28 March, 2024


تازہ ترین معلومات


فاریکس ٹریڈنگ اور مٹیریل کی قیمتوں میں اتار چڑھاو کے ساتھ تعمیر کا ٹھیکہ کی شرعی حیثیت

پہلی نشست  :     ۱۸؍ ربیع النور ۱۴۴۰ھ /مطابق ۲۷؍ نومبر ۲۰۱۸ء     ـــ منگل   ـــ  صبح

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حَامِدًا و مُصَلِّـيًا و مُسَلِّمًـا

3 دو یا  زیادہ ملکوں کی کرنسیوں کا تبادلہ جہاں جہاں ان کا رواج ہو، جاری ہے۔ چوں کہ کرنسی مال اور ثمن اصطلاحی ہے اس لیے دو کرنسیوں کا تبادلہ عقد بیع ہے۔ اس پر مبادلۃ المال بالمال بالتراضی کی تعریف صادق ہے۔

اب رہا یہ کہ دو ملکوں کی کرنسیوں کی آن لائن خرید و فروخت کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ بھی عقدِ بیع ہے کرنسیوں کا تبادلہ جو لوگ کرتے ہیں، ان کے کھاتوں میں ان کی رقوم کا اندراج رہتا ہے، جسے حکماً قبضہ قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ دو عاقدوں کے درمیان اپنے اپنے مالِ مقبوض کا تبادلہ ہوتا ہے اس لیے اس کے عقد بیع ہونے میں کلام نہیں۔

4 اس معاملے کی تفصیلات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرنسیوں کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں اکثر لوگوں کو اگر آج کی قیمت معلوم بھی ہوتی ہے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آئندہ چند دنوں یا چند گھنٹوں میں کس کرنسی کی قیمت کم ہوگی، کس کی زیادہ ہوگی۔

اس معاملت میں کامیابی کے لیے بہت کچھ سیکھنے، تعلیم و تجربہ حاصل کرنے، اور امانت دار بروکر اور کمپنی کی رہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے اکثر لوگ تہی دست ہوتے ہیں اور ناواقفی کی وجہ سے اپنا سرمایہ کھو بیٹھتے ہیں، جیسا کہ اس شعبے کی کتابوں اور رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۹۰؍ فی صد لوگ اس معاملت سے سخت گھاٹے میں رہتے ہیں اور جو دس فی صد کامیاب ہوتے ہیں ان کے لیے بھی خسارے کا خطرہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ خسارے کا شکار ہوتے بھی ہیں۔

اس لیے مجلس میں بحث و تمحیص کے بعد طے ہوا کہ ناتجربہ کار اور غیر ماہر لوگ اس تجارت میں ہاتھ نہ ڈالیں، ہاں جو لوگ ماہر ہیں اور فائدے کا ظن غالب رکھتے ہیں وہ یہ تجارت کر سکتے ہیں، شرعًا ان کے لیے جواز ہے، مگر یہاں قانونًا اس تجارت کی ممانعت ہے اس لیے وہ بھی اس سے پرہیز کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

مٹیریل کی قیمتوں میں اتار چڑھاو کے ساتھ تعمیر کا ٹھیکہ

 

دوسری نشست  : ۱۸؍ ربیع النور ۱۴۴۰ھ /مطابق ۲۷؍ نومبر ۲۰۱۸ء     ـــمنگل   ـــ  شام

 

بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم

حامداً و مصلّیا گی۔

اس معاملت میں کامیابی کے لیے بہت کچھ سیکھنے، تعلیم و تجربہ حاصل کرنے، اور امانت دار بروکر اور کمپنی کی رہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے اکثر لوگ تہی دست ہوتے ہیں اور ناواقفی کی وجہ سے اپنا سرمایہ کھو بیٹھتے ہیں، جیسا کہ اس شعبے کی کتابوں اور رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۹۰؍ فی صد لوگ اس معاملت سے سخت گھاٹے میں رہتے ہیں اور جو دس فی صد کامیاب ہوتے ہیں ان کے لیے بھی خسارے کا خطرہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ خسارے کا شکار ہوتے بھی ہیں۔

اس لیے مجلس میں بحث و تمحیص کے بعد طے ہوا کہ ناتجربہ کار اور غیر ماہر لوگ اس تجارت میں ہاتھ نہ ڈالیں، ہاں جو لوگ ماہر ہیں اور فائدے کا ظن غالب رکھتے ہیں وہ یہ تجارت کر سکتے ہیں، شرعًا ان کے لیے جواز ہے، مگر یہاں قانونًا اس تجارت کی ممانعت ہے اس لیے وہ بھی اس سے پرہیز کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

مٹیریل کی قیمتوں میں اتار چڑھاو کے ساتھ تعمیر کا ٹھیکہ

 

 و مسلّما

3 آج کل تعمیرات کے لیے ایسے ٹھیکے عام طور پر رائج ہیں جن میں ٹھیکے دار کو تعمیری سامان بھی لگانا طے ہوتا ہے۔ یہ عقد استصناع ہے یا اجارہ یا اجارہ مع بیع ہے؟

اس پر بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے ہوا کہ تمام معاملہ کرنے والوں کے درمیان یہ عقد ٹھیکہ یا اجارہ کہلاتا ہے اور وہ اسے اجارہ سمجھ کر ہی انجام دیتے ہیں، یہی ان کے عرف میں ہے اور اجارہ ہی ان کا مقصود و معمول ہے اور چوں کہ سامان لگانا بھی ٹھیکہ دار کے ذمہ طے ہوتا ہے اس لیے بیع اس میں ضمنًا و تبعاً ہوتی ہے۔ ان دونوں پر نظر کرتے ہوئے یہ معاملہ اصلاً اجارہ ہے جس میں ضمناً بیع بھی ہوتی ہے۔ اور بوجہ تعامل اس کے جواز کا حکم ہے۔

4 دوسرا مسئلہ یہ زیر بحث آیا کہ دورانِ اجارہ سامانوں کی قیمت بہت بڑھ گئی اور ٹھیکہ دار کو خسارہ نظر آیا تو طے شدہ اجارے کی تکمیل اس کے ذمہ لازم ہے یا نہیں؟

جواب میں بعد بحث طے یہ ہوا کہ دونوں طرف سے عقد طے ہو جانے کے بعد جتنے پر معاملہ ہوا اتنے پر اس کی تکمیل ٹھیکہ دار پر لازم ہے۔ عملاً بھی عمومًا یہی ہوتا ہے اور ٹھیکہ دار خسارے میں نہیں ہوتا بلکہ نفع ہی پاتا ہے۔

بالفرض اگر کسی آفت ناگہانی کی وجہ سے غیر معمولی و غیر متوقع خسارے کی شکل سامنے آئی تو ٹھیکہ دار حکومت یا کمپنی یا کسی بھی فریق سے اپنی صورت حال بتاکر مقررہ رقم میں اضافہ کرا سکتا ہے یا اگر ضروری سمجھے تو فسخ عقد پر تیار کرے۔ معلوم ہوا کہ غیر متوقع نقصانات کی شکل میں حکومت کے افسران بھی غور و فکر کرکے ٹھیکہ دار کے خسارے کا ازالہ کرتے ہیں۔

5 تیسرا سوال یہ پیش آیا کہ بڑے ٹھیکے حکّام کو کچھ دیے بغیر حاصل نہیں ہوتے، ایسی صورت میں مسلمانوں کو ٹھیکہ لینا درست ہے یا نہیں؟

اس کے جواب میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ بھی ٹھیکہ حاصل کرتے ہیں ، وہ کچھ دے کر ہی حاصل کرتے ہیں ایسی حالت میں اگر مسلمان اس کاروبار سے یکسر دست کش ہو جائیں تو مزید معاشی پس ماندگی کا شکار ہو سکتے ہیں اور معاشی استحکام حاصل کرنا ان کا حق ہے اور حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے ذرائع معاش فراہم کرے۔

اس لیے مسلمان اگر کچھ دےکر اپنا حق حاصل کریں تو وہ گنہگار نہیں البتہ جو حکّام مال لیتے ہیں وہ ضرور مجرم ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم

 

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved