21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Sept 2024 Download:Click Here Views: 70425 Downloads: 1373

(3)-آپ کے مسائل

 

مفتی اشرفیہ مفتی نظام الدین رضوی کے قلم سے

 

مسجد میں نیچے گنجائش ہونے کے باوجود چھت پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

سوال : کچھ لوگ مسجد میں گنجائش کے باوجود چھت پر چلے جاتے ہیں اور کچھ تو چھت پر امام کے آگے صف بنا لیتے ہیں تو کیا ان لوگوں کی نماز صحیح ہوگی اور ان کی اقتدادرست ہوگی ؟

جواب: جو لوگ مسجد میں نیچے گنجائش کے باوجود چھت پر چلے جاتے ہیں ان کی نماز ہو جائے گی اس لیے کہ مسجد مکان واحد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ”مکان واحد “ کا مطلب یہ ہے ایک جگہ ۔ صف مسجد میں ہو یا پھر وہ خواہ امام سے کتنی ہی دوری پر ہو حکماً امام سے متصل مانی جائے گی ، یعنی اس صف والوں کی جگہ اور امام کی جگہ حکما ایک ہے ۔ کہ مثلاً امام محراب کے پاس کھڑا ہو اور مقتدی مسجد کے ہی اندر بہت پیچھے کھڑا ہو تو اس کی نماز ہو جاتی ہے، اگر چہ بیچ میں 8، 10 گاڑیاں ایک ساتھ (Cross) کر اس کرنے کی گنجائش ہو تب بھی اس میں حرج نہیں۔لیکن میدان میں اگر امام کے پیچھے مقتدی اتنی دوری پر ہے کہ درمیان سے ایک گاڑی بھی گزر سکے تو مقتدیوں کی نماز نہ ہوگی، کیوں کہ میدان میں ایک گاڑی کی مقدار جگہ چھوڑنے کے بعد اسے دو سرا مکان مان لیا جاتا ہے ، پھر ایک گاڑی کی جگہ چھوڑنے کے بعد تیسرا مکان مان لیا جاتا ہے۔ اس کے بر خلاف مسجد کی اگر مکمل لمبائی، چوڑائی مثلاً سو سوہاتھ یا اس سے زیادہ ہو تو بھی وہ سب مکان واحد ہے ، دو مکان نہیں لہذا اگر ایسی صورت پائی جاتی ہے کہ 4، 5 صفیں نیچے لگیں اور گنجائش رہتے ہوئے2،4 صفیں  او پر لگ گئیں تو نماز صحیح ہو جائے گی، مگر وہ نماز مکروہ ہوگئی کہ بلا ضرورت مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ ہے اور بلا وجہ امام سے دوری ایک الگ نا پسندیدہ امر ہے۔ مکروہ کا مطلب ہے وہ عمل جو اللہ کو ناپسند ہے ، ناگوار ہے، تو آدمی نماز پڑھے اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ کو ناگوار اور نا پسند ہو تو اس سے کیا فائدہ ؟ نماز ہو جانا الگ چیز ہے ،مگر اللہ کی ناگواری کے ساتھ وہ نماز ہوگی لہذا اس سے بچنا چاہیے۔ اور جو لوگ چھت پر امام سے آگے صف بنا لیتے ہیں ان کی نماز نہ ہوگی کہ مقتدی پر امام کے پیچھے رہنا ضروری ہے اور امام کا بالاجماع سب سے آگے رہنا ضروری ہے۔ لفظ ”امام“ خود آگے ہونے کی خبر دیتا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

نماز کی صف میں نابالغ بچہ کہاں شامل ہو؟

 سوال: مسجد میں نماز کے وقت کئی صفوں میں ، یا ایک صف کے درمیان میں کوئی نا بالغ بچہ نماز پڑھے، تو کیا نماز میں خلل واقع ہو گا ؟

جواب: اس صورت میں نماز میں خلل واقع ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ جب بچہ سات سال یا اس سے زیادہ کا ہو اور اتنا سمجھ دار ہو کہ مسجد اور نماز کے احترام کو جانتا ہو اور وہ بلا عذر شور شرابا نہ کرے، تو اس کو مسجد میں لے جاسکتے ہیں، وہ اگر صف میں کہیں بھی کھڑا ہو گیا تو نماز میں کوئی فرق نہ پڑے گا اگر بیچ صف میں بھی آجائے تو اس کی  وجہ سے صف نہیں کٹے گی۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ بچوں کی صف مردوں کی صف کے پیچھے ہو۔ اور اگر بچہ ابھی نا سمجھ اور بے شعور ہے تو وہ صف میں جہاں کہیں بھی کھڑا ہو گا صف کٹ جائے گی اور صف کے کٹنے کا گناہ ہوگاکہ جانتے ہوئے بھی استطاعت کے باوجود آپ نے صف کاٹی۔ حدیث پاک کا مفاد ہے کہ صف کا جوڑ نا واجب ہے اور کاٹنا حرام و گناہ ۔

کلمات حدیث یہ ہیں :

عن ابن عمر، قال: قال رسول الله: أقيموا الصفوف، وحاذوابين المناكب، وسدو الخلل، ولينوا بايدى اخوانكم، ولا تذروا فرجات الشيطان. ومن وصل صفاً وصله الله ومن قطعه قطعه الله .

حضرت عبد اللہ بن عمر ینی بنانے کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا: صفیں درست کرو، اور اپنے کندھے سب ایک سیدھ میں رکھو، اور صف کے رخنے بندکرو، اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ، اور صف میں شیطان کے لیے خالی جگہیں نہ چھوڑو ، اور جو صف کو جوڑے اسے اللہ جوڑے اور جو صف کو کاٹے اسے اللہ کاٹے ۔

 اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں اور امام طبرانی نے معجم کبیر میں تخریج کیا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

صف میں جگہ خالی ہو تو اس کے پیچھے صف لگانا کیسا ہے؟

سوال : کئی صفیں لگ گئیں اور کسی صف میں ایک آدمی کی جگہ باقی رہ گئی ہو اور اس کو چھوڑ کر پیچھے صفیں لگالی جائیں تو اگلی صف کے لوگوں کی نماز ہوگی یا نہیں ؟

جواب: نماز تو ہو جائے گی ، مگر جن لوگوں نے جانتے ہوئے صف کی وہ جگہ خالی رکھی ہے وہ سب گنہگار ہوں گے کہ حدیث شریف میں ہے:من وصل صفاً وصله الله ومن قطعه قطعه الله .

 ترجمہ: جو صف کو جوڑے اسے اللہ جوڑے اور جو صف کو کاٹے اسے اللہ کاٹے۔

 اس بارے میں حکم شرع یہ ہے کہ پیچھے سے آنے والے کو معلوم ہو کہ آگے کی صف میں جگہ خالی ہے تو اس پر لازم ہے کہ صفوں کو چیرتا ہوا آگے نکل جائے اور صف کی اس خالی جگہ کو پر کرے۔ یہ ہماری ڈسپلن ہے، ہمارا نظم ونسق ہے۔ اسلام میں جس نظم ونسق کی تعلیم دی گئی ہے اس کا ادنیٰ نمونہ یہ بھی ہے ۔ واللہ تعالی اعلم

بغیر بٹن لگائے اور آستین درست کیے نماز پڑھنا کیسا؟

سوال : نماز میں بغیر بٹن لگائے اور آستین درست کیے نماز صحیح ہوگی؟ جب کہ جماعت چھوٹنے کا خطرہ ہو ؟

جواب: نماز تو صحیح ہوگی مگر مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ ہوگی اس لیے کہ  بغیر بٹن لگائے اور آستین درست کیسے نماز کی نیت نہ کرے اگر چہ جماعت کے چھوٹ جانے کا ڈر ہو۔ پہلے آپ سنت کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرلیں اور آستین وغیرہ سیدھی کرلیں ، پھر نماز شروع کریں ۔ اگر موقع مل جائے تو جماعت سے پڑھ لیں اور اگر جماعت نہ ملے تو اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں کہ آپ سے تاخیر ہوئی، بھول ہوئی آئندہ ایسا نہ کریں گے۔ واللہ تعالی اعلم

مقتدی قرآن شریف دیکھ سکتا ہے یا نہیں؟

سوال : امام جماعت کی نماز میں قراءت کر رہا ہو تو مقتدی پیچھے قرآن شریف دیکھ سکتا ہے یا نہیں ؟ جیسا کہ لوگ حرم شریف کی جماعت (ٹی وی) پر دیکھتے ہیں۔ نیز تراویح میں امام قراءت کر رہا ہو اور مقتدی ہاتھ میں قرآن لیے دیکھ رہے ہوں تو اس بارے میں شریعت کا حکم کیا ہے ؟

جواب:یہ طریقہ غلط ہے اور یہ وہابیوں کا طریقہ ہے جو انھوں نے وہاں پر نکالاہے۔ قرآن پاک کا صاف صاف حکم ہے:

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَانْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ۝(الاعراف:204)

جب قرآن پڑھا جائے تو تم اس کو بغور سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

 معلوم ہوا جو امام کے پیچھے قرآن لے کر پڑھتے ہیں یا دیکھتے ہیں، وہ غور سے نہیں سنتے بلکہ آدھا سنتے ہیں اور آدھا باہر جاتا ہے، بلکہ یہ سننا ہی نہیں ہے۔ سنتا تو وہ ہو گا کہ کان لگا کر اپنے قصدو اختیار سے سنا جائے اور وہ جب قرآن دیکھ رہے ہیں تو کان میں آواز تو آرہی ہے مگر یہ سن نہیں رہے ہیں ۔ کان میں آواز کا آنا الگ چیز ہے اور کان لگا کر غور سے سننا یہ الگ چیز ہے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے: فَاسْتَمِعُوا غور سے سنو، معلوم ہوا کہ غور سے سنا فرض ہے تو وہ لوگ فرض کو کھلے طور پر چھوڑ رہے ہیں اور اس فرض کے چھوڑنے کاٹی .وی. پر اشتہار کر رہے ہیں اس کی وجہ سے بھی وہ گنہگار ہو رہے ہیں۔ آپ لوگ ہرگز ہر گز ایسی بدعت کا ارتکاب نہ کریں اور نا جائز کام کی طرف توجہ نہ کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

جتنی نمازیں ذمے تھیں اس سے زیادہ پڑھ لیں، کیا حکم ہے؟

سوال :ایک شخص نے قضاے عمری نمازیں جتنی اس کے ذمہ تھیں اس سے زائد پڑھ لیں تو کیا اس نے غلط کیا ؟

جواب: نہیں ، غلط نہیں کیا بلکہ اچھا کیا، اس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یقینی طور پر بری الذمہ ہو جائے گا ہاں اگر سب قضا نمازیں ادا ہو گئیں اس کے بعد بھی وہ احتیاطاً ادا کر رہا ہے تو فرض اعتقاد کر کے ادا نہ کرے بلکہ یوں نیت کرے کہ میرے ذمہ آخری فرض فجر، ظہر، عصر، مغرب یا عشا نماز بھول چوک سے رہ گئی تو میں نے اس فرض نماز کی ادائیگی کی نیت کی ۔ اس نیت سے وہ نماز پڑھے تاکہ یہ لازم نہ آئے کہ جو چیز فرض نہیں ہے اس کو یہ فرض اعتقاد کرے کیوں کہ غیر فرض کو فرض تسلیم کرنا نا جائز ہے، لہذا یہ احتیاطی نیت کرناچاہیے۔ واللہ تعالی اعلم

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved