29 April, 2024


Shareh Bukhari Dar-ul-Ifta Al Jamiat-ul-Ashrafia, Mubarakpur Azamgarh U.P India


ایک عورت نے دعوت اسلام قبول کر کے ہمارے اہل برادری کے ایک شخص یعنی نور باف سے شادی کرلی۔ اس سے تین لڑکیاں پیدا ہوئیں، اس نے اسی برادری میں ایک لڑکی کی شادی کردی، اس کواور شوہر کو برادری و عزیز و اقارب بخوشی اب تک اس کی نیک چلنی وغیرہ پر مثل اپنے خاص برادری کے چلتے آئے مگر کچھ لوگ اس کی لڑکی سے شادی کرنے میں یوں گریز کرتے ہیں کہ نسل خراب ہو جائے گی و کفویت برباد ہو جائے گی تو اس میں چند امور دریافت طلب ہیں : اول نسب باپ سے شمار ہوتا ہے یا ماں سے؟ دوسرے شرعاًہندوستان میں کون کس کا کفو ہوتا ہے یعنی شرع نے کس کو کس کا کفو اعتبار کیا ہے ۔ تیسرے محض زبانی اپنے کو اہل برادری شمار کرتے ہیں ، بجز اس کے دو تین پشت کا حال خود بیان کر سکتے ہیں یا لوگ جانتے ہیں۔ آگے کا کوئی پتہ نہیں۔جب ایسی حالت نسب کی ہو تو ایسی لڑکی جس کے باپ اپنے عزیز و اقارب سے ہیں،صرف ماں نو. مسلمہ ہے وہ بھی نہایت نیک پارساپابند شریعت ہم پیشہ ایسی لڑکی سے پر ہیز کرنا اور معیوب جاننا اور ہٹ کر کے ترک کرنا کیسا ہے؟ اگر کوئی شخص محض اخوان فی الدین ، وہم پیشہ ہونے کی کوشش کرے تو جو رسم خلاف شریعت ہو وہ مٹ جائے ۔شریعت جس کو خدا ورسول نے فرمایا اس پر عمل کرے توعند اللہ مستحق ثواب و اجر ہوگا یا نہیں؟ خلاصہ یہ ہے کہ جب نسب کا تحقیقی حال معلوم نہیں محض رسمی طور پر کہتے ہیں کہ ہم فلاں قوم ہیں اس حالت میں ہم پیشہ کفو کہلایا جائے گا یانسب خراب ہوگا ؟ بینوا توجروا

Fatwa #1078

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: (۱) اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے اولاد کا نسب باپ سے شمار ہوتا ہے ماں سے نہیں ۔ قال اللہ تعالیٰ:وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ . ( ( تفسیر احمدی شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے : انما ذکر ھذا دو نھما لیعلم ان الوالدات انما ولدن لاجلھم اذ الاولاد للآباء والنسب الیھم لاالیھن۔( ( واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (۲) . کفومیں چھ چیزوں کا اعتبار ہے اول نسب، دوسرے اسلام ،تیسرے پیشہ ،چوتھے حریت ،پانچویں دیانت، چھٹے مال ۔ قریش کے جتنے خاندان ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے کفو ہیں۔ قریش کے علاوہ عرب کے تمام قبائل و خاندان ایک دوسرے کے کفو ہیں۔ غیر عربی ، عربی کا کفو نہیں ۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے : فقریش بعضھم اکفاء بعض و بقیۃ العرب بعضھم اکفاء بعض. ( ( اسی میں ہے: العجمی لا یکون کفوا للعربیۃ۔ ( ( غیر عرب خواہ ہندوستانی ہو یا کسی دوسرے ملک کا رہنے والا ہو کفو ہونے نہ ہونے میں اس کے قدیم الاسلام و جدید الاسلام ہونے کو بھی دخل ہے ،یعنی جو شخص خود مسلمان ہو ا، اس کے باپ دادا مسلمان نہ تھے وہ اس کا کفو نہیں جس کا باپ مسلمان ہو ۔اور جس کا صرف باپ مسلمان ہو وہ اس کا کفو نہیں جس کا دادابھی مسلمان ہو۔ اور باپ دادا دو پشت سے صاحبِ اسلام ہوں تو دوسری طرف اگرچہ زیادہ پشتوں سے صاحبِ اسلام ہو ں،کفو ہیں ۔ شرح وقایہ میں ہے : و فی العجم اسلاما فذ و ابوین فی الاسلام کفو لذی آبائٍ فیہ و مسلم بنفسہ غیر کفو لذی اب فیہ ولاذو اب فیہ لذی ابوین فیہ ۔ ( ( کفاءت کا مدار چوں کہ عرف پر ہے لہٰذا ہندوستان میں جو قومیں جن قوموں کی کفو سمجھی جاتی ہیں اور مناکحت یعنی شادی بیاہ رائج ہے ۔ وہ ایک دوسرے کی کفو ہیں اور جو قومیں دوسری قوموں سے شادی بیاہ کو ننگ و عار سمجھتی ہیں وہ ان کی کفو نہیں کما صرح بہ کتاب۔ اگر چہ حقیقی فضیلت اور دینی شرافت جو عند اللہ معتبر ہے وہ تقویٰ اور پر ہیز گاری ہے۔ خواہ کسی طبقہ یا کسی قوم کا ہو مگر جبکہ وہ تقویٰ و طہارت سے آراستہ ہے تو اللہ کے نزدیک بزرگ ہے قال اللہ تعالیٰ: اِنَّ اَکْـرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰٿکُمْ. ( ( لیکن مسئلہ کفو کا مدار عرف دنیوی ہے اس لیے جہاں جیسا عرف جاری ہے اسی پر مسئلہ دائر ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (۳).جو شخص جس نسب کے ساتھ معروف و مشہور ہے اسی میں شمار ہے ۔دو تین پشت کا نسب بیان کردینا کافی ہے، باپ اور دادا کا نسب بیان کردینے سے نسب پورا ہو جاتا ہے ۔ ہدایہ میں ہے : لان تمام النسب بالاب والجد ۔ ( ( تنبیہ : کفو کے معنی یہ ہیں کہ مرد عورت سے نسب وغیرہ میں اتنا کم نہ ہو کہ اس سے نکاح عورت کے اولیا کے لیے باعث ننگ و عار ہو کفاء ت صرف مرد کی جانب سے ہے عورت اگرچہ کم درجہ کی ہو اس کا اعتبار نہیں ۔ ہدایہ میں ہے : بخلاف جانبھا لان الزوج مستفرش فلا تغیظہ دناءۃ الفراش۔( ( در مختار میں ہے : ولذا لا تعتبر من جانبھا ؛ لان الزوج مستفرش فلا تغیظہ دناء ۃالفراش وھذا عند الکل فی الصحیح ۔( ( لہٰذاصورت مسئولہ میں ان لڑکیوں کے ساتھ ان کے باپ کے ہم پیشہ اور اہل برادری کو نکاح کرنا بوجوہ نہ خلاف کفو نہ باعث ننگ و عار۔ اول یہ کہ اگرچہ ان لڑکیوں کی ماں نو. مسلمہ ہےلیکن باپ قدیم الاسلام ہے اور باپ ہی سے نسبت قائم ہوتی ہے جیسا کہ نمبر( ۱)میں بحوالہ تفسیر احمدی گزرا ۔لہٰذا لڑکیاں قدیم الاسلام کی اولاد ہوئیں پھر کسی قدیم الاسلام کو بھی ان کے نسب پر کیا اعتراض۔ دوسرے اگر بالفرض ماں کے نو .مسلمہ ہونے سے لڑکیا ں کم درجہ بھی قرار دی جائیں تب بھی چوں کہ کفو میں عورت کی طرف سے مساوات معتبر نہیں جیسا کہ تنبیہ میں ہدایہ کے حوالے سے مذکور ہوا پھر کفاء ت پر کیوں کر دھبہ آئے گا جب کہ لڑکیاں اور ان کی ماں نیک چلن اور پابند شرع ہیں ۔برادری کے اکثر لوگوں کو ان کی نیک بختی کا صحیح اندازہ ہے تو پھر یہ کہنا کہ نسل خراب ہو جائے گی خیال باطل اور گمان فاسد ہے۔ مسلمانوں کو ایسے خیالات کو اپنے دل سے دور کرنا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ ان لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنے سے ان کے باپ کے اہل برادری کو محض اس وجہ سے گریز و پرہیز کرنا کہ ان کی ماں نو.مسلمہ ہے ، کسی طرح مناسب نہیں ان سے نکاح کو معیوب جاننا اور(ضد و) ہٹ کر نا سخت نادانی ہے اور خلاف شرع ہے ۔ بلکہ برادری والوں کو ان کے ساتھ نکاح کرلینا ہی مناسب ہے۔ مسئلہ کفو کے خلاف نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم و احکم(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved