21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Sept 2024 Download:Click Here Views: 70437 Downloads: 1373

(5)-اکلِ حلال کے بغیر تقوٰی ممکن نہیں

 

محمد مدثر حسین اشرفی پورنوی

 جاندار کی حیات وزیست کے لیے جہاں دیگر اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے وہیں خورد ونوش کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے - خالقِ کائنات عزوجل کا بڑا فضل وکرم ہے کہ وہ ہر جاندار کو رزق عطا فرماتا ہے - اس کی شان کریمی ورحیمی کہ جو اسے معبود مانتا ہے اسے  بھی رزق عطا فرماتا ہے، اور جو منکرین ہیں اسے بھی رزق عطا فرماتا ہے

مخلوقات میں انسان کو اشرف ہونے کاشرف حاصل ہے - بندوں پر یہ فرض ہے کہ رزق حلال کے حصول کے لیے جد وجہد کرے، اور اسی سے خود کی اور اپنے اہل وعیال کی پرورش کرے ۔انبیائے کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں، قصدًا یہ مقدس گروہ غلطی نہیں کرتے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  اے رسولو! پاکیزہ روزی کھاؤ ۔ اس سے حلال رزق کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے -

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کامال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کامقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کاکچھ مال ناجائز طور پرکھالو جان بوجھ کر -  ( پ 2 سورہ البقرہ آیت نمبر 188 )

  مذکورہ آیت کی تفسیر میں صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی قدس سرہ رقم طراز ہیں:

” اس آیت میں باطل طورپر کسی کامال کھاناحرام فرمایاگیا خواہ لوٹ کریاچھین کر، یاچوری سے، یاجوئے سے، یاحرام تماشوں یاحرام کاموں یاحرام چیزوں کے بدلے یارشوت یاجھوٹی گواہی یاچغل خوری سے یہ سب ممنوع وحرام ہے ۔“

 مسئلہ: اس سے معلوم ہواکہ ناجائزفائدہ کے لیے کسی پرمقدمہ بنانااور اس کوحکام تک لے جاناناجائزوحرام ہے - اسی طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کوضرر پہنچانے کے لیے حکام پراثرڈالنا رشوتیں دینا حرام ہے - جوحکام رس لوگ ہیں ( یعنی جس کی پہنچ حکمرانوں تک ہے )  وہ اس آیت کے حکم کوپیشِ نظر رکھیں ۔ حدیث شریف میں مسلمانوں کے ضررپہنچانے والے پر لعنت آئی ہے“ ( خزائن العرفان )

رئیس المحققین، شیخ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ مفتی الحاج سید الشاہ محمدمدنی میاں اشرفی جیلانی کچھوچھوی، جانشین حضور محدث اعظم ہند مندرجہ بالاآیت کریمہ کی تفسیر میں رقم طرازہیں:

” اور نہ کھاؤ اپنے آپس کے مال کوبے جا غصب کرکے، چوری کرکے چھین کر، جھوٹی قسم کھاکر، جواکھیل کر، رشوت دے کر، کاہن کے پاس جاکر، لہوولعب کامظاہرہ کرکے، نوحہ کرکے غلط حیلوں سے خیانت کرکے اورمختلف ناجائز اور باطل طریقوں سے - تم حاکم کے پاس جھوٹی قسم کھاکر اور چالاکی سے محبت قائم کرکے اپنے حق میں فیصلہ توکرالوگے اور حاکم تمہارے حق میں فیصلہ کربھی دے گا لیکن اگرحقیقت میں اس پرتمہاراحق نہیں تھا، بلکہ اس کاصحیح حق دار تمہارامقابل تھا، تویقین کرلوکہ حاکم تمہیں تمہاری چیزنہیں دے رہاہے بلکہ آگ کاٹکڑادے رہاہے، جوتمہاری آخرت کوخاکسترکردے گا۔

