تفہیمِ قرآن
دوسری قسط
قرآنی آیات کی روشنی میں
مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
ان آیات بینات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی پیدائش کے فوراً بعد ہونے والے سب سے پہلے خطاب میں اپنی قوم کو حقیقت بعث سے آگاہ فرمادیااور انھیں روز آخرت کی تیاری کی دعوت دی۔
مختصر یہ کہ حضرت آدم سے حضرت عیسی تک آنے والے تمام انبیاے کرام اور رسلانِ عظام علیہم الصلاۃ والسلام اپنی اپنی امتوں کو عقیدۂ بعث سے آگاہ کرتے رہےاور انھیں روز آخرت کی تیاری کی دعوت دیتے رہے، ان تمام انبیاے کرام کے بعد سید المرسلین، خاتم النبیین، امام الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ساری کائنات کے رسول بن کر تشریف لاۓاور پوری دنیاے انسانیت کو اس بات کا درس دیا کہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزا، جب سارے افراد اپنی مقررہ زندگی گزار لیں گے تو دنیا تباہ ہوجاۓگی، اسی کو قیامت کہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا سب کو زندہ فرماۓ گا، اسی کو بعث کہتے ہیں، اسی بعث کے بعد حساب وکتاب اور ثواب وعقاب کے معاملات ہوں گےاور جنت ودوزخ کے فیصلے ہوں گے۔
بعث آخرت کی بنیاد ہے، بعث کے بغیر آخرت کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا، اسی لیے جو روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے بعث پر بھی ایمان لانا ہوگا، ورنہ آخرت پر ایمان کا کوئی مطلب نہیں رہ جاۓ گا۔
انبیاے سابقین کے بعد حضور اکرم ﷺنے اپنی قوم کو عقیدۂ بعث سے آگاہ فرمایااور انھیں اس حقیقت سے با خبر کیاکہ جس رب نے ساری کائنات بنائی،اورجو ہر شے پر قادر ہے وہ یقیناً بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے؛ لہٰذا ہر بندے پر ضروری ہے کہ وہ بعث پر ایمان لاۓاور آخرت کو برحق مانتے ہوئے اللہ کے حضور حاضری کی تیاری کرے،ارشاد باری ہے:
كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ١ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ۰۰۲۸۔ [سورۂ بقرہ :28]
یعنی بھلا تم کس طرح اللہ کا انکار کروگے؟ تم بے جان تھے تو اس نے زندہ کیا،پھر تمھیں موت دے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹاۓ جاؤگے۔
مشرکین عرب حقیقت بعث اور تصور بعث سے یکسر نا آشنا تھے، اسی لیے جب انھوں نے رسول اللہ ﷺسےبعث بعد الموت کا ذکر سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا سے ایسی کوئی بات نہیں سنی؛ لہٰذا ہم بعث بعد الموت کو نہیں مانتے، قرآن کریم میں ہے:
زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا١ؕ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ۔ [سورۂ تغابن:7]
یعنی کفار کا گمان یہ ہے کہ بعث نہیں ہوگا، آپ فرمادو، کیوں نہیں، میرے رب کی قسم تمھیں دوبارہ زندہ کیا جاۓگا، پھر تمھیں تمھارے اعمال بتاۓ جائیں گےاور یہ اللہ کے لیے انتہائی آسان ہے۔
بعث کے حق ہونے پر بے شمار دلائل قائم ہیں، اس کے باوجود کفار عرب بعث کا انکار کرتے تھے، واضح دلائل کے ہوتے ہوئے کسی بھی شے کا انکار، نا قابل التفات ہوا کرتا ہے، اسی لیے قرآن کریم نے کفار کے انکار کو زَعَمَ یعنی گمان سے تعبیر فرمایا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں بعث میں شک تھا، بلکہ یہ لوگ تو بڑے شد ومد کے ساتھ بعث کا انکار کرتے تھےاور قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ بعث نہیں ہوگااور اللہ کسی سے محاسبہ نہیں فرمائے گا، قرآن کریم نے بعث بعد الموت کے سلسلے میں کفار ومشرکین کے انکار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ١ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ١ؕ بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰۳۸ [سورۂ نحل:38]
انھوں نے بھاری قسم کھائی کہ اللہ مردوں کو زندہ نہیں کرے گا، کیوں نہیں؟ ضرور زندہ کرے گا، یہ سچا وعدہ ہے،جو اس کے ذمۂ کرم پر لازم ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اس طرح قرآن پاک نے بے شمار مقامات پر بعث کا ذکر کیااور فرمایا کہ اللہ بعث پر قادر ہے، قیامت کے دن سب کو زندہ کرےگااور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دےگا۔
بعث پر کفار کے اعتراضات اور ان کے جوابات:
قرآن کریم نے بعث بعد الموت کا ذکر مختلف طریقوں پر کیا ، کہیں پر حقیقت بعث کا ذکر کیا ، کہیں پر کیفیت بعث کی تفصیل بیان فرمائی، کہیں پر بعث کے ساتھ دلائل بعث کابھی اضافہ کیااور کہیں پہلے کفار کے شکوک وشبہات کا ذکر کیا، پھر ان کے اطمینان بخش جوابات دیے گئے ، اور مختلف دلائل وواقعات کی روشنی میں حقیقت بعث کی توضیح و تفہیم کی گئی ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دلائل بعث کا خلاصہ پیش کرنے سے پہلےبعث کے سلسلے میں کفار کی جانب سے پیش کیے جانے اعتراضات اور ان کے جوابات ذکر کردیے جائیں، کیوں کہ اثبات بعث کے بیش تر دلائل جوابات کے ضمن میں وارد ہوئے ہیں؛ لہٰذا اگرپہلےکفارکےاعتراضات وجوابات پیش کردیے جائیں تو دلائل بعث کے افہام وتفہیم میں آسانی ہوگی۔
قرآن کریم نے منکرین بعث کےتین اہم شبہات ذکر کیے ، اور وہ شبہات یہ ہیں:
1- بعث کا ذکر کرنے والے پیغمبر مجنوں یا مفتری ہیں؛ لہٰذا ان کی بات قابل التفات اور لائق اعتنا نہیں ہوسکتی۔
2- اگر بعث بر حق ہے تو ہمارے باپ، دادا کو زندہ کیا جائے، ہم ایمان لے آئیں گے۔
3 – بعث بعد الموت کا وقوع ممکن ہی نہیں،کیوں کہ جب کوئی انسان مرجاتا ہے،اور اسے زیر زمین دفن کردیا جاتا ہےتو چند ہی دنوں میں وہ مردہ جسم سڑ ،گل کر خاک میں مل جاتا ہےاور اگر کسی وجہ سے اس جسم کو دفن نہ کیا جاسکے تو مختلف قسم کے درندے، پرندے اسے اپنی خوراک بنالیتے ہیں، پھر اس جسم انسانی کے کچھ اجزا حیوانات کے جسم کاحصہ بن جاتے ہیں اور کچھ فضلات کی شکل میں خارج ہوجاتے ہیں، بہر دو صورت مرجانے کے بعد انسانی جسم کبھی سڑ، گل کر مٹی میں تحلیل ہوجاتا ہےاور کبھی کسی دوسرے جسم کا جز بن جاتا ہے، اس طرح مرجانے کے بعد پورا جسم تباہ ہوجاتا ہے،صرف چند بوسیدہ ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں، انھیں بوسیدہ ہڈیوں پر سابقہ گوشت، پوست چڑھانا،اور ان میں روح لوٹا کردوبارہ زندہ کر نا ناممکن ہے،اور اس مفروضے کو کوئی بھی عقل تسلیم نہیں کرسکتی؛ لہٰذا بعث بعد الموت ممکن نہیں ۔
کفار کے یہ تین اعتراضات ہیں، اب آئیے! اجمال سے تفصیل کی طرف بڑھتے ہیں،اور منکرین بعث کے اعتراضات اور ان کے جوابات تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام پر جنون و افترا کا ا لزام گمراہی ہے:
کفار عرب بعث کی مخالفت کے ضمن میں جہاں اللہ وحدہ لاشریک کی لا متناہی قدرتوں کا انکار کرتے تھے وہیں عقیدۂ بعث پیش کرنے والے پیغمبر اعظمﷺ کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے تھے،اور آپ کی شان رفیع میں نازیبا کلمات استعمال کرتے تھے، معاذ اللہ آپ کو مجنوں اور مفتری کہا کرتے تھے، اللہ رب العزت نے جہاں حقیقت بعث کا اثبات کیا وہیں اپنے محبوب ﷺکا بھرپوردفاع کیا اور فرمایاکہ میرے محبوب کو نہ جنون عارض ہےنہ ہی انھوں نے افترا پردازی سے کام لیا ہے، البتہ کفارعرب انکار بعث اور توہین رسالت کی بنیاد پر ضرور گمراہ اور بے دین ہیں،قرآن کریم نے اس کی پوری تفصیل کچھ اس طرح بیان کی ہے:
وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ يُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ١ۙ اِنَّكُمْ لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍۚ۰۰۷ اَفْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَمْ بِهٖ جِنَّةٌ١ؕ بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَ الضَّلٰلِ الْبَعِيْدِ۰۰۸ [سورۂ سبا : 7-8]
یعنی کفار بطور استہزا کہتے ہیں، کیا ہم تمھیں ایسے شخص کی خبر نہ دے دیں جو یہ کہتا ہے کہ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہوجاؤگے تو نیا جنم لوگے، پوچھتے ہیں: اس نے اللہ پر بہتان باندھا ہے، یا اسے جنون لاحق ہے؟ اللہ فرماتا ہے، ایسا کچھ نہیں، بلکہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ حق سے دور گمراہی میں ہیں اور عذاب آخرت میں گرفتار ہوں گے۔
ان آیات مبارکہ کے مطابق کفار نے چار طریقوں سے نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی۔
1 - سارا جہان جس کی عظمتوں کا معترف ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ جس کے فضل وکمال پر شاہد ہے اسی رسول ذی وقار کو رَجُلٍنکرہ سے تعبیر کیا، ایک اجنبی اور غیر معروف شخص کی طرح آپ کا تذکر کیا۔
2 - آپ کے پیش کردہ عقیدۂ بعث کو بڑے مضحکہ خیز انداز میں بیان کیا۔
3 - معاذ اللہ آپ کی جانب جنون کی نسبت کی۔
4 – آپ پر کذب بیانی اور افترا پردازی کا بہتان باندھا۔
اللہ وحدہ لاشریک نے اپنے محبوب کا بھر پور دفاع کیا، ان پر عائد کیے گئےبے بنیاد الزامات کی تردید کی، ساتھ ہی ساتھ عقیدۂ بعث کا اثبات بھی فرمادیا،ارشاد باری ہے:
بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَ الضَّلٰلِ الْبَعِيْدِ۰۰۸ [سورۂ سبا : 8]
پیغمبر اسلام کو جنون وافترا سے کیا نسبت؟ آپ کی پوری زندگی اور آپ کی مبارک زندگی کے جملہ افعال واحوال آپ کی دانائی،حق بیانی پر روشن دلیل ہیں، ایسے واضح اور نا قابل انکار دلائل کے ہوتے ہوئے آپ پرجنون وافترا کا الزام غلط اور بے بنیاد ہےاور جب آپ پر جنون وافترا کا الزام صحیح نہیں تو آپ کا دعواے بعث صحیح ہےاوربعث بعد الموت برحق ہے، جو لوگ رسول بر حق اور ان کے پیش کردہ عقیدۂ صحیحہ پر ایمان نہیں رکھتے وہ دنیا وآخرت میں ناکام ہیں، دنیا میں اس لیے کہ وہ راہ حق سے منحرف ہوگئے، اور آخرت میں اس لیے کہ وہاں انھیں دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔
باپ، دادا کے بعث کا مطالبہ سر کشی پر مبنی:
بعث کے سلسلے میں کفار کا دوسرا شبہ یہ ہے کہ اگر واقعۃً بعث کوئی چیز ہے تو ہمارے آبا واجداد کو زندہ کیا جاۓ ، ہم بعث بعد الموت پر ایمان لے آئیں گے، فرمایا:
اِنْ هِيَ اِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُنْشَرِيْنَ۰۰۳۵ فَاْتُوْا بِاٰبَآىِٕنَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۳۶[ سورۂ دخان :35-36]
یعنی کفار کہتے ہیں: ہمیں ایک ہی دفعہ مرنا ہے، ہمارا بعث نہیں ہوگا، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہوتو ہمارے باپ دادا کو قبروں سےزندہ اٹھا کر لے آؤ۔
ایک دوسرے مقام پرہے: وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتُوْا بِاٰبَآىِٕنَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۲۵ قُلِ اللّٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰۲۶ [سورۂ جاثیہ :25]
یعنی جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کا شبہ یہی رہتا ہے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے لے آؤ، آپ فرمادو: اللہ تمھیں جلاتا ہے، پھر تمھیں موت دےگا، پھر قیامت کے دن یکجا فرماۓگا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
ان آیات بینات کے مطابق منکرین بعث بر سبیل تنزل کہا کرتے تھے کہ اگر واقعۃً بعث برحق ہے تو ہمارے باپ داد کو زندہ کرکے لے آؤ، ہم انھیں زندہ ہوتا دیکھ کر ایمان لے آئیں گے، ظاہر سی بات ہے کہ اس قسم کے مطالبے محض سرکشی اور عناد پر مبنی ہوا کرتے ہیں، اسی لیے قرآن کریم ایسے مطالبات کو قابل اعتنا نہیں گردانتا، بلکہ ایسے مواقع پر کبھی تنبیہ فرماتا ہے اور کبھی درد ناک عذاب کی وعید سناتا ہے۔جو روز روشن کی طرح واضح دلائل اور کھلی ہوئی نشانیاں دیکھ کر بھی بعث کو نہ مانے اس سے یہ کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ چند مردوں کو زندہ ہوتا دیکھ کر ایمان لے آۓگا، ہوسکتا ہے کہ اپنے باپ دادا کو دوبارہ زندہ ہوتا دیکھ کر کہہ دے کہ یہ تو جادو ہے، یہ تو محض اتفاق ہے، ہم اس طرح کی مشکوک باتوں پر بعث کو نہیں مان سکتے۔
علاوہ ازیں علم الٰہی میں ہر شے کا ایک وقت مقرر ہے، قبل از وقت کسی بھی چیز کے ایجاد و تکمیل کا تقاضا کرنا منشاے الٰہی کے خلاف ہے، اسی لیے ایسے لغو اور فضول مطالبے پورے نہیں کیےجاسکتے۔ بندے ایمان بالغیب کے مکلف ہیں، ایمان بالمشاہدہ کے نہیں؛ لہٰذا بندوں پر ضروری ہے کہ بعث کے باب میں پیش کردہ دلائل سے مطمئن ہو کر ایمان لائیں،اور ایسے امور کا مطالبہ نہ کریں جو مشیت ایزدی کے منافی ہیں۔
جو ایمان لانا چاہے اس کے لیے محض ایک دلیل بھی کافی ہے،اور جو ایمان نہ لانا چاہے اس کے لیےکائنات کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہزاروں واضح دلائل بھی نا کافی ہیں۔
منکرین بعث کی سب سے بڑی دلیل :
منکرین بعث کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جو انسان مر کر مٹی میں مل جائے، سڑ، گل کر تباہ ہوجائے اس کے اجزا کو یکجا کرنا اور ان میں سابقہ روح لوٹانا کسی بھی طرح ممکن نہیں؛ لہٰذا بعث کا قول قابل قبول نہیں، قرآن کریم نے منکرین بعث کے اس شبہہ کو جا بجا ذکر کیا ہے، مثلاً سورۂ رعد میں ہے: وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ۰۰[سورۂ رعد :5]
تعجب ہے ان کی اس بات پر :کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا دوبارہ بنائےجائیں گے؟(جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org