بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: مذہبی جلسہ جس میں صرف احکامِ شرعیہ اور فضائلِ سید المرسلین صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین بیان ہوئے ، اس جلسہ کا پورا بیان علمِ دین ہی ہے ۔ ان مقررین کی شان میں الفاظ مذکورہ فی السوال کا استعمال حرام اور اشد حرام ہے اور ان مقررین اور ان کے وعظ و تقریر (علمِ دین) کا تمسخر و استہزا ہے ۔ یہ دونوں لفظ استہزا و مذاق میں صریح ہیں اور لفظ صریح کے استعمال میں نیت کا ہر گز اعتبار نہیں ، لہٰذا مذاق مقصود ہو یا نہ ہو ، بہر حال مذاق ثابت ہے ۔ دونوں لفظوں سے مقررین اور ان کے وعظ کی توہین ہوئی۔ فرق اتنا ہے کہ دونوں لفظ مقررین کی توہین میں عبارت النص ہیں اور ان کے وعظ و تقریر کی توہین میں اشارۃ النص ہیں ۔ یا یہ فرق کہ مقررین کی توہین پر مطابقۃً دلالت کرتے ہیں اور وعظ و تقریر کی توہین پر التزاما۔ مگر دونوں کی توہین ان الفاظ کا مدلول ہے۔ علماے دین کی توہین کو ائمۂ دین نے کفر لکھا ہے ۔ مجمع الانہر میں ہے : والاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر۔ دین کو داستان بتانا ، علما کے وعظ کو ہوا کہنا بھی کفر فرمایا ہے ۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے: جاہلٌ قال آنہا کہ علم می آموزند داستانہاست کہ می آموزند او قال باداست آں چہ می گویند۔ او قال تزویر است۔ او قال من علم حیلہ را منکرم۔ھذا کلہ کفر کذا فی المحیط۔ منہ کی بواسیر اور ہیضہ کہنا تو ہوا اور داستان کہنے سے بڑھ کر ہے۔ اگرچہ زید نے یہ الفاظ انھیں مقررین کے لیے استعمال کیے ہیں جنھوں نے اپنی تقریر کو معیار سے زیادہ دراز کیا ہے، اسی لیے کہا: اب پہلے ہی سے وعظ کا پروگرام مرتب کر لینا چاہیے ۔ مقصد یہ ہے کہ پہلے کی طرح تقریر معیارسے زیادہ دراز نہ ہو۔ لیکن مقررین کی تقریر کا وہ حصہ جو دراز کیا گیا ہے وہ بھی احکامِ شرعیہ اور فضائل پر ہی مشتمل ہے ، اس لیے اس کی اہانت بھی علم دین کی اہانت ہے ، لہذا زید پر توبہ فرض ہے احتیاطاً تجدیدِنکاح بھی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org