تم پرلازم ہے کہ اپنے معاملات میں حق وانصاف کوملحوظ خاطررکھو، اور غلط ناحق طریقے سے ( نہ اس کامقدمہ لے جاؤ حکام تک بایں غرض کہ لوگوں کا کچھ مال ) حاکم کورشوت دے کر، اس سے جھوٹ بول کراس کے سامنے جھوٹی گواہی دے کر ناحق کھالو وہ بھی جان بوجھ کر اس لیے کہ تمھیں توبخوبی معلوم ہے کہ سچائی کیاہے؟ اورتم جس پراپناحق جتارہے ہو اس پرتمہارا کوئی حق نہیں - الغرض اپنے مقدمات ایسے حکمرانوں کی طرف مت لے جاؤ جن کاکام ظلم کرنا ہو اور رشوت لے کر غلط فیصلہ کرنے کی جن کی عادت ہو ۔اور یادرکھو گناہ کوگناہ جانتے ہوئے اس کا ارتکاب بہت زیادہ قبیح ہے - دنیا میں تین چیزیں ہوتی ہیں - حلال، حرام، مشتبہ ، حلال، ثواب کاموجب ہوتاہے،حرام،  سزا کامستحق ہوتاہے اور، مشتبہ، عتاب کاسبب ہوتاہے۔  (تفسیر اشرفی جلد اول )   

حضرت علامہ پیر کرم شاہ ازہری اسی آیت کے ضمن میں رقم طرازہیں: ” اسلامی نظامِ معاشیات کاایک اور قاعدہ بیان ہورہاہے۔ یعنی ناجائزطریقہ سے لوگوں کے مال نہ کھاؤ - علامہ قرطبی فرماتے ہیں وہ شخص جس نے ایسے طریقے سے مال حاصل کیا جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی تو اس نے باطل ذریعہ سے کھایا - اس میں جوا، دھوکہ دہی، زبردستی چھین لینا کسی کے حقوق کاانکاراور وہ مال جسے اس کے مالک نے خوشی سے نہیں دیا، سب اکل باطل میں شامل ہیں - علامہ قرطبی نے یہ تصریح بھی کی ہے، اگرکوئی شخص رشوت دے کرجھوٹی قسم کھاکر یاجھوٹی گواہیاں دلواکر اپنے حق میں فیصلہ کرالے توقاضی کافیصلہ حرام کوحلال نہیں کرسکتا “۔ ( ضیاءالقرآن )   

مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:  ترجمہ: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کاہو – ( پ 5 آیت نمبر 29 سورہ النساء )

حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی بدایونی قدس سرہ آیت مذکورہ کے تحت رقم طرازہیں: " یٰآ یُّھَاالِّذِینَ اٰمَنُوا.“ چونکہ مالی معاملات میں حرام وحلال سے بچنا بہت مشکل ہے اور اللّٰہ تعالٰی مشکل احکام سناتے وقت پہلے مسلمانوں کو خطاب اور پھر حکم سناتاہے - نیز اعمال سے ایمان مقدم ہے نیز حرام کمائیوں سے بچنے کاحکم صرف مسلمانوں کوہے - کفار ان احکام کے مخاطب نہیں ہوتے - ان وجوہ سے پہلے مسلمانوں کوپیارے خطاب سے پکارا تاکہ اس خطاب کی لذت سے مسلمانوں پریہ بھاری احکام آسان ہوجائیں ۔

 لَاتَأکُلُوا اَموَالَکُم بَینَکُم بِالبَاطِلِ ۔

 اگرچہ حرام مال کا استعمال مطلقًاحرام ہے ، مگر چونکہ کھانامال کااصل مقصودہوتاہے، اس لیے یہاں کھانے کی ممانعت فرمائی ، اَموَال جمع فرماکر اس طرف اشارہ کیاکہ ہرقسم کے حرام مال سے بچو ، روٹی، کپڑا، مکان، جائیداد، جانور وغیرہ جوبھی حرام ذریعے سے حاصل ہوں ان سے بچو “- (تفسیر نعیمی )

