
بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: ہمارا مذہب یہی ہے کہ اگر نماز فجر کے اثنا میں سورج طلوع کر آئے تو نماز باطل ہو جائے گی۔ بعد میں اس کی قضا پڑھنا فرض ہے، وجہ یہ ہے کہ فجر کا پورا وقت وقت کامل ہے ۔ فجر کے اخیر وقت میں نماز شروع کی تو بھی کامل وقت میں شروع کی۔ اب اس نماز کا کامل طور سے پڑھنا واجب ہے اور طلوع آفتاب کے بعد وقت ناقص آگیا اور اس وقت میں جو نماز پڑھی جائے گی وہ ناقص ہوگی۔ تو نماز واجب ہوئی تھی کامل اور اس کا کچھ جز ناقص ہوا۔ اور نقصانِ جزء نقصانِ کل کو مستلزم تو جیسے واجب ہوئی تھی ویسے ادا نہ ہوئی اس لیے نماز فاسد ۔ اور عصر میں غروب آفتاب کے ۲۰؍ منٹ پہلے سے وقت مکروہ شروع ہو جاتا ہے اس وقت میں جس نماز کا تحریمہ باندھا وہ ناقص ہی کا ہوگا اس لیے سورج ڈوبنے سے نماز میں جو نقصان پیدا ہوا وہ حارج نہیں کہ ناقص واجب ہوئی اور ناقص ادا کیا۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کا جواب یہ ہے کہ یہ خبر واحد ان کثیر احادیث کے معارض ہے جن میں طلوع آفتاب کے وقت نماز سے ممانعت آئی ہے اور جب دو حدیثوں میں تعارض ہو اور تطبیق کی کوئی صورت نہ ہو تو ان دو میں سے ایک کو قیاس سے ترجیح دی جائے گی، جیسا کہ اصول فقہ میں دلائل سے ثابت ہے اور نماز فجر کے بارے میں قیاس سے ممانعت والی حدیثوں کو ترجیح دی جائے گی اور نماز عصر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کو ترجیح دی جائے گی، جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org