اپریل 2024 کا عنوان— دنیا میں اسلام کی مقبولیت
*مئی 2024 کا عنوان—محرم کے بغیر خواتین کا سفر حج
مختلف اسکیموں میں جمع شدہ رقم پر زکات کے احکام
از:مفتی ناصر حسین مصباحی
ایل آئی سی، پی ایف اور جی پی ایف میں جمع شدہ رقوم پر زکات:
ایل آئی سی (Life Insurance Company of India) : ہندوستان کی ایک بیمہ کمپنی کی اسکیم ہے ، جس میں لوگ ایک مقررہ مدّت تک قسط وار رقم جمع کرتے ہیں اور مدت مکمل ہونے پر جمع شدہ رقم مع اضافہ واپس کی جاتی ہے۔
پی ایف یا جی پی ایف(General Provident Fund):
سرکاری محکموں یا پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کی تنخواہوں سے ہرماہ کچھ رقم کی کٹوتی کرکے ان کے جی پی ایف کھاتے میں جمع کر لی جاتی ہے اور مدتِ ملازمت کی تکمیل یا ریٹائرمنٹ سے پہلے ملازمت چھوڑنے پر طے شدہ قواعد کے مطابق محکمے یا کمپنی کی طرف سے کچھ رقم مزید ملاکر ملازم کو دی جاتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ایل آئی سی، پی ایف اور جی پی ایف میں جمع شدہ رقوم مع اضافہ کی زکوۃ کا کیا حکم ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ایل آئی سی ، جی پی ایف اور پی ایف کی رقوم اگر بقد ر نصاب ہوں یا دوسرے مال سے مل کر نصاب کی مقدار کو پہنچ چائیں تو ان پر سال بسال زکات واجب ہوگی لیکن ادائیگی اس وقت واجب ہوگی جب کہ کم از کم خمس نصاب (نصاب کا پانچوں حصہ) وصول ہو جائے ، اور جتنا وصول ہوگا اسی کی زکات واجب الادا ہو گی ، کل کی نہیں ، مگر کُل وصول ہونے پر گزشتہ سالوں کی زکات بھی حساب کر کے دینا ہوگی ۔
اس لیے آسانی اس میں ہے کہ جتنے روپے جمع ہوں سب کی زکات سال بسال دیتا جائے ۔ معلوم نہیں کب موت آجائے اور وارثین زکات دیں کہ نہ دیں ، یا کئی سالوں کی زکات کی کثیر رقم دیکھ کر لالچ پیدا ہو جائے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر زکات نہ دے جس کی وجہ سے دنیا میں ہلاکت و بربادی اور آخرت میں دردناک عذاب کا سزاوار ہو۔
رہا اس پر ہر سال ملنے والا نفع، تو اس کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں حکومت ہند کے بینکوں سے حاصل شدہ زائد مال ایک قسم کا نفع اور مالِ مباح ہے اور ڈپازٹ کی صورت میں رقم جمع کرنے والا اس منافع کا مالک ہو جاتا ہے ، جسے وہ ہر سال نکال بھی سکتا ہے ، لہٰذا اس پر بھی سال بسال زکات واجب ہوگی،مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ بقدر نصاب ہو یا دوسرے مال سے مل کر نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے ۔ (ان مسائل کی تفصیل ’’مجلس شرعی کے فیصلے‘‘ جلد اول میں دیکھی جا سکتی ہے۔)
بونس کی زکات :
سرکاری یا نجی اداروں کے ملازمین کو سال کے آخر میں کچھ مخصوص رقم تنخواہ کے علاوہ بھی دی جاتی ہے جسے ” بونس“ کہتے ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا انعام ہوتا ہے ، ملازم جب اس پر قبضہ کرلے گا تو ملکیت ثابت ہو جائے گی ، اب اگر وہ تنہا یا دیگر اموال زکات سے مل کر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکات واجب ہوگی۔
ایریر کی رقم پر زکات :
ایریر کی رقم تنخواہ کی ہی بقایا رقم ہوتی ہے ؛ اس لیے جس تاریخ سے گورنمنٹ ایریر کا حکم صادر کرے گی ، اسی تاریخ سے ملازم ایریر کا مالک ہوگا۔ اجراے حکم (O..G) سے پہلے جتنے دنوں کے ایریر کا حکم ہوا اُن دنوں میں ملک ثابت نہیں۔ اور زکات کا وجوب ملک کی تاریخ سے اپنے شرائط کے ساتھ ہوگا۔ [ وہ تنہا یا دیگر اموال زکات سے مل کر نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکات واجب ہوگی ]۔
فکسڈ ڈپازِٹ کی رقم پر زکات:
آج کل لوگ بینک یا ڈاک خانے وغیرہ میں ایک مقررہ مدت تک کے لیے اپنی رقم جمع کر دیتے ہیں۔ متعینہ مدت سے پہلے جمع شدہ رقم نکالنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پھر مدت گزرنے کے بعد اصل جمع شدہ رقم مع اضافہ واپس دی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں حکم یہ ہے کہ اس طرح کی رقم کی حیثیت قرض کی ہے ، لہٰذا اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے تو ان پر بھی سال بسال زکات واجب ہوگی ، مگر ادایگی فورًا لازم نہیں بلکہ اس وقت جب کہ اُس کے قبضہ میں دین قوی (مثلاً قرض) سے بقدر خمُس نصاب یا دینِ متوسط (مثلاً غیرتجارتی استعمالی چیز کی قیمت)سے بقدر کامل نصاب آئے گا۔
در مختار میں ہے: (فَتَجِبُ) زَكَاتُهَا إذَا تَمَّ نِصَابًا وَحَالَ الْحَوْلُ، لَكِنْ لَا فَوْرًا بَلْ (عِنْدَ قَبْضِ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا مِنْ الدَّيْنِ) الْقَوِيِّ كَقَرْضٍ (وَبَدَلِ مَالِ تِجَارَةٍ) فَكُلَّمَا قَبَضَ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا يَلْزَمُهُ دِرْهَمٌ.
(الدر المختار ج:2، ص: 38، كتاب الزكاة، باب زكاة المال)
ایڈوانس رقم پر زکات:
تجارتی کاروبار میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خریدار مال کی قیمت پہلے ہی ادا کر دیتا ہے، اور مال، بیچنے والے ہی کے پاس پڑا رہتا ہے اس پیشگی دی ہوئی رقم کو ایڈوانس کہتے ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی شخص مکان یا دُکان کرایہ پر لینا چاہتا ہے تو اسے کچھ رقم بطور ایڈوانس مالک مکان کو دینی پڑتی ہے جو کرایہ میں کٹ کر ختم ہو جاتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ایڈوانس رقم کی زکات خریدار و کرایہ دار دونوں پر واجب ہوگی یا مال بیچنے والے مالک مکان پر ؟
اس سلسلہ میں فقہار گرام کے ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ اس طرح کے مال پر زکوۃ خریدار پر واجب نہیں بلکہ بیچنے والے پر ہے کیوں کہ وہ رقم خریدار کے قبضہ اور مِلک سے نکل چکی ہے اور بیچنے والا اس کا مکمل مالک ہو چکا ہے لہذا وہی اس کی زکات ادا کرے گا ۔ بحر الرائق میں فتاوی قاضی خاں سے ہے:
رَجُلٌ اشْتَرَى عَبْدًا لِلتِّجَارَةِ يُسَاوِي مِائَتَيْ دِرْهَمٍ بِمِائَتَيْنِ وَنَقَدَ الثَّمَنَ ولم يَقْبِضْ الْعَبْدَ حتى حَالَ الْحَوْلُ فَمَاتَ الْعَبْدُ عِنْدَ الْبَائِعِ كان على الْبَائِعِ زَكَاةُ الْمِائَتَيْنِ …لأَنَّهُ مَلَكَ الثَّمَنَ وَحَالَ الْحَوْلُ عليه عِنْدَهُ.(الفتاوی الهندية 1/182، كتاب الزكاة ، مسائل شتى)
ترجمہ :کسی نے تجارت کی نیت سے ایک غلام خریدا جس کی قیمت دو سو درہم کے برابر ہے ، خریدار نے قیمت نقد ادا کر دی اور غلام پر قبضہ نہیں کیا یہاں تک کہ سال گزر گیا اور غلام، بیچنے والے ہی کے پاس مر گیا تو بیچنے والے پر دو سو درہم کی زکات واجب ہے، اس لیے کہ وہ قیمت کا مالک ہو گیا، اور اس پر سال بھی گزر گیا۔
اس سے واضح ہے کہ اس رقم کی زکات بیچنے والا دے گا ، اگر چہ بیچا ہوا غلام اسی کے پاس رہا، مگر چوں کہ بیچنے والا ،غلام کی قیمت کا مالک ہو گیا تو اب وہی اس کی زکات دے۔ اسی طرح ایڈوانس رقم کا لینے والا چوں کہ اس کا مالک ہو گیا اس لیے دینے والے پر زکات واجب نہیں بلکہ لینے والے پر ہے۔
اس سے یہ مسئلہ بھی واضح ہو گیا کہ کرایہ کی رقم جو پیشگی مالک مکان کو دی گئی اس کی زکات بھی مالک پر ہی واجب ہے نہ کہ کرایہ دار پر ۔ اس حکم کو علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بدائع الصنائع میں بیان فرمایا:
إن الزكاة في الأجرة المعجّلة تجب على الآجر؛ لأنه ملكه قبل الفسخ. (بدائع الصنائع3/391، كتاب الزكاة، الشرائط التي ترجع على من عليه المال)
ترجمہ:پیشگی کرایہ میں زکات مالک مکان پر واجب ہے کیو ں کہ کرایہ داری کے ختم ہونے سے پہلے تک وہ اس کا مالک ہے۔
سیکورٹی کی رقم پر زکات:
مکان وغیرہ کرایہ پرلینے کی صورت میں کرایہ دار مالکِ مکان کو کرایہ کی متعینہ رقم کے علاوہ ایک بڑی رقم ضمانت کے طور پر ادا کرتا ہے ۔ جسے پگڑی ، سیکورٹی یا ضمانت کہتے ہیں۔ اس رقم کو کرایہ دار اس وقت واپس لے سکتا ہے جب مکان خالی کر دے یا کرایہ د اری کا معاملہ ختم ہو جائے، درمیان میں لینے کا اختیار نہیں رہتا ہے ۔البتہ جتنی رقم ادا کر چکا ہوتا ہے وہ پوری مل جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس رقم کی زکات کرایہ دار پر واجب ہے یا مالکِ مکان پر (جس کے قبضے میں وہ رقم ہے) ۔
اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ سیکورٹی کی رقم در حقیقت ایک قرض ہے جو کرایہ دار مالکِ مکان کو دیتا ہے اور قرض میں یہ متعین ہے کہ اس کی زکات اصل مالک پر ہی واجب ہے ۔ لہٰذا سیکورٹی کے طور پر دی ہوئی رقم کی زکات کرایہ دار پر واجب ہوگی بشرطے کہ وہ صاحب نصاب ہو اور اس پر سال گزر گیا ہو۔ علامہ شامی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:
(فَتَجِبُ) زَكَاتُهَا إذَا تَمَّ نِصَابًا وَحَالَ الْحَوْلُ، لَكِنْ لَا فَوْرًا بَلْ عِنْدَ قَبْضِ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا مِنْ الدَّيْنِ) الْقَوِيِّ كَقَرْضٍ. (رد المحتار ج:2، ص: 38، كتاب الزكاة، باب زكاة المال)
تو ان كی زکات واجب ہے جب کہ نصاب مکمل ہو جائے اور سال گزر جائے، لیکن (ادایگی) فورًاواجب نہیں ، بلکہ چالیس درہم کی مقدار وصول ہونے کے بعد ۔ دَینِ قوی سے جیسے قرض اور مالت تجارت کی قیمت۔ لہٰذا جب جب چالیس درہم وصول کرے گا اس پر ایک درہم درہم دینا لازم ہوگا۔
کمپنیوں کے مخصوص شیئرز پر زکات
بعض کمپنیوں میں متعدد شرکا ہوتے ہیں اور اپنے اپنے حصے کے مطابق اثاثے اور آمدنی کے مالک ہوتے ہیں، بعض صورتوں میں کمپنی کا اثاثہ و مالیت نصاب زکات سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے شیئر ہولڈرز (حصہ داروں) کی تعداد اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اگر کمپنی کی پوری مالیت کی تقسیم حصہ داروں پر کی جائے تو ان میں سے کوئی بھی صاحب نصاب نہیں ہوتا ہے، یا کچھ لوگ ہوتے ہیں ، کچھ نہیں ہوتے۔
دریافت طلب یہ ہے کہ وجوب زکات میں کمپنی کی مجموعی مالیت کا اعتبار ہوگا یا ہر شریک کے انفرادی حصے کا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کے مشترک معاملات میں کمپنی کی مجموعی مالیت کے اعتبار سے زکات واجب نہیں ہوگی بلکہ حصّہ داروں کی انفرادی حالت کا اعتبار ہوگا۔ جس شخص کا حصہ بقدر نصاب ہوگا یا دوسرے مال کے ملانے سے نصاب کامل ہو جاتا ہے اس پر زکات واجب ہوگی اور جس کا نصاب نہ شیئر سے پورا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے دوسرے اموال ملانے سے اس پر زکات واجب نہیں۔
درّ مختار ميں علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(وَلَا تَجِبُ) الزَّكَاةُ عِنْدَنَا (فِي نِصَابٍ) مُشْتَرَكٍ (مِنْ سَائِمَةٍ) وَمَالِ تِجَارَةٍ (وَإِنْ صَحَّتْ الْخُلْطَةُ فِيهِ).(الدر المختار 2/304، كتاب الزكات، باب زكاة المال)
ترجمہ:ہمارے نزدیک مشترک چرائی کے جانور اور مشترک مال تجارت کے نصاب میں زکات واجب نہیں ہے اگر چہ اس میں شرکت صحیح ہو۔
لہٰذا جمع شدہ رقم ، مالِ تجارت اور نفع میں سے جس کے حصے میں جس قدر آئے اسی کے حساب سے زکات واجب ہوگی۔
دُکان مکان اور ٹینٹ کی چیزوں پر زکات:
دکان ، مکان ، ٹینٹ ، یا دوسرے سامان جو کرائے پر اٹھانے کے لیے ہوں، ان پر زکات نہیں ہے، اگر چہ وہ لاکھوں روپے کے ہوں۔ یوں ہی کرائے پر چلنے والی گاڑیوں یا بسوں پر بھی زکات واجب نہیں ہوگی ۔ ہاں ! ان کی آمدنی تنہا یا دوسرے مال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائے تو زکات کی دیگر شرائط پائے جانے پر اس کی زکات دینا ہوگی ۔
گاڑیوں پر زکوٰۃ:
گھریلو استعمال والی گاڑیوں،جانوروں اور حفاظتی ہتھیار نیز رہائشی مکان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ چیزیں کرایہ پر دے دی جائیں تو ان کے کرایہ پر زکات واجب ہوگی مگر اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے اور نصاب تک پہنچ جائے۔
ہاں اگر یہ گاڑیاں فروخت کرنے کے لیے ہوں تو اب یہ سامانِ تجارت پر زکات اپنی شرائط کے ساتھ واجب ہے۔
زکاۃ کے چند مسائل
مولانا محمد اسلم مصباحی
قبل از وقت (اڈوانس) زکات نکالنے کا حکم:کسی شخص کی زکات کی ادائیگی کا وقت رمضان میں تھا یا رمضان کے بعد تو اس نے قبل از وقت رمضان میں رمضان کی فضیلت پانے کے لیے زکات ادا کردی تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ مال پر سال پورا ہونے سے پہلے اگر زکات نکال دیا جائے تو زکات ادا ہو جائے گی۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: ویجوز تعجیل الزکات بعد ملک النصاب، ولا یجوز قبلہ، کذا في الخلاصۃ۔
زکات ادا کرنے کے لیے رمضان کا انتظار:نصاب پر جب سال پورا ہو جائے فوراً زکات ادا کرنا واجب ہے، ادا کرنے میں دیر کرنا گناہ ہے مثلا: ایک شخص پہلی محرم کو مالک نصاب ہوا تو سال گزرنے پر پہلی ہی محرم کو اس پر واجب ہے کہ زکات ادا کرے، ذرا بھی دیر نہ کرے ورنہ گناہ گار ہوگا۔
آج یہ چلنہے کہ صرف رمضان ہی میں زکات دیتے ہیں دوسرے مہینوں میں نہیں دیتے خلاف شریعت ہے، ان میں سے جن لوگوں کے نصاب پر رمضان سے پہلے سال تمام ہوا وہ لوگ اس وقت زکات نہ ادا کر کے رمضان کا انتظار کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہر شخص یاد رکھے کہ وہ کس وقت مالک نصاب ہوا تھا۔ سال پورا ہونے پر اسی وقت حساب کر کے زکات نکال دے، اور اگر کسی کو یہ یاد نہ ہو کہ وہ کس تاریخ ، کس مہینے میں مالک نصاب ہوا تھا تو وہ سوچے اور غور کرے، یاد کرنے کی کوشش کرے جس تاریخ پر دل جمے اسی کو معین کر لے۔
اعتبار انگریزی مہینوں کا ہے یا عربی مہینوں کا؟جنوری ، فروری کا اعتبار نہیں، اعتبار عربی مہینوں کا ہوگا۔ عربی مہینے کی جس تاریخ، گھنٹہ، منٹ پر مالک نصاب ہو ا ، سال پورا ہونے پراسی مہینے کا وہی گھنٹہ ، منٹ اس کے لیے زکات کا سال ہے۔ عربی مہینے کی اسی تاریخ، گھنٹہ، منٹ پر زکات ادا کرنا واجب ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہے: العبرۃ في الزکات للحول القمري، کذا فی القنیۃ .
فرضیت زکات کے سلسلے میں عالم اور جاہل برابر ہیں: عالم مالک نصاب ہو اور اس پر زکات فرض ہو اس کے باوجود وہ زکات نہ دے تو اس کی بھی وہی سزا ہے جو عوام کی ہے، اسی طرح سید اگر اتنا مال دار ہو کہ اس پر زکات فرض ہو تو اس پر بھی زکات فرض ہے، نہیں دیتا ہے تو گناہ گار ہے۔ البتہ سید کو زکات لینا جائز نہیں، سید کو دینے سے زکات ادا نہ ہوگی۔
ادائیگی زکات کی نیت سے مال علاحدہ کر لینا کافی نہیں:
زکات کی رقم ادا کی نیت سے کسی کو دیا، وہ ادا کرنے جا رہا تھا کہ کسی وجہ سے زکات کی رقم ضائع ہو گئی ، اس سے زکات ادا نہ ہوئی، بلکہ واجب ہے کہ دوبارہ زکات ادا کرے۔
رد المحتار میں ہے: فلو ضاعت لاتسقط عنہ الزکاۃ، ولو مات کانت میراثا عنہ.
ادائے زکات کے لیے متعین مال میں تصرف: اداے زکات کی نیت سے مال علاحدہ کر دیا اور ابھی فقیروں کو دیا نہیں یہاں تک کہ محتاج ہو گیا تو یہ ابھی اس کا مال ہے، وہ اسے تصرف میں لا سکتا ہے لیکن جتنے سال مالک نصاب رہا اتنے کی زکات ادا کرنا اس پر فرض ہے۔ بے ادا کیے بری الذمہ نہ ہوگا کتنا ہی تنگ دست ہو جائے۔
ادائیگی زكات سے بچنے کے لیے حیلہ اختیار کرنا: زید سال گزرنے سے پہلے اپنی ساری املاک اپنی بیوی کو اس طرح ہبہ کر دیتا ہے کہ اس پر سے اپنا قبضہ اٹھا کر بیوی کو قبضہ دےدیتا ہے تو واقعی اس کے اموال پر حولان حول نہیں ہوتا اور زکات اس پر واجب نہیں۔ مگر چوں کہ وہ ایسا زکات سے فرار کے لیے کرتا ہے اس لیے دیانۃً سخت معیوب اور ناپسندیدہ ہے ۔ زکات فرض ہے اور اسلام کے ارکان میں سے ہے، اس کی ادایگی میں جو ثواب ہے وہ نفلی صدقات میں نہیں، اس سے فرار سخت معیوب، نا پسندیدہ۔ ایسے لوگوں کو ’’اصحاب سبت‘‘ کے قصے سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔
حضرت موسی علیہ الصلاۃ والتسلیم کی شریعت میں سنیچر کو مچھلیوں کا شکار کرنا حرام تھا، کچھ یہودیوں نے چالاکی دکھائی اور مچھلیاں پکڑنے کے لیے حیلہ اختیار کیا، اس چالاکی پر وہ سب بندر بنا دیے گئے۔
طالب علم کااپنے گھر کی زکات کو بوقت ضرورت استعمال کرنا: طالبان علوم دینیہ اپنے گھر کی زکات بوقت ضرورت استعمال نہیں کر سکتے ، کیوں کہ بیٹے کو زکات دینے سے زکات ادا نہ ہوگی ، اگر چہ کتنی ہی اشد ضرورت ہو۔
اس زمانے میں مستحق کی تحقیق بہت ضروری ہے:
جس کو زکات دیا جائے اگر وہ اسے ناجائز کاموں میں خرچ کرے تو دینا جائز نہیں، اور اگر وہ اپنی ضروریات میں صرف کرے اور واقعی وہ مستحق ہو تو اسے دینا مقدم ہے مگر اس زمانے میں مستحق کی تحقیق بہت ضروری ہے بہت سے غیر مستحق جن کے پاس کثیر مال جمع ہوتا ہے اپنے آپ کو ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔
زکات کی ادایگی میں حق تقدم کس کو ہے:زکات کی ادایگی میں حق تقدم رشتہ داروں کو ہے، یا پھر زیادہ ضرورت مندوں کو، یا پھر جو لوگ زیادہ دین دار ہوں یا زیادہ متقی پرہیزگار ہوں، یا جہاں زکات دینے میں مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہو۔
رشتہ داروں میں حق تقدم کس کو ہے:ماں باپ اپنی اولاد کو، اولاد اپنے ماں باپ کو، شوہر اپنی بیوی کو، بیوی اپنے شوہر کو زکات وفطرہ کی رقم نہیں دے سکتے ۔بقیہ رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کو دے سکتے ہیں۔ جیسے: بھائی ، بہن، چچا، خالہ ، مامو، پھوپھی وغیرہ ۔ ان میں جو زیادہ مستحق ہو اسے تقدم حاصل ہے۔ نوٹ :ماں باپ میں دادا دادی ، نانا نانی اوراولادمیں پوتے پوتیاں نواسیاں نواسے بھی شامل ہیں۔
پیشہ ور بھیک مانگنے والے کو زکات کی رقم نہ دی جائے:
تجربہ شاہد ہے کہ سائلین جن کا پیشہ بھیک مانگنا ہے عموماً مال دار ہوتے ہیں؛ اس لیے پیشہ ور بھیک منگوں کو زکات کی رقم ہرگز ہرگز نہ دی جائے۔ لیکن اس ظن غالب پر کہ سائل مالک نصاب نہیں زکات دےد ی تو ادا ہو گئی۔
بورڈ سے ملحق مدارس کو زکات دینے کا حکم:بورڈ سے ملحق مدارس کو زکات وفطرہ ودیگر عطیات سے مدد دینا بلا شبہہ جائز ہے جب کہ زکات، فطرہ، صدقات واجبہ کی رقوم حیلہ شرعیہ کے بعد صرف کی جاتی ہوں؛ اس لیے کہ ان مدارس کا بھی معظم مقصود علم دین ہی کی تعلیم ہے، رہ گئی سائنس، جغرافیہ، حساب وغیرہ کی تعلیم یہ ضمنی ہے جیسے درس نظامیہ میں منطق، فلسفہ، اقلیدس، حساب ہمیشہ سے داخل رہا ہے حالاں کہ فلسفہ کے بہت سے مسائل الحاد وزندقہ ہیں، مدرسین وطلبہ کی نیت پر حملہ کرنا دیانت کے خلاف ہے۔ حدیث میں ہے : أفلا شققت عن قلبہ۔
دور حاضر میں بیت المال قائم کرنے کی شرط:
اس زمانے میں مسلمان پر آئے دن افتاد پڑتی رہتی ہے پھر مسلمانوں میں بہت سے حاجت مند محتاج ہوتے ہیں اس کو سامنے رکھ کر اگر مسلمان اپنے طور پر کوئی بیت المال قائم کریں جس میں زکات ، فطرہ، چرم قربانی اور مسلمانوں کے عطیات جمع کریں اور ان کو دیانت داری کے ساتھ ان کے صحیح مصرف میں صرف کریں تو کوئی حرج نہیں۔
بیت المال میں زکات، فطرہ ودیگر صدقات واجبہ کی رقوم بھی لی جا سکتی ہیں مگر ان کی ادایگی کے لیے شرط یہ ہے کہ ان میں سے ایک پیسہ بھی کسی صاحب نصاب یا نسبًا کسی ہاشمی کو نہ دیا جائے، اور جس محتاج کو دیا جائے اسے مالک ومختار بنا کر کے قبضہ دلا دیا جائے۔ مثلا کسی محتاج لڑکی کی شادی کرنی ہے تو زکات وفطرہ کی جو رقم بھی اسے دی جائے اسے اس کا مالک بنا دیا جائے یہ پابند نہ کیا جائے کہ وہ اسے فلاں مصرف ہی میں صرف کرے گی۔ حیلہ شرعی کی اجازت شرعی ضرورت کے پائے جانے کے وقت ہے ۔ کب یہ ضرورت ہے ، کب نہیں اس کی صورت متعین کر کے کسی معتمد مفتی سے اجازت لےکر حیلہ شرعی کیا جائے ۔
آج ہوتا یہ ہے کہ بیت المال کے زکات وفطرہ وغیرہ کے رقوم ہی سے کلرک اور چپراسی رکھے جاتے ہیں۔ اسی سے خریداری کی جاتی ہے ، آنے جانے والوں کے لیے چاے ناشتہ اور دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ان سب میں زکات وفطرہ کی رقوم کو صرف کرنا جائز نہیں۔ ہاں اس کی اجازت ہے کہ جب حاجت شرعیہ ہو تو حیلۂ تملیک کر کے زکات کی رقوم علاوہ تملیک کے دوسری چیزوں میں صرف کی جا سکتی ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ حاجت شرعیہ ہو، دھوم دھام سے شادیاں کرانا، جہیز دینا، کسی بچی کو جوڑے دینا، زیور بنانا یہ حاجت شرعیہ نہیں۔
دوسری بات یہ کہ سال تمام ہونے پر زکات علی الفور واجب ہوتی ہے یعنی اس کی ادایگی فوراً واجب ہے اور تاخیر گناہ۔ اب اگر بیت المال والوں نے زکات وغیرہ کی رقوم وصول کر کے بینک میں جمع کر دیا اور نیت یہ کی کہ ہم کو جب ضرورت ہوگی نکالیں گے تو محض اتنے سے زکات ادا نہ ہوگی جب یہ رقم مستحق زکات تک پہنچے گی تو ادا ہوگی؛ اس لیے زکات وغیرہ کی رقوم وصول کر کے بلا تاخیر زکات کے مستحقین کو دینا واجب ہے اور تاخیر کرنا گناہ۔ اگر بوجہ ضرورت شرعیہ کسی کام کے لیے حیلۂ تملیک کی ضرورت ہو تو حیلۂ تملیک کر کے پھر بینک میں جمع کیا جائے تاکہ زکات کی ادایگی میں تاخیر نہ ہو۔
(ماخوذ وملخص از فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور ، جلد ہفتم)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org