 حضرت علامہ پیر کرم شاہ ازہری اسی آیت مبارکہ کے ضمن میں رقم طراز ہیں : ”کسبِ حلال پر قرآن پاک نے جتنا زور دیا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں - ایسے موقعوں پر قرآن پاک کا انداز بیان بڑا اثر انگیز ہوتاہے - یہ نہیں فرمایاکہ دوسروں کے مال ناجائز طریقوں سے مت کھاؤ بلکہ فرمایا اپنے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ ۔

 اس سے یہ حقیقت واضح کرنا مطلوب ہے کہ اُمّت کے کسی فرد کامال پرایا مال نہیں بلکہ اپناہی مال ہے - اس میں ناجائز تصرّف کرنا دھوکہ فریب سے اس کو ہڑپ کرنا اپنے آپ سے ہی دھوکہ کرناہے - ہاں اگر تم آپس میں تجارت کرو اور تجارت میں کسی کی سادہ لوحی یامجبوری سے ناروا فائدہ نہ اٹھایاگیا ہو بلکہ فریقین نے راضی خوشی سے لین دین کیا ہو، اور اس طرح تمہیں نفع حاصل ہو تو یہ نفع حلال ہے - عَن تَرَاضٍ کے کلمات پر مزید غور فرمائیے، اسلام جس صاف ستھری تجارت کی اجازت دیتاہے اس کے خدّوخال آپ پر واضح ہوجائیں گے ۔“(ضیاءالقرآن )

مندرجہ بالاآیات کریمہ اور تفاسیر میں ہر قسم کے ناجائز وحرام مال کھانے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ اب احادیث شریفہ اس تعلق سے پیش ہیں - مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم علیہ التحیتہ والتسلیم نے ارشاد فرمایا :” ضرور لوگوں پرایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ کچھ پرواہ نہیں کرے گا کہ جومال اس نے حاصل کیا وہ حلال ہے یا حرام “۔ ( بخاری شریف )

سرکار کے اس فرمان عبرت نشان کوپڑھیے اور دور حاضر میں لوگوں میں مال ودولت کے حصول میں تفکر اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کاجنون دیکھیے - ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ زمانہ آچکاہے - لوگ دولت کے اس درجہ حریص ہوچکے ہیں کہ حلال وحرام میں بالکل تفاوت نہیں کرتے -

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ  تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا: ” جو کوئی دس درہم میں کپڑا خریدے، اور اس میں ایک درہم حرام کاہے جب تک وہ کپڑا اس پر رہے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا “- ( مشکاۃ شریف )

خلاصۂ کلام یہ کہ بہرحال رزق حلال سے خود کی اور اہل وعیال کی پرورش کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ شیطان جو انسانوں کاکھلادشمن ہے، وہ انسانوں کوہمہ وقت بہکانے کی فراق میں رہتاہے - مگر جب وہ کسی عابد کودیکھتاہے کہ عبادت میں بہت مصروف ہے لیکن خورد ونوش میں حلال وحرام میں کوئی امتیاز نہیں کرتا، تو ابلیس لعین اپنے چیلوں سے کہتا ہے اسے بہکانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ خواہ یہ کتنی ہی عبادت کرکے اپنے نامۂ اعمال پُرکرلے مگر اس کاکھاناحرام ہے تو اس کی کوئی بھی عبادت بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ۔ تف ہے دور حاضر کے ان اہل علم دنیا داروں پر جواکل حرام کی نحوست کاعلم رکھتے ہوئے اس فانی دنیا میں عارضی عیش وعشرت کے لیے حلال وحرام میں تمیز نہیں کرتے ۔ یاد رہے کہ تقوٰی وپرہیزگاری کی صفت تب ہی آئے گی جب خوردو نوش حتّٰی کہ سارے معاملات حلال وجائز طریقے سے ہوں

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved