خصوصیات وفضائل
مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
یہ ماہ ذی الحجہ ہے، یہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے، یہ بڑا مقدس اور بابرکت مہینہ ہے، یہ مہینہ اپنی گوناگوں خوبیوں کی بنیاد پر سال کے دوسرے مہینوں میں امتیازی شان کا حامل ہے، قرآن کریم میں اس ماہ مبارک کا نام تو نہیں ہے، لیکن متعدد مقامات پر اس ماہ مبارک کا ذکر ہے، اس ماہ مبارک میں پیش آنے والے واقعات کا ذکر ہے، اس ماہ مبارک میں ادا کیے جانے والے اعمال کا ذکر ہے، اس مقالے میں ہم اسی ماہ مبارک کاذکر کریں گے، پہلے قرآن کریم کے ان مقامات کی نشان دہی کریں گے جن میں اس ماہ مبارک کا ذکر ہے، پھر اس ماہ مبارک کے فضائل واعمال کا ذکر کریں گے، تاکہ ہمیں اس بات پر یقین کا مل ہوجاۓ کہ ہمارے دین ومذہب اور ایمان وعمل کی بنیاد صرف اور صرف کتاب وسنت پر ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید میں متعدد مقامات پر ماہ ذی الحجہ کا ذکرکیا گیا، اور مختلف طریقوں سے کیا گیا، کہیں أشهرحرم کے عنوان سے، کہیں أشهرحجکے عنوان سے، اور کہیں شهرحرامکے عنوان سے اس ماہ مبارک کے فضائل بیان کیے گئے ، کہیں اس ماہ مبارک کے مخصوص ایام کا ذکر کیا گیا، کہیں اس ماہ مبارک کی راتوں کی قسم یاد کی گئی، اور کہیں اس ماہ مبارک میں پیش آنے والے واقعات بیان کیے گئے۔ہم یہاں چند ایسی آیتیں پیش کریں گےجن سے اس ماہ مبارک کی عظمتوں کا بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔
حرمت والے مہینے:خالق لم یزل عزوجل نے أشہر حرمکے ضمن میں اس ماہ مقدس کا ذکر فرمایا ہے، ارشاد باری ہے: اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ١ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ. [سورۂ توبہ : ۳۶]
اللہ کے نزدیک لوح محفوظ میں روز اول ہی سے اسلامی مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں، یہی سیدھا دین ہے، ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، اور تم سب مشرکو ں سے جنگ کرو جس طرح وہ تم سب سے کرتے ہیں، اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔
بخاری شریف میں حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین سلطان دارین ﷺ نے فرمایا:السنة اثنا عشر شهرا، منها أربعة حرم، ثلاث متواليات: ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان.
(صحيح بخاري، کتاب التفسير، ج:۲، ص:۶۷۳)
یعنی اسلامی سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، جن میں چارمہینے حرمت والے ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب، جو جمادی الآخرہ اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں ماہ ذی الحجہ کا ذکر ہے ، قرآن کریم نے اسے شہر حرام قرار دیا ، اوراس کی حرمت وتعظیم کا حکم دیا ، اس میں کسی بھی قسم کی ظلم و زیادتی اور قتل وغارت گری کو ممنوع و حرام قرار دیا ،لہذا ہر مسلمان کوچاہیے کہ اس ماہ مبارک کی قدر کرے، جہاں تک ہوسکے نیکیاں کرے، اور گناہوں سے مکمل اجتناب کرے۔ جواس ماہ مبارک میں نیکی کرتا ہے وہ ایک طرف نیکی کرتا ہے تودوسری طرف شہر حرام کی تعظیم کرتا ہے، اور جو اس ماہ مبارک میں گناہ کرتا ہے وہ ایک طرف گناہ کرتا ہے تو دوسری طرف شہر حرام کی حرمت کو پامال کرتا ہے۔
شہر حرام:قران مجید میں اس ماہ مبارک کا ذکر شہر حرام کے عنوان سے کیا گیا ہے، ارشاد باری ہے:جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْيَ وَ الْقَلَآىِٕدَ١ؕ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ.[ سورۂ مائدہ ۹۷]
اللہ نے حرمت والے گھر کعبہ کو، حرمت والے مہینے کو، قربانی کے جانور اور نشان زد چوپایوں کو تمھارے لیے دینی اور دنیوی امور کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے، اور ایسا اس لیے کیا ، تاکہ تمھیں معلوم ہوجاۓ کہ اللہ آسمان وزمین کی ہر شے کو جانتا ہے، اور اسے ہر شے کا علم ہے۔
اس آیت مبارکہ میں شہر حرام سے ذی الحجہ مراد ہے، کیوں کہ سیاق وسباق میں ان مناسک حج کا ذکر ہے جو اسی ماہ مبارک میں ادا کیے جاتے ہیں، اور اگر اس آیت میں شہر حرام سے چاروں حرمت والے مہینے مراد ہوں تب بھی ماہ ذی الحجہ کی فضیلت بر وجہ اتم ثابت ہوجاتی ہے، کیوں کہ ذی الحجہ بھی انھیں چار حرمت والے مہینوں میں ایک ہے۔
حج کے مہینے:قرآن کریم نے اوقات حج اور احکام حج کو بالتفصیل بیان فرمایا ہے،اللہ رب العزت کاارشادہے:
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ١ٞ وَ اتَّقُوْنِ يٰۤاُولِي الْاَلْبَابِ. [سورہ بقرہ : ۱۹۷]
حج کے لیے چند مہینے مخصوص ہیں، جو ان مہینوں میں حج کا احرام باندھے اس پر لازم ہے کہ جماع اور مقدمات جماع سے پرہیز کرے، فحش کلامی اور مفسدات احرام سے احتراز کرے، اور کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرے، اللہ تمھارے کارہاے خیر کو جانتا ہے، حج میں زاد سفر لے کر چلو، اور بہترین زاد سفر وہ ہے جس کے بہ سبب کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آۓ، اے عقل مندو! مجھ سے ڈرو۔
اس آیت مبارکہ کے مطابق اشہر حج یعنی حج کے مہینوں میں تین چیزوں سے پرہیز ضروری ہے، اب سوال یہ ہے کہ اشہر حج کیا ہیں، اشہر حج تین ہیں: شوال، ذی قعدہ، اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن، شوال اور ذی قعدہ میں حج کا احرام باندھا جاسکتا ہے،اور حج کی نیت کی جاسکتی ہے، جب کہ حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ نویں ذی الحجہ کو ہوگا ، اور طواف زیارت ایام نحر میں ہوگا، اسی طرح دیگر مناسک حج ماہ ذی الحجہ ہی میں ادا کیے جائیں گے، اسی مناسبت سے اس ماہ مبارک کو ذی الحجہ یعنی حج کا مہینہ کہا جاتا ہے، اس طرح قرآن کریم نے احکام حج کے باب میں ماہ ذی الحجہ کا ذکر کیا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ قرآن کریم نے جہاں بھی حج کا ذکر کیا ہے وہاں گویا اس مہینے کا ذکر کیا ہے، اس لیے کہ حج کا مہینہ یہی ہے۔
ایام حج:اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍۙ۰۰۲۷ لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْۤ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِيْرَ۔ [ سورۂ حج : ۲۷ - ۲۸]
اے ابراہیم! لوگوں میں حج کا اعلان کردو، اعلان سن کر میرے بندے پا پیادہ اور دور دراز علاقوں سے لاغر اونٹیوں پر سوار ہوکر آئیں گے، اس سفر کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ بیت اللہ پہنچ کر اپنے دینی اور دنیوی فوائد حاصل کریں گے، اور متعین دنوں میں اللہ کر عطا کردہ چوپایوں پر ذبح کے وقت اس کا نام ذکر کریں گے، تو اس سے خود بھی کھاؤ، اور مصیبت زدہ محتاجوں بھی کھلاؤ۔
اس آیت کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ سے فارغ ہوکر حضرت حق سبحانہ کی بار گاہ میں عرض کی کہ مولیٰ! میں تیرے گھر کی تعمیر سے فارغ ہوگیا، تو اللہ نے فرمایا کہ میرے بندوں میں اعلان کردو کہ وہ حج کے لیے آئیں اور میرے گھر کا طواف کریں، حضرت ابراہیم نے کوہ ابو قبیس پر چڑھ کر حج کا اعلان کیا، تو آپ کی آواز اکناف عالم میں پھیل گئی، اور صبح قیامت تک جن کی قسمت میں حج لکھا تھا سب نے اپنے باپ کی صلب سے اور اپنی ماں کے شکم سے لبیک کہا، اور آج بھی لبیک کہتے ہوۓ اور تلبیہ پڑھتے ہوۓ حج بیت اللہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں، اور پروانہ وار کعبہ کا طواف کرتے ہیں، دنیوی اور اخروی فوائد سے بہرہ ور ہوتے ہیں، اور ایام حج میں اللہ کا خوب ذکر کرتے ہیں ۔
ہماری پیش کردہ آیت مبارکہ کا آخری ٹکڑا ہے أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ، اسی ایام معلومات کے متعلق تفسیرات احمدیہ سمیت مختلف تفاسیر میں ہے: والأيام المعلومات عشر ذي الحجة كما هو قول علي وابن عباس والحسن وقتادة وهو مذهب أبي حنيفة. (تفسیرات احمدیہ، ص: ۳۵۰)
یہاں ایام معلومات سے مراد ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں، یہ حضرت علی، حضرت ابن عباس ، حضرت حسن، اور حضرت قتادہ کا قول ہے، اور یہی امام اعظم کا مذہب ہے۔
اس تفسیر کی روشنی میں بجا طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورۂ حج میں ماہ ذی الحجہ اور اس میں کیے جانے والے اعمال ووظائف کا ذکر ہے۔
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْۤ اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ١ۚ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ١ۙ لِمَنِ اتَّقٰى١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ۔ [سورۂ بقرہ۲۰۳]
یعنی متعینہ دنوں میں اللہ کا ذکر کرو، جو جلدی کرے اور دو ہی دنوں میں منیٰ سے چلا جائے اس کے لیے کوئی حرج نہیں، اور جو تاخیر سے جائے اس کے لیے بھی کوئی حرج نہیں، اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تمھیں اس کے حضور حاضر ہونا ہے۔
یہاں پر اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ سے ایام تشریق مراد ہیں، جن کی مدت نویں ذی الحجہ کی صبح صادق سے تیرہویں کی شام تک ہے، یہ دن اللہ رب العزت کی جانب سے خصوصی ضیافت کے ہوتے ہیں، اسی لیے ان ایام میں روزہ رکھنا منع ہے، اور اس خصوصی ضیافت کے شکرانے میں ہر نماز باجماعت کے بعد تکبیر تشریق ضروری ہے، تکبیر تشریق کے علاوہ ہمہ وقت اللہ کی تسبیح لازم وضروری ہے۔
ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن:اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: وَ الْفَجْرِۙ۰۰۱ وَ لَيَالٍ عَشْرٍۙ۰۰۲ وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِۙ۰۰۳ وَ الَّيْلِ اِذَا يَسْرِ. [سورۂ فجر : ۱-۴]
یعنی قسم ہے روشن صبح کی، قسم ہے دس راتوں کی، قسم ہے جفت اور طاق کی، قسم ہے رات کی جب چلی جائے۔
ان آیات مبارکہ میں پانچ قسمیں ذکر کی گئیں ہیں، ان قسموں کے سلسلے میں کافی اختلاف ہے، البتہ مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا موقف یہ ہے کہ لیال عشر سے مراد ماہ ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں، اور فجر سے مراد ابتدائی دس راتوں سے متصل صبح ہیں، شفع سے مراد یوم النحر ہے، اور وتر سے مراد یوم عرفہ ہے، ان ایام کی قسم یاد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بڑے بابرکت ایام ہیں، اور ان ہی ایام میں مناسک حج ادا کیے جاتے ہیں۔
ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے چالیس دن:اللہ رب العزت کا فرمان ہے: وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً۔[ سورۂ اعراف: ۱۴۲]
ہم نے موسیٰ سے تیس دن کا وعدہ کیا ،اور اس میں دس دن کا اضافہ کیا تو چالیس کی مدت پوری ہوگئی۔
اس آیت کریمہ کی شان نزول یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے وعدہ فرمایا کہ دشمن کی ہلاکت کے بعد تمھیں اللہ کی طرف سے ایک ایسی کتاب لاکر دوں گا جس میں حلال وحرام کا ذکر ہوگا، دشمن کے تباہ وبرباد ہوجانے کے بعد آپ نے اپنے رب سے دعا کی تو حکم ہوا کہ تیس دن روزہ رکھو، آپ نے تیس روزے رکھے، تیس روزوں کے بعد مناجات سے پہلے آپ نے مسواک کرلی، جس سے آپ کے دہان مبارک سے روزہ کی خوشبو ختم ہوگئی، ملائکہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ کیا کردیا ؟ ہم تو آپ کے دہن مبارک سے مشک کی خوشبو سونگھا کرتے تھے، مسواک کرنے کے بعد یہ خوشبو زائل ہوگئی، اور ہم آپ کی خوشبو سے محروم ہوگئے، اللہ رب العزت نےآپ کی جانب وحی بھیجی کہ روزہ دار کے منھ کی بو ہمارے نزدیک مشک سے زیادہ بہتر ہے، لہٰذا اس مسواک کے بعد مزید دس دن کے روزے رکھو ،تاکہ تمھارے منھ کی خوشبو بحال ہو جاۓ، پھر ہماری بارگاہ میں مناجات کے لیے آؤ۔
یہ تو اس آیت کریمہ کی شان نزول ہوئی، لیکن ہمیں یہ غور کرنا ہے کہ آخر وہ کون سے تیس دن تھے جن میں آپ نے روزے رکھے؟ آخر وہ کون سے دس دن تھے جن میں دس اضافی روزوں کا حکم ہوا؟ آخر وہ کون سے چالیس دن تھے جن کو قرآن نے مِيْقَاتُ رَبِّهٖۤ سے تعبیر کیا؟ جس کے بعد شرف ہم کلامی سے نوازا، آپ پر خصوصی تجلی ڈالی، اور علم وحکمت اور وعظ ونصیحت سے لبریز کتاب مقدس توریت بھی عطا فرمائی۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ پیغمبر علم وحکمت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تیس روزے ماہ ذی قعدہ میں رکھے، مزید دس روزے ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں رکھے ، اس طرح آپ نے ماہ ذی قعدہ اور ماہ ذی الحجہ میں چالیس روزے رکھے، اور انھیں مقدس روزوں کے بعد رب کائنات نےاپنا وعدہ پورا فرمایا، اور انھیں کتاب مبارک توریت عطا فرمائی۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ماہ ذی الحجہ بڑا مقدس اور با برکت مہینہ ہے، رب کائنات نے اسے شہر حرام بنایا، اور اس میں ہر قسم کے ظلم وگناہ سے منع فرمایا۔رب کائنات نے اسے شہر حج بنایا اور حاجی کو رفث ، فسوق اور جدال سے منع فرمایا۔ رب کائنات نےاسےذکر وشکر اور قربانی کا مہینہ بنایا۔رب کائنات نے اس مہینہ کی، اس کے بابرکت شب وروزکی، اور بطور خاص یوم عرفہ اور یوم النحر کی قسم یاد فرمائی۔یہی نہیں، بلکہ اپنی بارگا ہ میں مناجات کے لیے ،اپنے دیدار کے لیے، اور اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ کو کتاب حکمت عطا کرنے کے لیے اسی مبارک مہینہ کا انتخاب فرمایا، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ماہ ذی الحجہ صرف زمانۂ اسلام ہی میں نہیں بلکہ سابقہ ادوار میں بھی بڑا مقدس اور بابرکت مہینہ رہا، لہذا بندوں پر ضروری ہے کہ اس مبارک مہینہ کی قدر کرتے ہوۓ اس ماہ مبارک میں اللہ ورسول کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
ماہ ذی الحجہ کی چند اہم خصوصیات:جب ہم ماہ ذی الحجہ پر غور کرتے ہیں تو اس کے دامن میں کچھ ایسی خوبیاں نظر آتی ہیں جو دوسرے مہینوں میں نہیں پائی جاتیں یا بہت کم پائی جاتی ہیں، مثلاً
1- اسلام کی دو مشہور ترین عیدیں ہیں: ایک عید الفطر، دوسری عید الاضحیٰ ، عید الفطر تو یکم شوال کو منائی جاتی ہے، جب کہ عید الاضحیٰ اسی ماہ ذی الحجہ میں منائی جاتی ہے ، وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ عید الفطر کی ضیافت ایک دن میں اختتام پذیر ہوجاتی ہے، جب کہ عید الاضحیٰ میں ضیافت کا سلسلہ تین دن تک جاری رہتا ہے۔
2- اسلام کے چار اہم ترین ارکان ہیں:نماز، روزہ، حج اور زکات۔ نماز سال بھر بلکہ زندگی بھر ادا کرنا ضروری ہے۔ زکات سال میں کبھی بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ روزے بھی سال بھر رکھے جاسکتے ہیں، فرق اتنا ہے کہ اگر رمضان میں رکھے جائیں تو ادا ہوں گے،غیر رمضان میں رکھے جائیں تو قضا ہوں گے ، بہر صورت روزے سال بھر رکھے جاسکتے ہیں اورجب بھی رکھے جائیں درست ہوجائیں گے۔ لیکن حج کا حال باقی ارکان سے بالکل مختلف ہے ، کیوں کہ حج ادا ہو کہ قضا، حج اصلی ہو یا حج بدل، حج فرض ہو، حج واجب ہو یا حج نفل، حج قران ہو، حج تمتع ہو یا حج افراد، کسی بھی قسم کا حج ہو سال میں صرف ایک ہی بار ادا ہوسکتا ہے، ایک ہی مہینے میں ادا ہوسکتا ہے، وہ مبارک مہینہ ذی الحجہ ہے، اور یہ اس مہینہ کی ایسی خصوصیت ہے جو دوسروں میں سرے سے نہیں پائی جاتی ہے، شاید اسی وجہ سے اسے ذی الحجہ یعنی حج کا مہینہ کہا جاتا ہے۔
3- یہ نزول قرآن کی تکمیل کا مہینہ ہے، یہ دین اسلام کی تکمیل کا مہینہ ہے، کیوں کہ اسی ماہ مبارک میں آیت کریمہ:اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔نازل ہوئی، بخاری شریف میں حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب سے کسی یہودی نے کہا:
يا أمير المؤمنين آية في كتابكم تقرؤونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، قال أي آية؟ قال:اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا. قال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي ﷺ وهو قائم بعرفة يوم جمعة. (صحیح بخاری، کتاب الایمان، ج:1، ص: 11)
یعنی یہودی نے کہا : آپ کےقرآن میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر ہمارے حق میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس آیت کےنزول کےدن کوعید سمجھتے ، اور اسے بطورعید مناتے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے کہا: اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔حضرت عمر نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ وہ آیت کب نازل ہوئی، کہاں نازل ہوئی، اور وقت نزول رسول گرامی وقار ﷺ کہاں تشریف فرما تھے، پھر حضرت عمر نے فرمایا: یہ آیت مقام عرفہ میں نازل ہوئی اور جمعہ کے دن نازل ہوئی، اس آیت کےنزول کےدن ہم ایک نہیں بلکہ دو دو عید مناتے ہیں،اس لیے کہ ہمارے لیےیوم جمعہ بھی عید ہے، اور یوم عرفہ بھی عید ہے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس مہینہ میں ایک بقر عید ہی نہیں، بلکہ ایک اور عید بھی ہے، وہ ہے عید تکمیل اسلام۔ اگر اس مہینہ کی دسویں کو عید قربانی کا دن ہے تو نویں کو تکمیل نزول قرآن اور تکمیل دین اسلام کی عید کا دن ہے۔
ماہ ذی الحجہ کے فضائل واعمال:اخیر میں اس ماہ مبارک میں کیے جانےوالے بعض اعمال کا ذکر ضروری ہےتاکہ ہم اس ماہ مبارک کی قدرکرتے ہوۓ اس کو حتیٰ الوسع نیکیوں میں گزاریں، ویسےتو اس ماہ مبارک کے اعمال ووظائف کی ایک لمبی فہرست ہے، لیکن ہم صرف پانچ بنیادی اور ضروری اعمال ووظائف پیش کریں گے۔
1- اس ماہ مبارک کے ابتدائی ایام کو اس طور پہ گزاریں کہ دن روزوں میں اور رات نوافل میں بسر ہوں، ترمذی شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کائنات ﷺ نے فرمایا: ما من أيام أحب إلى الله أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر.
(جامع ترمذی، ابواب الصوم، ج:1، ص:94)
اللہ رب العزت کےنزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں اس کی بندگی کی جاۓ، اس عشرہ میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہوتا ہے،اور ایک رات کا قیام شب قدر میں قیام کے برابر ہوتاہے،چند دنوں بعد یہ ماہ مبارک ضوفگن ہونے والا ہے، لہذا اس خوب صورت موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔
2- اگر کسی وجہ سے نو دن روزہ نہ رکھ سکیں تو کم از کم نویں ذی الحجہ کو ضرور روزہ رکھیں، اور زوال آفتاب کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک ذکر الٰہی میں مصروف رہیں، اور خوب دعائیں کریں، کیوں کہ اس دن زوال آفتاب کے بعد اللہ تعالیٰ آسمان اول سے تجلی فرماتاہے، ذکر ودعا میں مصروف بندوں پر ملائکہ سے مباہات فرماتا ہے، اور سب کو بے حساب بخش دیتا ہے ۔
3- نویں ذی الحجہ کی فجر سے لےکر تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک جماعت مستحبہ کے ساتھ پڑھی جانے والی ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیر تشریق کہنا واجب ہے، اور تین بار کہنا افضل ہے، تکبیر تشریق یہ ہے:
الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله والله أكبر، الله أكبر ولله الحمد۔
4- حج کے بعد اس ماہ مبارک کا سب سے عظیم ترین عمل قربانی ہے، اس کا وقت نمازعید کے بعد سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے، البتہ دسویں کو قربانی کرنا افضل ہے، اس دن نہ ہوسکےتو گیارہ یا بارہ کو بھی کرسکتے ہیں، یہ قربانی ہر جامع شرائط صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے، قربانی کے ایام میں قربانی سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے ، امام بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی، آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول کائنات ﷺ سے پوچھا:يا رسول الله ما هذه الأضاحى؟ یا رسول اللہ یہ قربانی کیا ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: سنة أبيكم إبراهيم عليه السلام. (السنن الکبری، کتاب الضحایا، ج:9، ص: 261)
یہ تمھارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ہے، حضرت زید فرماتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: فما لنا فيها؟اس قربانی میں ہمیں کتنا ثواب ملے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بكل شعرة حسنة. ہر بال کے عوض ایک نیکی۔ شعرة میں تنوین تحقیر کے لیے اور حسنة میں تنوین تعظیم کے لیے ہے،لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ جانور کے ہر چھوٹے سے چھوٹے بال کے عوض ایک عظیم نیکی لکھی جاۓ گی۔
کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ جانور کے کتنے بال ہوتے ہیں، لہذا اس حدیث پاک کاواضح مطلب یہ ہوا کہ جو بندۂ مومن قربانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بے حساب نیکیاں عطا فرماتا ہے۔اللہ رب العزت ہمیں اس ماہ مبارک کی کما حقہ قدر کرنے اور اس میں خوب نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرماۓ، آمین، یا رب العالمین
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org