21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia October 2024 Download:Click Here Views: 4639 Downloads: 543

(3)-آپ کے مسائل

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ دین/سوال آپ بھی کر سکتے ہیں

مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی

طریقت کی نماز کیا ہے؟

سوال : بعض پیر حضرات اپنے مریدوں کو نماز کے متعلق یہ بتاتے ہیں کہ طریقت کی نماز الگ ہے تو کیا واقعی ایسا ہے؟

جواب: ان کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ طریقت کی نماز الگ ہوتی ہے اگر چہ اس کلام کی توجیہ ہو سکتی ہے مگر آپ پر یہ بات واضح رہے کہ طریقت ، شریعت  سے جدا نہیں ہے ۔ بلکہ جو شریعت ہے وہی طریقت ہے، تو شریعت کی نماز الگ اور طریقت کی نماز الگ کیسےہو سکتی ہے ؟ جیسے جیسے آدمی شریعت پر عمل کرتا ہے اس کے اندر کمال پیدا ہوتا جاتا ہے اس کمال کا نام طریقت ہے ، آج آپ جو نماز پڑھ رہے ہیں یہ شریعت کے مطابق ہے اب اگر نماز اس قدر خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے لگیں کہ محسوس ہو کہ میرا خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے اور دل ادھر ادھر بھٹکنے نہ پائے تو یہ سمجھ لیں کہ یہ طریقت کی ابتدا ہے اور اگر یہ محسوس ہو کہ گویا آپ خدا کو دیکھ رہے ہوں تو آپ کی نماز اور کامل ہو گئی اور یہی طریقت والی نماز ہو گئی ۔ لہذا طریقت کی نماز وہی ہے جو شریعت کی نماز ہے۔ فرق یہ ہے کہ جب بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی نماز بہت کامل ہوتی ہے بہ نسبت عام انسانوں کے کہ ان کی نماز میں اس قدر کمال نہیں ہوتا۔

اس کو ایک دوسری مثال سے یوں سمجھیں کہ آپ نے ایک چراغ جلایا، چراغ بہت ہلکا جل رہا تھا۔ روشنی اس کی ہلکی تھی، آپ نے بھی ذرا تیز کی، روشنی اور بڑھی، پھر اور تیز کی اب روشنی خوب تیز ہوگئی۔ اب آپ کہیں کہ چراغ کی روشنی الگ ہے اور یہ روشنی الگ ہے تو ایسا نہیں ہے کیوں کہ اگر آپ اس کو پھونک ماریں گے تو ایسا نہیں ہے کہ یہ چراغ والی روشنی ختم ہو جائے گی اور وہ تیز روشنی باقی رہ جائے گی۔ بلکہ پوری روشنی ہی ختم ہو جائے گی اس لیے کہ اگر چراغ کی روشنی نہیں ہوتی تو روشنی میں کمال  کہاں سے آتا ۔ بتی بڑھانے سے جس روشنی میں کمال پیدا ہو رہا ہے، وہ وہی روشنی ہے جو چراغ سے نکلی ہوئی ہے اگر وہ روشنی نہ ہوتی توبتی بڑھانے سے بھی کمال پیدا نہیں ہوتا۔ شریعت کی مثال  ”بتی“  کی مثال ہے کہ شریعت پر عمل بڑھتا گیا تو اس میں کمال آتا گیا اور یہی کمال طریقت ہے لیکن اس منزل پر پہنچ کر کوئی شریعت کا دامن چھوڑوکہ اب تو وہ کامل ہو گیا اور یہ سوچے کہ شریعت الگ ہے اور طریقت الگ، تو پھر وہ جہل کے گہرے اندھیروں میں ہو گا اور شریعت کے نور سے محروم ہو چکا ہو گا۔ الغرض اگر پیر صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طریقت شریعت سے الگ ہے تو جھوٹ ہے ، غلط ہے۔ اور اگر میں نے جو وضاحت کی وہ مراد ہے تو صیح ہے مگر لوگوں کے سامنے ایسی بات نہ بیان کی جائے جس سے انھیں وحشت ہو اور کچھ کا کچھ سمجھ جائیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

داڑھی منڈانے کا حکم اور داڑھی منڈے کی نماز

 سوال: داڑھی منڈے کی نماز ہوتی ہے یا نہیں، اس کی امامت صحیح ہے یانہیں؟

جواب: میرے بھائی ! نماز ہویا نہ ہو ،پہلے آپ کو یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ داڑھی منڈانا جائز ہے یا نہیں ؟ تو سب سے پہلے اسے جانیے کہ داڑھی منڈانا حرام و گناہ ہے۔ حضور سید عالم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیشہ داڑھی رکھی اور کبھی کٹا کر ایک مشت سے کم نہ کرائی۔ داڑھی بڑھانا انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا بھی طریقۂ حسنہ رہا ہے۔حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

خالفوا المشركين، أفروا اللحىٰ واحفوا الشوارب. (صحیح البخاری، باب تقلیم الاظفار، ص:۸۷۵)

مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔

دوسری حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لكِن رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُخْفِيَ شَارِبِي وَأُعْفِيَ الحَنِي. (فتویٰ رضویہ، جلد۹، ص:۱۲۸،بحوالہ طبقات ابن سعد)

مجھے میرے رب نے حکم فرمایا کہ اپنی مونچھیں پست کرو اور داڑھی بڑھاؤ۔ تو داڑھی منڈانا انبیاے کرام بالخصوص حضور سید الانبیا علیہم الصلوات والتسلیمات کے اسوہ اور آپ کے فرمودات کی مخالفت و نافرمانی ہے اور حرام کام کے اظہار واشتمال کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ تحریمی ہوا کرتی ہے اس لیے ایسا آدمی اگر نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوگی ، اس نماز کو دہرانا ضروری ہوگا۔

شامی میں ہے: كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها.(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج:۲، ص:۲۹۷)

ہر نماز جو مکروہ تحریمی ہو اس کا اعادہ واجب ہے۔ اور اس آدمی کو امام بنانا نا جائز ہوگا۔ لہذا ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے اور اس کو امام نہ بنایا جائے۔

غنیہ میں ہے:ولو قدموا فاسقاً يا ثمون بناء علی ان کراہۃ تقدمہ كراہۃ تحريمۃ.

اگر لوگوں نے فاسق کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا تو وہ گنہگار ہوں گے کیوں کہ اسے آگے بڑھانا مکروہ تحریمی ہے ۔ رہ گئی یہ بات کہ خود داڑھی منڈے کی اپنی نماز کا کیا حال ہے ؟ تو عرض ہے کہ ایک دلیل کے پیش نظر اس کی اپنی نماز صحیح ہے اور آج کے دور میں آسانی کے لیے یہ بندۂ عاجز ہی کو اختیار کرتا ہے ورنہ خطرہ ہے کہ وہ اپنی اصلاح کے بجاے نماز ہی نہ چھوڑ بیٹھے ، ہاں اس کی اصلاح کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ واللہ تعالی اعلم

مسبوق کا مکبر بننا کیسا ہے

سوال : کیا مسبوق مکبر بن سکتا ہے ؟

جواب: مسبوق (وہ مقتدی جس کی  شروع کی ایک رکعت یا ایک سے زائد رکعتیں چھوٹ گئی ہوں) مکبر بن سکتا ہے لیکن اس کو بچنا چاہیے اور ایسے شخص کو مکبر بنناچا ہیے جو شروع نماز سے امام کے ساتھ رہے۔ ہر آدمی کو مکبر بننا بھی نہیں چاہیے ، بلکہ اس کو بنا چاہیے جس کو نماز کے مسائل ٹھیک سے یاد ہوں۔ کیوں کہ جو لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں اور جنھیں مسائل معلوم نہیں ہوتے وہ جب تکبیر کہتے ہیں تو کچھ صورتوں میں نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ اس لیے جن لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی جائے وہی تکبیر کہیں اور جو شروع ہی سے شامل نماز ہو وہ کہے ۔ یہ تکبیر حضرت سیدنا صدیق اکبر ہی کی سنت کریمہ ہے اور وہ بڑے زبر دست عالم و فقیہ، بلکہ انبیاے کرام کے بعد مسلمانوں میں سب سے زیادہ علم و فضل والے تھے اور جس نماز میں انھوں نے تکبیر کہی، اس میں شروع سے ہی شریک نماز تھے۔ تو جو شخص آپ کا نائب ہو یعنی صاحب علم و فضل ہو وہ اس لائق ہے کہ مکبر بنے، اس لیے مسائل نماز سے واقف علما، حفاظ ، قرا، اس منصب کے زیادہ حق دار ہیں اور ان ہی کو یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ واللہ تعالی اعلم

فجر کی جماعت کا ایک مسئلہ

سوال : زید کہتا ہے کہ فجر کی نماز میں جماعت کے وقت قراءت سننا واجب ہے جب کہ کچھ لوگ اس وقت فجر کی سنت ادا کرتے ہیں تو یہ کہاں تک درست ہے ؟

جواب: ہر جہری نماز میں جب امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہو تو اس کو جو سن رہا ہو، غور سے سننا واجب ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ اور جو لوگ دور ہوں سن نہ پارہے ہوں اور امام کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہوں ، ان پر خاموش رہنا فرض ہے ۔حدیث پاک میں خاص سنت فجر کے تعلق سے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

مسلم شریف میں ہے:

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا، عن النبي ، قال: ركعتا الفجر خير عن  من الدنيا وما فيہا.(الصحيح لمسلم، كتاب الصلاۃ، باب استحباب ركعتی سنۃ الفجر ، ج : ١ ص: ٢٥١.(

اس لیے ہمارے علما فرماتے ہیں کہ اگر جماعت فجر قائم ہوگئی اور کوئی تاخیر سے پہنچا اورا بھی اس نے سنت فجر ادا نہیں کی ہے تو جماعت سے دور کہیں مسجد کے کنارے کونے میں کھڑا ہو کر سنت فجر ادا کرے اور اس کے بعد اگر جماعت میں شامل ہو جائے ۔ ” جماعت سے دور مسجد کے کنارے “ پڑھنے کی تاکید اسی لیے ہے تاکہ جماعت کی مخالفت اور استماع قراءت کے ترک سے بچے۔ واللہ تعالی اعلم

اقامت کے بعد امام کا بات چیت کرنا کیسا ہے؟

سوال : اقامت کے بعد امام صاحب کسی سے بات کر سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب: نہیں ، اقامت کے بعد وہ کسی سے بات نہیں کر سکتے ، بلکہ اقامت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب نماز قائم ہو گئی شروع ہو گئی، اور نماز میں بات چیت کر نامنع ہے۔ اس لیے انھیں فوراًنماز شروع کر دینی چاہیے ، اور دنیا کی بات میں نہیں لگنا چاہیے ، لیکن اگر کسی مجبوری کے تحت ایک یا دو لفظ بول دیا، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر بات نماز کے تعلق سے ہے تو اس کی اجازت ہے ، کیوں کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اقامت کے بعد صفوں کو سیدھی کرنے کا حکم دیتے ، مگر صفوں کا درست کرنا نماز ہی سے ہے، دنیا کی بات نہیں۔ واللہ تعالی اعلم

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved