانی کی داستان حقیقی سے لبریز ہے۔
اسلامی شعار کا تحفظ: اسلام اپنے شعائر کا تحفظ چاہتا ہے اور جن باتوں میں اس کا کسی سے اشتراک نہیں ہے اس کو علی الاعلان اور وضاحت کے ساتھ برملا اظہار کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ اسلام کا اپنا ایک الگ تشخص اور اپنی شناخت ہے جو غیروں سے اس کو اور اس کے پیروکاروں کو ممتاز کرتی ہے۔ اس ضمن میں اگر گہری نظر سے تاریخ وسیر کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ابواب ملتے ہیں۔ حضور اقدس صلی للہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنے عماموں کے نیچے ٹوپی پہنو تاکہ غیروں سے ممتاز ہو جائے‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف) دوسرا امتیاز فرمایا کہ ’’تم سحری کھاؤ تاکہ غیروں سے امتیاز بھی حاصل ہو اور روزہ پر تقویت بھی ملے‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف) یہ بظاہر معمولی بات ہے مگر تشخصات کی حفاظت کے لئے وہ سارے امور لازمی حد تک اپنائے جانے کا حکم دیا گیا تاکہ اسلامی اقدار اور تشخص مجروح نہ ہونے پائیں، وضع قطع، چال چلن، گفتگو، رکھ رکھاؤ، رہن سہن، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، لین دین،شادی بیاہ، میل میلاپ اور تشخص و جماعت ہر جگہ اور ہر حال و لحاظ میں اسلامی شعائر کا تحفظ کیا جائے اور اسی کو اپنایا جائے۔غیر اسلامی شعائر اور طور طریقے اپنانے سے اپنے شعائر کی توہین ہوتی ہے۔چنانچہ اسلامی اقدار کی یہ روایات جب تک مسلمان میں زندہ تھیں اس وقت تک اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا اور جب یہ اقدار مجروح ہوئیں اس وقت سے اسلام کی توسیع متاثر ہوگئی۔ اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ اپنے تشخصات و شعائر کے ساتھ ساتھ غیروں کا کوئی شعار یا ان کا کوئی کردار اپنایا جائے،بلکہ سختی سے اس کی تردید کرتا ہے اور بعض حالات میں تو خارج اسلام ہونے کا حکم بھی دیتا ہے۔ مثلاً ایک مسلمان تمام اسلامی روایات اور اقدار کو بجا لانے کے ساتھ ساتھ اگر کسی چرچ میں مریم کی تصویر کو سجدہ کرتا یا کسی مندر میں جاکر گھنٹہ بجاتا ہے تو اسلام اس عمل کو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ایسے افراد کو اسلامی حدود سے خارج کر دیتا ہے۔
مصنوعی یا دکھاوے کا عمل: ایسے افعال واعمال کو اسلام منافقت قرار دیتا ہے۔کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ہر ایسا عمل جو داخل کے مطابق ہو وہی قابلِ قبول ہے۔اگر خارج کا کردار داخل کے کردار سے میل نہیں کھاتا تو ایسے تمام اعمال کو عمل کے زمرے سے خارج کر دیتا ہے۔چونکہ خارج ہی داخلی محرکات کا آئینہ ہوتا ہے۔خود اسلام کا نقطئہ نظر اس کو قرآن مجید میں واضح کرتا ہے:،،اے ایمان والو!جو تم کرتے نہیں ہو اس کو کیوں کہتے ہو؟،،یہ بات الله رب العزت کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے کہ وہ کہو جو نہیں کرتے ہو۔کسی بھی سیاسی منظر نامے میں یہ فکر ایک چیلنج کی شکل میں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔فرد سے لے کر انجمن تک،داخل سے لے کر خارج تک،مذہب سے لے کر سیاست تک، عبادت سے لے کر تجارت تک ہر جگہ اسلام اس حقیقت کو ایک حتمی شکل دیتا ہے اور عملی جامہ پہناتا ہے۔اسلام کے نزدیک وہ عمل قابلِ قبول ہے جو داخل کی ترجمانی کرتا ہو،ورنہ بصورتِ دیگر ایسے ہر عمل کو قابلِ جزا نہیں قرار دیتا بلکہ اس کو ضائع کر دیتا ہے اور بعض صورتوں میں سزا کی وعید بھی سناتا ہے تاکہ اسلامی اصلاح سبوتاژ ہونے سے محفوظ ہو جائے۔یہ چند گوشے تھے جن کو سر سری طور پر آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ابھی ایک دفتر وسیع ہے اگر مسلمان اس کو سمجھے اور عمل کرے تو نہ صرف اللہ رب العزت کے حضور خود کو سر خرو کرے گا بلکہ خود کو مطمئن بھی۔مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ اس تحریر کے جتنے بھی مشمولات پیش کیے گئے ہیں وہ صرف اور صرف اسلامی اقدار اور مسلمان کے آئینے میں ہیں۔◘◘◘
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org