قرآنی آیات کی روشنی میں
مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
سورۂ اسرا میں ہے: وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۠ خَلْقًا جَدِيْدًا۰۰۹۸ [سورۂ اسرا: 95]
یعنی کافروں نے کہا: جب ہم بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہوجائیں گےاور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیادوبارہ اٹھاۓ جائیں گے؟
سورۂ مریم میں ہے: وَ يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَيًّا۰۰۶۶ [سورۂ مریم: 66]
یعنی کافر کہتا ہے: کیا میں مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا؟
سورۂ مومنون میں ہے:قَالُوْۤا ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۠۰۰۸۲ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا هٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۰۰۸۳ [سورۂ مومنون:83-84]
اسی طرح سورۂ نمل میں ہے:وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَىِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ۰۰۶۷ لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۰۰۶۸۔[سورۂ نمل:67-68]
یعنی کافروں نے کہا: کیا ہم مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ نکالے جائیں گے، یہ وعدہ ہم سے اور ہم سے پہلے ہمارے آبا وجداد سے بھی ہوا تھا، یہ تو محض اگلوں کی کہانیاں ہیں۔
سورہ ٔ الم سجدہ میں ہے:وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ١ؕ۬ بَلْ هُمْ بِلِقَآئِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ۰۰۱۰۔ [ الم سجدہ: 10]
یعنی کیا ہم مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ پیدا کیے جائیں گے؟ بلکہ یہ لوگ اپنے رب کے حضور حاضری کے منکر ہیں۔
سورۂ صافات میں ہے: ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۠ۙ۰۰۱۶ اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۰۰۱۷[سورۂ صافات: 16-17]
جب ہم مٹی اور ہڈیوں میں بدل جائیں گے تو دوبارہ زندہ کیے جائیں گے،کیا ہمارے آبا واجداد بھی قبروں سے اٹھائے جائیں گے؟
سورۂ دخان میں ہے:اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ لَيَقُوْلُوْنَۙ۰۰۳۴ اِنْ هِيَ اِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُنْشَرِيْنَ۰۰۳۵ [سورۂ دخان: 34-35]
یعنی کفار کہتے ہیں: ہماری یہی پہلی موت ہے، اس کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جاۓگا۔
سورۂ جاثیہ میں ہے: وَ قَالُوْا مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُ۰۰ [سورۂ جاثیہ : 24]
کفار نے کہا: بس ہماری یہی دنیاوی زندگی ہے، مرتے اور جیتے ہیں،اور بجز زمانہ کے ہمیں کوئی نہیں مار سکتا۔
سورۂ واقعہ میں ہے: وَ كَانُوْا يَقُوْلُوْنَ١ۙ۬ اَىِٕذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۠ۙ۰۰۴۷ اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۰۰۴۸۔ [ واقعہ: 47- 48]
یعنی جب ہم مٹی اور ہڈی بن جائیں گے تو ہم اٹھاۓجائیں گے، اسی طرح ہمارے آبا واجداد دوبارہ اٹھاۓ جائیں گے؟
سورۂ نازعات میں ہے: يَقُوْلُوْنَ ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ۠ فِي الْحَافِرَةِؕ۰۰۱۰ ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةًؕ۰۰۱۱ قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ۰۰۱۲ [سورۂ نازعات:10-12]
یعنی کفار کہتے ہیں: جب ہم گلی ہوئی ہڈیوں میں بدل جائیں گے تو دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟ یہ تو بڑے خسارے کی واپسی ہوگی۔
اس طرح بے شمار مقامات پر قرآن کریم نے کفار کے اس باطل نظریہ کا ذکر کیا کہ دنیا کی زندگی ہماری پہلی اور آخری زندگی ہے، اس کے بعد نہ ہمیں زندہ کیا جاۓگا، نہ ہی کسی قسم کا کوئی محاسبہ ہوگا، بعث کی مثال قدیم زمانے کی کہانیوں کی سی ہے،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں؛ اسی لیے بعث بعد الموت کا عقیدہ قابل التفات نہیں۔
قرآن کریم نے منکرین بعث کےاس غلط اور بے بنیاد نظریہ کا پر زور رد کیااور ان کے اعتراضات کا معقول اور تشفی بخش جواب عطا فرمایا۔
قرآن کریم کے بیان کردہ جوابات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بعث بعد الموت کے ناممکن ہونے کی دو ہی وجہیں ہوسکتی ہیں،ایک وجہ تو یہ ہوگی کہ مرجانے کے بعد خاک میں مل جانے والے یا کسی بھی طرح ضائع ہوجانے والے اجزا کا علم نہ ہو تو ایسی صورت میں بعث محال ہوگا، دوسری وجہ یہ ہوگی کہ ضائع ہونے والے اجزا کا علم تو ہو لیکن بعث پر قدرت نہ ہو تو ایسی صورت میں بھی بعث محال ہوگا، بس انھی دو وجوہات کی بنیاد پر بعث نا ممکن ہوگا، ان کے علاوہ بعث کے محال یا نا ممکن ہونے کی اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
اس حقیقت کوجان لینے کے بعد جواب بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے کہ جن دو بنیادوں پر بعث کے عدم امکان کا معاملہ موقوف ہےوہ دونوں ہی چیزیں خدا کے حق میں منتفی ہیں، کیوں کہ اللہ کے علم محیط سے کائنات کا کوئی ذرہ باہر نہیں، مزید یہ کہ اللہ ہر ممکن شےپر قادر ہے؛ لہٰذا بعث بعد الموت ممکن اور ثابت ہے، قرآن کریم نے انھیں دو شقوں کی تقدیر پر بعث کا اثبات کیا ہے، کہیں پہلی شق کی تقدیر پر، کہیں دوسری شق کی تقدیر پر اور کہیں دونوں شقوں کی تقدیر پر بعث کو ثابت کیاہے، ذیل میں اس کی قدرے تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
اللہ کومردوں کے احوال کاعلم ہے:
اللہ عزوجل کو بشمول بعث ہر شے کا علم ہے، وہ اپنے بندوں کے تمام احوال سے باخبر ہے، مرنے کے بعد خاک میں ملنے والے اور صحیح وسالم باقی رہنے والے تمام بندوں کو جانتا ہے؛ لہٰذا اس کے لیے بعث انتہائی آسان کام ہے، جب چاہے گا قیامت قائم فرمائے گا،بعث کے بعد سب کو حساب وکتاب کے لیے اپنے حضور کھڑا کرے گا، ارشاد باری ہے:
ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا١ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيْدٌ۰۰۳ قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْهُمْ١ۚ وَ عِنْدَنَا كِتٰبٌ حَفِيْظٌ۰۰۴ [سورۂ ق :3-4]
یعنی کفار کہتے ہیں کہ جب ہم مرجائیں گے اور مٹی بن جائیں گے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟ یہ تو بہت دور کا بعث ہے، اللہ فرماتا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ زمین ان کے جسموں میں کیا کمی کررہی ہے، ہمارے پاس ایک محفوظ نوشتہ ہے، ہم انھیں دوبارہ زندہ کردیں گے۔
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں بعث اسی وقت محال یا مستبعد ہوگا جب مردے کے جسم سے ضائع ہونے والے اجزا کا علم نہ ہواور اللہ عزوجل کی شان یہ ہے کہ اس کے علم محیط سے کائنات کا کوئی ذرہ خارج نہیں، وہ جسم کے برباد شدہ اعضا اور ان کے تمام اجزا کو جانتا ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ زمین بندے کے جسم سے کیا کھارہی ہےاور کتنی کمی کر رہی ہے، جب اسے ہر شے کا علم ہے تو وقت موعود پر سارے اعضا کو یکجا کرے گا،سب کو زندہ کرے گا، پھر اولین وآخرین کو حساب وکتاب کے لیے اپنے حضور حاضر کردے گا۔
مذکورہ بالا آیت کے مطابق بعث بعد الموت کا انکار اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب یہ مان لیا جائے کہ اللہ کو اس کی مخلوق کے اعضا وجوارح کا علم نہیں،اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک کو ہر خشک وتر کا علم ہے؛ لہٰذا بعث ہوگا۔
ایسے قوی دلائل کے ہوتے ہوئےبعث کا انکار صریح جہالت، بلکہ تعنت اور سر کشی ہے
اللہ بعث پر قادر ہے:
اللہ عزوجل بشمول بعث ہر شے پر قادر ہے،جس طرح پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے ویسے ہی دوبارہ پیدا کرنے بھی قادر ہے، فرمایا:
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗؕ۰۰۳ بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰۤى اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ۰۰۴[سورۂ قیامہ :3-4]
کیا کافر یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کریں گے، کیوں نہیں ؟ ہم اس کی انگلیوں کے پور درست کرنے پر قادر ہیں۔
انسانی جسم میں انگلیاں اور ان انگلیوں کی ہڈیاں انتہائی چھوٹی ہوتی ہیں، جو رب جسم انسانی کے چھوٹے چھوٹے اعضا، ان میں جڑی پتلی پتلی ہڈیوں اور نازک ترین رگوں کو دوبارہ بنانے پر قادر ہے وہ گوشت، پوست، عضلات، پٹھے اور ہڈیوں سمیت پورا جسم بناکر دوبارہ زندگی دینے پر بھی قادر ہے؛ لہٰذا قیامت کے دن دوسری دفعہ صور پھونکنے کے بعد سب کو قبروں سے اٹھایا جائے گا۔اور ان سے حساب وکتاب کے معاملات کیے جائیں گے۔
اس آیت کی روشنی میں بعث بعد الموت کا انکار اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب اللہ کے لیے کسی بھی ممکن پر قدرت ثابت نہ ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہر شےپر قادر ہے،لہٰذا بعث پر بھی قادر ہے۔
ان دلائل کی روشنی میں بعث کا انکار اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ سے انکار ہےاور اپنی دنیا و آخرت کو تباہ وبربادکرنے کے مترادف ہے۔
اللہ مردوں کے احوال سے با خبر اور ان کے بعث پر قادر ہے
گزشتہ سطور میں یہ بتا یا گیا کہ بعث کے لیے علم بھی ضروری ہے اور قدرت بھی اور اللہ عزوجل کے لیے علم وقدرت دونوں ثابت ہیں؛ لہٰذا بعث حتمی اور یقینی ہے، قرآن کریم نے ان دونوں دلیلوں کو ایک مقام پر بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ جمع کیا اور فرمایا:
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِيَ خَلْقَهٗ١ؕ قَالَ مَنْ يُّحْيِ الْعِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْمٌ۰۰۷۸ قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِيْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيْمُ۰۰۷۹ [سورۂ یٰس: 78-79]
اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی ہی تخلیق کو بھول گیا، پوچھتا ہے: بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرےگا؟ فرمادو: جس نے انھیں پہلی دفعہ پیدا کیا وہی دوبارہ بناۓگااور اسے ہر مخلوق کی پیدائش کا علم ہے۔
ان آیات مبارکہ میں علم وقدرت دونوں کا ذکر ہے،فرمایا کہ جو رب پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہےاور جو رب اپنے بندوں کی پہلی تخلیق کا علم رکھتاہے وہ بدرجۂ اولی دوسری تخلیق کا بھی علم رکھتا ہےاور بعث کی بنیاد انھی دو چیزوں پر قائم ہے، جب یہ دونوں چیزیں ثابت ہیں تو بعث بھی ثابت ہے۔
ان تمام آیات کا خلاصہ یہی ہے کہ اگر اللہ کو مخلوق کے ضائع شدہ اجزا کا علم نہ ہوتا ،یا اللہ انھیں دوبارہ بنانے پر قادر نہ ہوتا تو بعث محال اور ناممکن ہوتا، لیکن اللہ کو ہر خشک وتر کا علم ہےاور وہ ہر شےپر قادر بھی ہے؛ لہٰذا بعث ہوگا، یقیناً ہوگا، اور سارے اولین وآخرین کا ہوگا۔
منکرین بعث کو تہدید:
ہر زمانے میں کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں جنھیں دلائل کی زبان سمجھ میں نہیں آتی، ان کے لیے زجر وتوبیخ کی زبان ہی موثر ہوتی ہے، زمانۂ نزول قرآن میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں تھی، قرآن کریم نے جہاں ان کو وعظ ونصیحت اور تذکیر وارشاد کی زبان میں سمجھایا وہیں ان کے لیے زجر وتوبیخ کا بھی اسلوب اختیار فرمایااور ان کو ایسی تہدید فرمائی کہ آج بھی ان آیات کو پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے، جسم پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے، زبان سکتے میں آجاتی ہے اور بے اختیار سجدے میں سر رکھ کر اللہ کی عظمت وکبریائی بیان کرنے کو جی چاہتا ہے، دیکھیں، سورۂ اسرا کی ان آیات کا تیور دیکھیں،اور اللہ کے قہر وجلال اور غیظ و غضب سے اس کی پناہ مانگیں، فرماتا ہے:
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۠ خَلْقًا جَدِيْدًا۰۰۴۹ قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِيْدًاۙ۰۰۵۰ اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِيْ صُدُوْرِكُمْ١ۚ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ مَنْ يُّعِيْدُنَا١ؕ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ۚ فَسَيُنْغِضُوْنَ۠ اِلَيْكَ رُءُوْسَهُمْ وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هُوَ١ؕ قُلْ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا۰۰۵۱ [سورۂ اسرا: 49-51]
کفار نے کہا: جب ہم بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہوجائیں گےاور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟ اللہ فرماتا ہے: تم پتھر ہوجاؤ، لوہا ہوجاؤ، یا ایسی چیز ہوجاؤ جو تمھارے خیال میں بہت بڑی ہو، پھر کافر پوچھیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرےگا، تو اے محبوب! فرمادو: جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا وہی دوبارہ بناۓگا۔
یعنی چند بوسیدہ ہڈیوں کا کیا تماشا بنائے ہوۓ ہو، فرض کرو تم مرنے کے بعد لوہا ہوگئے، پتھر ہوگئے، یا ایسی عظیم چیز بن گئے، جس میں زندگی کبھی بھی نہیں آسکتی مثلاً بادل بن گئے، یا کوئی دھات بن گئے، پھر ہم عقیدۂ بعث پیش کریں گےاورتم سوال کرو گےکہ ہمیں دوبارہ بنائے گا؟ اس لوہےیا پتھر میں زندگی کی حرارتیں کون بحال کرے گا؟ تو ایسوں کے لیے ہمارا جواب یہی ہوگا کہ جس نے تمھیں پہلے پیدا کیا وہی دوبارہ بناۓ گا، اس لیے کہ:
وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِي السَّمَآءِ١ٞ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍ۰۰۲۲ [ سورۂ عنکبوت: 22]
یعنی تم آسمان وزمین میں اللہ کو عاجز وناکام نہیں بنا سکتے، اس لیے اسی کا حکم مانو، ورنہ تمھارا کوئی معاون ومددگار نہیں ہوگا۔
بعث کے نا ممکن ہونے پر جتنے دلائل ہوسکتے ہیں قرآن کریم نے سب کی نفی کردی، اور واضح فرمادیاکہ ہم اللہ عزوجل کے وسیع علم اور لامتناہی قدرتوں پر ایمان رکھیں،اور ہر طرح کے شکوک و شبہات ، اور اوہام وخرافات سے بالا تر ہو کر عقیدۂ بعث کوتسلیم کرلیں۔
بعث بعد الموت پر دلائل:
اب آئیے دلائل کی جانب بڑھتے ہیں اور اثبات بعث کے سلسلے میں قرآنی دلائل پر غور کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اثبات بعث کے سلسلے میں دو طرح کے دلائل پیش کیے ہیں۔
۱ - نظری اور عقلی دلائل۔ ۲- حسی اور مشاہداتی دلائل۔
عقلی دلائل کی ایک لمبی فہرست ہےاور ان میں بیش تر دلائل ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے تحت مندرج ہوسکتے ہیں، لیکن قرآن کریم نے سب کو علاحدہ علاحدہ ذکر کیا ہے، اسی لیے ہم بھی سب کو علاحدہ علاحدہ ذکرکریں گے۔
پہلی دلیل: اللہ نے کسی بھی چیز کو عبث نہیں بنایااور اس کی یہ شان نہیں کہ کسی کو عبث یا لغو پیدا کرے، اس کی ہر تخلیق کے پیچھے ہزاروں حکمتیں کار فرما ہوتی ہیں،اور ہر مخلوق سے بے شمار اغراض ومقاصد وابستہ ہوتے ہیں، تخلیق انسان کا بھی ایک عظیم مقصد ہےاور وہ ہے: اللہ کی عبادت و بندگی، جو عبادت کرتے ہیں وہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گےاور جو عبادت نہیں کرتے وہ درد ناک عذاب کے مستحق ہوں گے، اگر بعث قائم نہ ہو، حساب وکتاب کے مراحل نہ ہوں،اور جنت ودوزخ کے فیصلے نہ ہوں تو تخلیق انسان کا کوئی مقصد ہی نہیں رہےگا،اسی لیے بعث کا ہونا ضروری ہے؛ تاکہ ہر انسان کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جاسکے، اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى۰۰۳۶ [سورۂ قیامہ :36]
کیا انسان اس گمان میں ہے کہ اسے بے کار چھوڑ دیا جاۓ گا۔
نہیں، بے کار نہیں چھوڑا جاۓ گا، بلکہ ہر انسان کا بعث ہوگااور اسےسزاوجزا کےمراحل سے گزارا جاۓگا۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۰۰۱۱۵ فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ۰۰۱۱۶ [سورہ ٔمومنون :116]
کیا تم نے یہ گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں عبث پیدا کیا ہےاور تمھیں ہماری طرف نہیں لوٹنا ہے، اللہ کی شان اس سے بلند ہے کہ وہ کسی چیز کو لغو پیدا کرے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش عظیم کا رب ہے۔لہٰذا بعث ہوگااور اچھے برے اعمال کے اعتبار سےسب کو بدلہ دیا جائے گا۔
دوسری دلیل: اللہ ہر شے پر قادر ہے اور بعث بھی ایک شے ہے؛ لہٰذا اللہ بعث پر بھی قادر ہے، اللہ ہرفعل پر قادر ہےاور بعث بھی ایک فعل ہے ؛ لہٰذا اللہ بعث پر بھی قادر ہے، سورۂ رعد اور سورۂ ق میں اللہ جل وعلا نے بہت سے مظاہر قدرت بیان کیے اور اخیر میں فرمایا کہ جو ان امور پر قادر ہے وہ بعث پر بھی قادر ہے۔ سورۂ رعد کی ابتدائی آیات میں فرمایا:
اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ۰۰۲ وَ هُوَ الَّذِيْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ وَ اَنْهٰرًا١ؕ وَ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۰۰۳ وَ فِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ١۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۰۰۴
ان آیات میں یہ بتایا گیا کہ اللہ نے بغیر ستون کے آسمان بناۓ، اللہ نے چاند وسورج کو مسخر کیا، اللہ نے زمین کو پھیلایااور اس میں پہاڑ اور نہریں بنائیں، اللہ نے ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے بناۓ، اللہ نے انگور کے باغات بناۓ، کھیت اور کھجور کے درخت اگاۓاور حیرت کی بات یہ ہے کہ سب ایک پانی سے سیراب ہوتے ہیں ، لیکن سب کا مزہ الگ الگ ہے،جو رب ان تمام چیزوں پر قادر ہے ، کیا وہ ایک بعث ہی پہ قادر نہیں؟ جب ہر جگہ اس کی قدرت پر یقین رکھتے ہو تو بعث کے باب میں انکار کیوں کرتے ہو؟ اسی لیے ان آیات کے معاً بعد منکرین بعث کے انکار پر حیرت واستعجاب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ١ؕ۬ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ الْاَغْلٰلُ فِيْۤ اَعْنَاقِهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۰۰۵[سورۂ رعد: 5]
اگر تمھیں تعجب ہوتاہے تو کفار کے اس سوال پر تعجب ہونا چاہیے کہ جب ہم مٹی میں تحلیل ہوجائیں گے تو کیا دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟ ایسے افراد اپنے رب کے منکرہیں، ان کے گلوں میں لعنت کا طوق ہے، ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہی ان کا دائمی گھر ہے۔
اسی طرح اللہ عزوجل نے سورۂ ق کی ابتدائی آیات میں فرمایا:
اَفَلَمْ يَنْظُرُوْۤا اِلَى السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنٰهَا وَ زَيَّنّٰهَا وَ مَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ۰۰۶ وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيْجٍۙ۰۰۷ تَبْصِرَةً وَّ ذِكْرٰى لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ۰۰۸ وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الْحَصِيْدِۙ۰۰۹ وَ النَّخْلَ بٰسِقٰتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيْدٌۙ۰۰۱۰ رِّزْقًا لِّلْعِبَادِ١ۙ وَ اَحْيَيْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا١ؕ كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ۰۰۱۱[ سورۂ ق:6-11]
ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ بعث بہت دور کی بات ہے، اللہ فرماتا ہے: کیا انھوں نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا کہ ہم نے کیسے آسمان بنایا اور اسے کیسے آراستہ کیااور اس میں کوئی شگاف نہیں رکھا۔کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے کیسے زمین پھیلادی،اس میں لنگر انداز پہاڑ نصب کیےاور اس میں ہر قسم کے خوش نما پودے اگاۓ۔ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے آسمان سے بابرکت پانی اتارا،اسی سے باغات بناۓ، غلے تیار کیے ،بلند ترین کھجور کے درخت اگاۓاور اسی برستے پانی سے کتنی خشک زمینوں کو سر سبز وشاداب کردیا۔جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ سب کچھ کیا، ایسے ہی بعث بھی ہوگا، چشم زدن میں سارے بندے اپنی اپنی قبروں سےنکل پڑیں گےاور موقف حساب میں جمع ہوجائیں گے۔
ان دونوں آیات کا مآل یہ ہے کہ جب اللہ ہر شے پر قادر ہے تو بعث پر بھی قادر ہے۔ جاری۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org