
بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: یا تو بیان کرنے والے سے کمی ہو گئی یا آپ نے مسئلہ کو کما حقہ یا دنہیں رکھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ (ابھی) نصف یا اس سے کم بچہ باہر (نکلا ہو) اور نماز کا وقت جارہا ہو تو اس عورت پر نماز فرض ہے۔ ابھی اسے نفاس نہیں آیا ہے۔ نصف سے زائد بچہ جب باہر ہو جائے تو جو خون نکلے وہ نفاس ہے۔ نصف یا اس سے کم نکلنے پر جو خون آئے وہ نفاس نہیں، عالمگیری میں ہے: لو خرج أکثر الولد تکون نفساء وإلا فلا۔ ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کا اندیشہ قویہ نہ ہو کہ نماز پڑھے گی تو بچہ مر جائے گا۔(حاشیہ: یہ مسئلہ بہار شریعت میں اس طرح ہے: بچہ ابھی آدھے سے زِیادہ پیدا نہیں ہوا اور نماز کا وقت جارہا ہے اور یہ گمان ہے کہ آدھے سے زِیادہ باہر ہونے سے پیشتر وقت ختم ہو جائے گا تو اس وقت کی نماز جس طرح ممکن ہو پڑھے ،اگر قیام، رکوع، سجود نہ ہوسکے،اشارے سے پڑھے، وُضو نہ کرسکے ،تیمم سے پڑھے اور اگر نہ پڑھی تو گناہ گار ہوئی توبہ کرے اور بعد طہارت قضا پڑھے۔ (حصہ دوم، حیض ونفاس کے متعلق احکام، ص: ۹۲، قادری کتاب گھر) در مختار و رد المحتار بحوالہ بحر، ظہیریہ، منیۃ المصلی میں بھی ایسا ہی ہے۔ اور حضرت شارح بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جو دوسری شرط ذکر کی ہے ، اس کا حل وہی ہے جو شامی وبہار شریعت میں ہے کہ ممکن نہ ہو تو تیمم کر کے اشارے سے نماز پڑھے، اس صورت میں بچہ کے مرنے کا اندیشہ نہیں لہذا معمول کے مطابق نماز پڑھنے کی صورت میں بچے کے مرنے کا قوی اندیشہ ہو تو بچے کو بچائے اور اشارے سے رکوع وسجود کر کے نماز مکمل کرے۔ واللہ تعالی اعلم۔ محمد نظام الدین الرضوی) (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org