21 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2024 Download:Click Here Views: 82523 Downloads: 693

(17)-صحافت آج اور کل کے عنوان پر سیمینار

گلبر گه ۴ فروری ۔صحافت آج اور کل کے عنوان سے ایک خصوصی نشست کا انعقاد مورخہ 4 فروری 2024ء بروز اتوار صبح 11 بجے انجمن ترقی اردو کے ایوان خواجہ بندہ نواز اردو ہال گل برگہ کرناٹک میں ہوا اس نشست سے علما، دانشوروں اور صحافیوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مفکر اسلام حضرت علامہ مبارک حسین مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور و مدیر اعلیٰ ماہنامہ اشرفیہ نے فرمایا کہ صحافت دنیا بھر کے مختلف زبانوں میں کی جاتی ہے اور اردو زبان میں کی جانے والی صحافت تقریباً 200 سال پر مشتمل ہے جسے چار حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے، اگر چہ اس کے ابتدائی دو ادوار کمزور رہے ہوں لیکن اس کا تیسرا اور چوتھا دور بڑا مضبوط رہا اور انقلابات زمانہ میں اردو صحافت نے کلیدی رول ادا کیا ہے موجودہ دور کو ہم اردو صحافت کے لیے ایک خوبصورت اور بہترین دور کہہ سکتے ہیں۔ موصوف نے مزید فرمایا کہ اردو صحافت کو باقی رکھنے میں روزنامے، ماہنامے، سہ ماہی ششماہی اور سالانہ مجلّوں نے کلیدی رول ادا کیا ہے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو صحافت کا مستقبل اندھیرے میں نہیں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں اس چراغ کی لو اور تیز ہوگی اور آنے والےوقتوں میں ضرورتوں کی تکمیل اردو صحافت کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ اس ضمن میں انہوں نے کئی ایک اخبارات اور رسالوں پر تفصیلی گفتگو کی اور ہند و پاک اور بنگلہ دیش سےنکلنے والے مختلف اخبارات اور رسالوں کےحوالے دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام اخبارات اور رسالوں نے اپنے اپنے دورمیں اپنے کام کو بخوبی انجام دیا ہے۔

 موصوف نے مزید فرمایا کہ ہر دور میں اردو صحافت کسی نہ کسی طاقت کے زیر اثر رہی ہے اور اس زمانے میں بھی اردو صحافت کئی ایک طاقتوں کے زیر اثر ہے، جس سے بہت زیادہ اچھی امیدیں نہیں لگائی جاسکتیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اردو صحافت زندہ ہے اور آنے والے دنوں میں اردو صحافت ضرور زندہ رہے گی اور اپنا احساس کراتی رہے گی۔

اس نشست سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر پیرزادہ فہیم صدر انجمن ترقی اردو گل برگہ نے فرمایا کہ اردو صحافت کو کمزور کرنے اور اس کے معیار کو گرانے میں قارئین کا بڑا عمل دخل رہا ہے، ہمارے یہاں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ کوئی اردو اخبار خرید کر نہیں پڑھنا چاہتا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر کوئی صرف اپنے معیار کے مطابق پڑھنا چاہتا ہے، جس کی بنیاد پر اردو صحافت کا بھی معیار دن بدن گرتا چلا جا رہا ہے ۔انہوں نے بعض علاقوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں آج بھی اردو صحافت اس لیے زندہ ہے کہ وہاں رکشہ چلانے والا اور موچی تک بھی اپنا اخبار خرید کر پڑھتا ہے اگر ہم بھی یہ مزاج بنا لیں کہ اردو اخبار خرید کر پڑھیں گے تو میں امید کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اردو صحافت کا معیار بلند ہو جائے گا اور اس کا مستقبل بھی کافی روشن ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ موصوف نے مزید کہا کہ پورے اخبار کو اگر چہ پڑھنا ممکن نہیں ہے اور آپ محدود قسم کی نیوز یا مضامین پڑھنے کے عادی ہیں تو پڑھیں لیکن اخبار کو خرید کر ضرور پڑھیں تو اس سے اخبار کا معیار بھی بلند ہو سکتا ہے اور اس کی اشاعت بھی بڑھ سکتی ہے اور ہماری صحافت بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ مزید موصوف نے ماضی کے حوالے سے اردو صحافت پر گفتگو کی اور موجودہ اردو صحافت پر بھی گفتگو کرتے ہوئے ان تمام حقائق کو سامنے رکھنے کی کوشش کی کہ جس کے سبب اردو صحافت کامیاب رہی ہے اور انہوں نے اپنے نظریات و افکار بھی سامنے رکھے جس کی بنیاد پر ہم اردو صحافت کو نہ صرف زندہ رکھ سکتے ہیں بلکہ اس کا معیار بھی بڑھا سکتے ہیں ۔

پروفیسر عبدالحمید اکبر صدر شعبہ اردو خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطاب میں ان تمام حقائق کو پیش کیا جس کی بنیاد پر اردو صحافت کے ذریعےانقلاب پیدا کیا گیا اور ان شخصیات کے حوالے بھی پیش کیے جنہوں نے اردو صحافت کو زندہ رکھنے کے لیے جیل کی سلاخوں کا سامنا کیا لیکن اردو صحافت کو حق گوئی کے طور پر پیش کیا مزید انہوں نے اہل سنت و جماعت کی صحافت کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو کی اور اردو صحافت میں اہل سنت و جماعت کے جو اہم کردار رہے ہیں ان کو بھی سامنے رکھنے کی کوشش کی۔

 اس پروگرام کی تمام تر کاروائی کو بڑے حسن و خوبی کے ساتھ مولانا محمد کاشف رضا شاد مصباحی مدرس دارالعوم رضائے مصطفےٰ نے چلایا۔ اس محفل کا آغاز محمد مجاہد کی تلاوت قرآن سے ہوا اور محمد فریاد حسین اور مولانا افضل حسین بسواکلیان نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیہ نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ اس پروگرام میں شہر کے کئی قلم کار اور اد با حضرات نے شرکت کی خصوصاً مفتی عبد الرازق مصباحی ، مولانا محمد مشتاق احمد مصباحی ، مولانا محمد افروز رضا مصباحی،ڈاکٹر شہباز ارشد اسسٹنٹ فرو فیسر خواجہ بندہ نوازیونیورسٹی  اورمنظور وقار کے نام قابل ذکر ہیں۔(روزنامہ انقلاب دکن)(کے بی این ٹائمز، کلبرگی)

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved