محمد اعظم مصباحی مبارک پوری
نام و نسب:حضرت ریحانہ نام، باپ کا نام شمعون یا زید تھا (ریحانہ بنتِ شمعون ہی آپ کا صحیح سلسلۂ نسب ہے،باختلافِ روایت سلسلۂ نسب یہ ہے: ریحانہ بنتِ شمعون بن زید، بعض روایتوں میں ریحانہ بنت زید بن عمر بن جنافہ بن شمعون بن زید ہے، قبیلہ بنو قریظہ سے تھیں۔
نکاح:پہلے بنوقریظہ کے ایک شخص حکم سے نکاح ہوا تھا، غزوۂ بنوقریظہ کے دوسرے دن یہودیوں کے ساتھ حکم بھی قتل کر دیا گیا، اس روز جو عورتیں اور بچے اسیر ہو کر آتے تھے ان ہی میں حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بڑی احتیاط کے ساتھ ام المنذر بنتِ قیس کے گھر میں ٹھہرایا۔
اسلام :حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تمھیں اختیار ہے چاہے اسلام قبول کرلو یا اپنے مذہب (یہودیت) پرقائم رہو؛ انھوں نے اپنے قدیم دین پررہنا پسند کیا؛ لیکن حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کواُن کے اسلام نہ لانے کا بڑا رنج ہوا اور دوبارہ فرمایا: اگرتم اسلام قبول کرلو تو میں تمھیں اپنے پاس رکھوں گا؛ لیکن انھوں نے پھر انکار کیا، یہ مزاجِ اقدس پر اور زیادہ گراں گذرا اور خاموشی اختیار فرمالی گئی، ایک دن آپ مجلس میں تشریف فرما تھے کہ یکا یک ایک شخص کے پیر کی چاپ سنائی دی، آپ نے فرطِ مسرت سے تمام حاضرین سے فرمایا کہ یہ ثعلبہ بن سعید ہیں، جو ریحانہ کے اسلام لانے کی خوشخبری لے کرآ رہے ہیں ۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ نے اُن سے فرمایا اگر تم اللہ اور رسول (اسلام) کو اختیار کرتی ہوتو میں تمھیں اپنے لیے خاص کرلوں گا، اس پرحضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہاں! میں اللہ اور اس کے رسول کواختیار کرتی ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں انھوں نے اسلام قبول کرنا اپنی قدیم دینی اور قومی حمیت کے خلاف سمجھا ہو اور بعد میں جب اس کی خوبیوں سے واقف ہو گئی تو قبول کر لیا ہو، قبولِ اسلام کے بعد حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی ملک میں رکھا اور بعض روایتوں کے مطابق آپ نے انھیں آزاد کرکے اپنے حبالۂ عقد میں لے لیا اور وہ ازواجِ مطہرات میں داخل ہوئیں۔ ابن سعد اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے انھیں ازواجِ مطہرات میں اور اکثر اہلِ سیر اور اہلِ رجال نے انھیں سراری میں شمار کیا ہے؛ لیکن ابنِ اسحاق کی ایک روایت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ان سے نکاح نہیں کیا تھا؛ بلکہ انھیں یہ اختیار بخشا تھا کہ اگروہ چاہیں توآپ ان سے نکاح فرمالیں اور انھیں ازواجِ مطہرات میں شامل کر لیں؛ لیکن انھوں نے فرمایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرآپ اپنی ملک ہی میں رکھیں تومیرے اور آپ دونوں کے لیے آسانی ہو؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی ملک ہی میں رکھا۔
فضائل و کمالات :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بڑی محبت تھی، جب وہ کوئی فرمائش کرتی تھیں تو آپ ضرور پوری کرتے تھے، ابنِ سعد میں ہے کہ ازواجِ مطہرات کی طرح ان کی بھی باری کا دن مقرر تھا اور باپردہ رہتی تھیں۔
وفات:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے سے چند مہینے پہلے ہی اس دارِ فانی کوچھوڑ کرداربقا میں پہنچ گئیں (بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کی وفات کے چھ مہینے پہلے آپ کا انتقال ہوا اور بعض روایتوں میں ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع سے واپس آنے کے بعد آپ کی وفات ہوئی)۔ آپ جوانی کی حالت میں رحلت فرما گئیں۔ آپ سن 9ھ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حیات مبارکہ میں ہی انتقال کر گئیں۔ آپ کو جنت البقیع میں سپرد خاص کیا گیا۔
مآخذ و مراجع: طبقات ابن سعد، الاصابہ، سیرت ابن ہشام۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org